موذی، پاگل، کتوں کو نہ پالیے
کرونا، زلزلہ، سیلاب، آتش فشانی، جنگلوں میں آ گ کا لگنا، لینڈ سلائیڈنگ، برف کے تودے گرنایہ سب قدرتی آفات کہلاتی ہیں۔ دوسرے حادثات کہلاتے ہیں مثلاََ ہوائی جہاز کریش ہوجانا، ریل گاڑیوں کا ٹکرا جانا یا پٹڑی سے اُتر جانا یا پھر سلنڈر پھٹ جانا۔ گاڑیوں کا کھایوں میں گر جانا یا روڈ ایکسیڈینٹ ہو جانا۔ سمندر، دریا اور نہر میں گرڈوب کر ڈوب جانا۔ چھتیں گر جانا۔ پلازے، فیکٹری، ہوٹل یا گھر میں شارٹ سرکٹ سے آگ لگ جانا۔ گیس پھیلنے سے دم گھٹ کر مر جانا۔ کھانے میں چھپکلی یا زہریلا کیمیکل شامل ہونے سے درجنوں افراد کا مر جانا۔ کنٹرول لائن یا سرحدی خلاف ورزی کے نتیجے میں گولیوں کی بوچھاڑ سے مر جانا، اونچی عمارت سے پائوں پھسل کر مر جانا، کسی راہگیر کا مخالف سمت سے گولی لگنے سے مر جانا۔ لیکن تیسری قسم کی اموات آفات، حادثات، اتفاقات کا نتیجہ نہیں ہوتیں بلکہ یہ سراسر غیر انسانی عمل کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ بظاہر یہ اموات انسانوں کی غفلت، لاپروائی، لالچ، غیر ذمہ داری اور ناقص کارکردگی کی وجہ سے ظہور میں آتی ہیں مگر آپ کسی کی بے وقت اور غیر طبعی موت کے ذمہ دار کا تعین نہیں کر سکتے مثلاْ ہسپتالوں اور نجی کلینکوں میں ڈاکٹرز کی کم علمی اور غفلت کی وجہ سے سینکڑوں مریض ناحق مارے جاتے ہیں لیکن آج تک کسی ڈاکٹر کو غلط علاج پر سزائے موت یا عمر قید نہیں دی گئی جبکہ وہ ٹھیکیدار ہی سو فیصد مریض کو موت کے منہ میں پہچاتا ہے۔ اُ س کی غلط تشخیض اور غلط ادویات سے بے شمار مریض مر جاتے ہیں یا اُنکے عضاء ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ناقص، ملاوٹ زدہ اور جعلی خوراک سے لوگ ہر سال بڑی تعداد میں مر جاتے ہیں لیکن اصلی قاتل کو تلاش کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ چھت گرنے ہر پلُ ٹوٹنے کی وجہ سے جو لوگ مرتے ہیں۔ اُس کے ذمہ دار زیادہ تر کرپٹ انجینئر یا ٹھیکیدار ہوتے ہیں لیکن آج تک کسی بڑے موذی ٹھیکیدار کو سزائے موت نہیں دی گئی ہے۔ کچھ چیزوں کنڑول کر کے غیر طبعی اموات کو رُوکا جا سکتا ہے لیکن ذمہ دار افراد کے اندر احساس نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اسکی ایک چھوٹی بلکہ معمولی سی مثال آوارہ کتُے ہیں۔ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق صرف پنجاب میں ڈیڑھ سال کے عرصے میں کُتے کا ٹنے کے 8935 واقعات سامنے آچکے ہیں یعنی ایک سال میں صرف 365 دن ہوتے ہیں گویا 547 دن میں 8935 افراد کو کُتوں نے کاٹا ہے۔ یومیہ 15 افراد کو آوارہ کُتے کاٹتے ہیں۔ اکثر واقعات سرے سے رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ یہ اعداد و شمار صرف پنجاب سے متعلق ہیں۔ سندھ میں صورتحال اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے جہاں صرف اس سال تیرہ ہزار واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ اگر خیبر پختونخواہ، بلوچستان، گلگت بلتستان کے اعداد و شمار بھی اکھٹے کئیے جائیں تو سالانہ چالیس ہزار افراد کو کُتے کاٹ لیتے ہیں۔ ان میں سے تقریباْ اٹھارہ ہزار لوگ مر جاتے ہیں۔ جو لوگ زندہ بچ جاتے ہیں۔ اُن میں کافی زیادہ ابنارملٹی آجاتی ہے۔ سب سے زیادہ ان کا دماغ متاثر ہوتا ہے اور جسمانی اعضاء میں خلل واقع ہو جاتا ہے۔ یہ صحت مند زندگی سے خارج ہو جاتے ہیں۔ ہمارے سینکڑوں ہسپتالوں میں کتا کاٹنے کی ویکسین تک مو جود نہیں ہوتی۔ اگر ہوتی ہے تو بہت مہنگی ملتی ہے جس کی وجہ سے غریب لوگ اسکا انجکشن لگوانے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ہر روز درجنوں کی تعداد میں آوارہ کتے انسانوں کو کاٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ زیادہ تر غریب افراد پاگل کتوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ پھر انتظامیہ اس کا سدِباب کیوں نہیں کرتی۔ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ پالتو کتوں کو چھوڑ کر تمام گلی محلوں سڑکوں میں پھرنے والے کتوں کو مار دے۔ ٹڈی دل ہوں یا آوارہ پاگل کتے۔ ان سے بنی نوح انسان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ امید ہے متعلقہ محکمہ اس حوالے سے سب سے پہلے قدم اٹھائیں گے اور لوگوں کو بے موت مرنے سے بچائیں گے۔ یاد رکھیں گُڈ گو رنینس تما م موذی، خطرناک اور غلاظتوں سے پاک