اتوار‘یکم محرم الحرام 1441ھ ‘ یکم ستمبر 2019 ء
بجلی کا جھٹکا لگنے پر شیخ رشید نے تقریر ادھوری چھوڑ دی
لگتا ہے یہ بجلی بھی دشمنوں سے ملی ہوئی ہے۔ جبھی تو عین پُرجوش خطاب میں شیخ رشید کو یوں جھٹکا دیا کہ وہ کشمیر فتح کرنے کی بات بھول گئے۔ ان کی ہڑبڑاہٹ اور گھبراہٹ دیکھ کر لوگوں کو دھرنے کے دوران مولانا طاہر القادری کی وہ گھبراہٹ یاد آ گئی جب دوران تقریر ان کے قریب ایک غبارہ کیا پھٹا مولانا کے چھکے چھوٹ گئے۔ یہی حالت شیخ صاحب کی بھی تھی ۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی اور شیخ جی نے تقریر ہی ختم کر دی کیونکہ کافی سارے بچے اور لوگ ان کی تقریر سے زیادہ کرنٹ لگنے پر ان کی خوفزدگی کا مزہ لیتے نظر آ رہے تھے۔ شیخ جی ایک معمولی سے جھٹکے سے اتنا ڈرے کہ فوراً ہی ڈاکٹروں کو بلوا لیا۔ ہمارے ہاں ایسے جھٹکے تو لوگ کئی مرتبہ کھاتے ہیں مگر پرواہ نہیں کرتے۔ ڈاکٹر بھی بڑے سیانے نکلے انہوں نے فوراً شیخ جی کو آرام کا مشورہ د ے کر اے سی والے ٹھنڈے کمرے میں پہنچا دیا۔ کہاں وہ کمیٹی چوک پر دوڑتے ہوئے نعرے لگانے والے شیخ رشید اور کہاں یہ کرنٹ لگنے سے تقریر چھوڑ کر جانے والے صاحب رشید۔ کشمیر پر تقریر کرتے ہوئے انہیں اگر دس جھٹکے بھی لگتے انہیں ہنس کر برداشت کرنا چاہئے تھا تاکہ لوگ انہیں تسلیم کرتے کہ یہ اصل میں کشمیر سے محبت کرنے والے لیڈر ہیں، ورنہ لوگ کیا کہیں گے‘ کرنٹ کے جھٹکے سے ڈرنے والے گولیوں کی بوچھاڑ کا مقابلہ کیسے کریں گے۔
٭٭٭٭٭٭
پٹرول کی بچت کے لیے فواد چودھری کا موٹر سائیکل، رکشے اور چنگ چی بیٹری پر چلانے کا اعلان
بے شک اب تو لوگ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کی بصیرت کے شیدائی ہو گئے ہیں۔ انہوں نے ملک میں تیل کی بچت کے لیے جو نیا تجربہ کیا ہے وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ موصوف کی اچھی خوبی یہ ہے کہ وہ صرف کہتے ہی نہیں کر کے بھی گزرتے ہیں یہی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کا کارنامہ ہوتا ہے۔ ورنہ دعویٰ تو ہر ایک کرتا ہے۔ حقیقت میں کام کوئی کوئی کرتا ہے۔ گزشتہ روز فواد چودھری نے خود بیٹری سے چلنے والی موٹر سائیکل پر کامیاب سواری کر کے دنیا کے سامنے میڈیا پر اس کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس کے بعد انہوں نے چاند گاڑی جسے لوگ چنگ چی کہتے ہیں کو بھی بیٹری پر چلا کر دکھایا جس میں ان کے علاوہ تین چار دیگر افراد بھی سوار تھے۔ یوں ان دو کارناموں کے بعد وہ اس بات کے تو مستحق ہیں کہ انہیں کوئی قومی ایوارڈ عطا کیا جائے۔ ویسے شاید فواد جی بھول گئے تھے کہ چائنا اور دیگر ممالک کی ایسی موٹر سائیکلیں ، سکوٹر اور رکشے پاکستان میں دستیاب ہیں جو بیٹری پر چلتے ہیں۔ انہوں نے کوئی تیر نہیں چلایا۔ ہاں یہ بات ان کی دل کو لگتی ہے اب ملک بھر میں تیل کی بچت کے لیے موٹر سائیکل اور چنگ چی کو بیٹری پر چلایا جائے یہ اچھا کام ہو گا۔ اس سے واقعی ماحولیات پر بھی اچھا اثر پڑے گا اور آلودگی بھی کم ہو گی۔ بس ایک بات پریشان کر رہی ہے کہ ہمارا ملک پہلے ہی بجلی کی قلت کا شکار ہے لوڈشیڈنگ بھی عام ہے تو ان بیٹریوں کے لئے بجلی آئے گی کہاں سے اور بجلی ویسے بھی کون سی سستی ہے۔
٭٭٭٭٭
کشمیریوں کو اپنی جنگ خود لڑنا پڑے گی: مولانا فضل الرحمن
حیرت ہے یہ بات وہ شخص کہہ رہا ہے جو خود دس برس کشمیر کمیٹی کا چیئرمین تھا اور کچھ نہ کرسکا۔آج تک تو ہم یہی سمجھتے آ رہے تھے کہ کشمیری اپنی جنگ گزشتہ 72 برسوں سے خود لڑ رہے ہیں۔ اب مولانا کے اس نئے ارشاد کے بعد تو لگتا ہے شاید کشمیری کرائے کے سپاہی دوسرے ممالک سے منگوا کر لڑائے جا رہے ہیں۔ اب مولانا سے کوئی پوچھے کہ حضرت اگر کشمیری اپنی جنگ خود نہیں لڑ رہے تو کشمیر میں کون لڑ رہا ہے۔ کون اندھا اور معذور ہو رہا ہے، کون قبرستانوں کو آباد کر رہا ہے۔ افسوس کی بات ہے جو جماعت بات بات پر جہاد کا نعرہ لگاتے نہیں تھکتی اس کا قائد کشمیری مجاہدین کے بارے میں اتنا لاعلم ہے۔ مولانا یہ وقت کشمیر کی جنگ آزادی میں شمولیت کا ہے۔ اس کے بارے میں کنفیوژن پھیلانے کا نہیں۔ آپ کے پاس تو بڑی نفری ہے۔ آپ کے تربیت یافتہ تو عام لوگوں کی نسبت جہاد کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں۔ وہ کس کے انتظار میں ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ آگے بڑھ کر کشمیری مجاہدین کی قیادت کریں۔ یہ لاکھوں دینی جماعتوں کے کارکنوں کا کام کیا صرف تقریریں سننا اور الیکشن میں ووٹ ڈالنا ہی رہ گیا ہے۔ خدارا کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کرکے ان کی حوصلہ شکنی نہ کریں۔ ان کے بے لوث جذبوں پر گل پاشی کر کے ان کی حوصلہ افزائی کریں کیونکہ وہ سب تکمیل پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اپنے لاکھوں کارکنوں کو متحرک کریں کہ وہ اس جنگ آزادی میں کشمیریوں کا دست و بازو بنیں۔ اس لیے پہلی فرصت میں آپ کو لائن آف کنٹرول کا رخ کرنا چاہئے۔
٭٭٭٭٭
مختلف شہروں میں ڈینگی پھر سر اٹھانے لگا
ڈینگی ایک بار پھر ہمارا صبر و ضبط آزمانے کے لیے ملک بھر میں کاری وار کر رہا ہے۔ پشاور ، لاہور، کراچی، راولپنڈی میں اس کے بے شمار کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ حکومت بھی چوکنا ہے۔ اب دیکھنا ہے یہ سالہ معمولی مچھر میدان مارتا ہے یا حکومت کا طاقتور محکمہ صحت۔ سارا مسئلہ غریب کمزور عوام کا ہے جس کے بدن میں کاٹو تو لہو کی اک بوند بھی نہیں، اوپر سے یہ ڈینگی کا خون چوسنے والا مچھر اس مرطوب موسم میں ہر سال کی طرح اس سال بھی آ کر اپنا حصہ وصول کرنے پر تلا ہوا ہے۔ پچھلی حکومت کے دور میں جب اس ڈینگی نے وبائی شکل اختیار کر لی تھی تو خوب فوگ سپرے ہوتا تھا محکمہ صحت اور ڈینگی بچائو والی ٹیمیں شہر شہر گائوں گائوں جاتیں ادویات کا بندوبست کیا جاتا ، سپرے ٹیمیں گھر گھر سپرے کرتیں اب فی الحال یہ کام ماٹھا پڑا ہے۔ حکومت کو فوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ کراچی میں حالت زیادہ خراب ہے وہاں حیرت انگیز طور پر گزشتہ دنوں ڈینگی کے جو 200 مریض ہسپتال لا ئے گئے وہ سب چینی تھے۔ نجانے کیوں یہ بے چارے منحنی سے چینی ڈینگی مچھر کے ایک ہی حملے میں ڈھیر ہو گئے ورنہ کراچی والے تیلی پہلوان بھی ایسے مچھروں کے متعدد وار سہہ جاتے ہیں۔ صوبائی وزیر صحت سندھ نے اس مسئلے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے کہ یہ چینی ہی کیوں ڈینگی زدہ ہو گئے۔ امید ہے اب پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے قائد کی روح کو خوش کرنے کے لیے ان کے پسندیدہ ملک چین کے شہریوں کو ڈ ینگی سے بچانے کے لیے کراچی میں مچھر مار سپرے ضرور کرے گی۔اس طرح کراچی والوں کو مچھر کے ساتھ ساتھ مکھیوں کی شدید یلغار سے بھی نجات مل جائے گی۔
٭٭٭٭٭٭