محمود علی ہندوستان کے شمال مشرقی حصہ میںاور عالم باغ سنام گنج سلہٹ بنگال میں ٰیکم ستمبر1919ء کو مولوی مجاہد کے ہاں پیدا ہوئے۔والد کا سایہ ڈیڑھ سال کی عمر میں اٹھ گیا ۔چچا نے دیکھ بھال کی تاہم عظیم ماں مجتبیٰ خاتون نے ان کی پرورش میں کوئی وقیقہ فرد گذاشت نہیں کیا۔غم کی داستان کے ساتھ بیٹے میں مسلم قوم کو بیدار کرنے کے اصول پیوست کر دئیے اور خلاقی قدروں سے اس قدر نوازا کہ وہ آخری دم تک مصلح قوم، محب وطن، اصول پرست پاکستانی بن کر زندہ رہے۔ والدہ نے اور خاندانی دینی اور سیاسی ماحول حالات میں محمود علی کا ذہن بچپن ہی سے مثبت خطوط پر استوار کر دیا اور دماغ کے خلیوںکو حقیقی روشنی تلاش کرنے کے مراحل سے گزارا گیا۔
محمود علی کے متحرک ذہن کی تشکیل ہوئی جس میںجمود نہ آسکا اور 18نومبر 2006ء کو لاہور میں مون لائٹ سکول میں تقریر کرتے ہوئے اللہ کو پیارے ہو گئے ۔محمود علی کی خوش بختی یوں بھی تھی کہ ان کے چچا مولوی منور علی صاحب دینی علوم کے علاوہ سیاسی ذہن بھی رکھتے تھے وہ عوام میں ہر دلعزیز بھی تھے اور سات برس تک آسام حکومت میں وزیر بھی رہے۔ اسی طرح انکے دوسرے چچامولوی مصادر علی آسام کی صوبائی ایگزیکٹیو سروس میں شامل ہوئے۔ گویا خاندان میں ہنگامہ آرائی کے بیج موجود تھے۔پھر تقاضا بھی یہی ہوا کہ محمود علی نے چمکنا بھی ضرور تھا۔ مذہبی گھرانہ تھا ،تعلیم سے لگائوتھا۔سچائی کی فضا تھی خدمت انسانی کاجذبہ تھااور ماحول کے بدلنے کے خواب موجود تھے۔یتیم محمود علی نے سنام گنج حویلی ہائی سکول سے میٹرک 1937ء میں کیا اور ایم ایس سی سلہٹ کالج میں داخلہ لیا۔ ساتھ سینٹ ایڈ منڈکالج اور سینٹ ایتھونی کالج شیلامگ میں داخل ہوئے اور انگریزی زبان میں آنرز کیا۔ یاد رہے کہ تقسیم ہندسے قبل ہند کے شمال مشرقی حصہ (پاکستان)میں تعلیمی ادارے ناپید تھے اور تعلیم حاصل کرنا مسلمانوں کیلئے بڑا کارنامہ ہوتا تھا۔ کیونکہ تعلیمی اداروں میں ہندو ٹیچرز تھے۔ ان اداروں میںمسلمان طلباء وطالبات بہت کم تھیں۔ انگریز نے جب ہندکے شمال مشرقی حصہ پر 1753ء میں قبضہ کیا۔ عیسائیت کے فروغ کے لئے تعلیمی ادارے بطور چرچ بنائے گئے۔ اس طرح انگریزی زبان انگریزی کلچر، تمدن کو اور عیسائیت کو فروغ ہوا ۔چنانچہ محمود علی نے عیسائی تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی ۔ان کے انگریزی زبان نہایت اعلی درجہ کی تھی اور تحریر بھی دل و نگاہ سے کرتے تھے کہ ان کے قلم میں انگریزی کا تقدس زیادہ تھا۔ آپ نے اقتصادیات پر ایک انگریزی میں کتاب تحریر کی اور concept انگریزی کا مجلہ بڑی کامیابی سے اسلام آباد سے شائع کیا۔ جس میں تحریک پاکستان کے حالات نوجوان نسل کو آشنا کیاجاتا۔1942ء میںانگریز ی زبان میں ٓانرز کی گریجویشن کے بعد کچھ عرصہ کاروبار کرنے کی کوشش کی مگر ذہنی خلیوں امانت اور دیانت تھی۔ لہٰذا اپنے بزرگوں کے خوابوں کو جوڑنے کیلئے آسام مسلم سٹوڈنٹس فیدریشن کے صدر چنے گئے اور 1944ء میں مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے ممبر اور دو سال بعد 1946ء میں مسلم لیگ کے اندر کام کیا۔ لہٰذا آسام مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری منتخب ہو گئے۔ نوجوان تھے‘ جوش تھا‘اچھے مقرر تھے‘انگریزی زبان پر عبور تھا۔ شخصیت کے اندر خودی اور confidence تھا۔ لوگوں نے پذیرائی کی۔ عزم اور یقین کے ساتھ مسلم لیگ کے پرچم کے وفادار ہو گئے۔
1946ء کا زمانہ آزادی وطن کے قریب تر کا زمانہ تھا۔ سارے ہندوستان میں الیکشن ہونے تھے۔ مسلمانوں کے اندر شعور مسلم لیگ کی قیادت نے ڈال تو دیا تھا۔ مگر کچھ ایسے علاقے تھے جہاں کانگریس کی حکومت کی وجہ سے مسلم لیگ کی پوزیشن کمزور تھی مثلاًسرحد میں 1946کے الیکشن میںمسلم لیگ نے17نشستیںحاصل کیں جبکہ کانفریس نے 21حاصل کیں۔ لہٰذا سرحد میں کانگریس کی حکومت 1946ء میں قائم ہو گئی ۔کل نشستیں50تھیں۔ 12نشستیں ہندو اور سکھوں کیلئے اور 38مسلمانوں کیلئے۔
اسی طرح سلہٹ میں مسلمانوں کی پوزیشن کمزور تھی۔ محمود علی صاحب نے جوشیلے انداز میں لائن سسٹم کے خاتمے کی تحریک کا آغاز کردیا اور جوں ہی یہ تحریک کھل کر سامنے آئی۔ مظلوم لوگوں نے اس کا ساتھ اس قدر دیا کہ یہ سول نافرمانی کی تحریک بن گئی۔ انگریز سرکار نے ہزاروں نوجوانوں اور لیڈروں کو جیل بھیج دیا۔ لاء اینڈ آڈرز ختم ہوگیا۔ ہل چل مچ گئی۔ محمود علی صاحب کو بھی گرفتار کرکے دھبری آسام کی مشہور جیل میں مہمان کرلیا۔ تحریک زور پکڑتی گئی۔ لارڈ مائونٹ بیٹن آخر وائسرائے ہند تھے نے آزادی تقسیم ہند کا اعلان 3جون کو آل انڈیا ریڈیو سے کیا۔
محمود علی صاحب جیل سے رہا ہوئے۔ جیل سے باہر آئے لیکن آرام کیسے آتا‘ سلہٹ کو پاکستان میں شامل کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔ ریفرنڈم کا اعلان ہوا۔ لہٰذا8جولائی 1947ء کو ریفرنڈم ہوا اور ضلع سلہٹ مسلم بنگال پاکستان کا حصہ ہوا۔ یہ بھی محمود علی کی سیاسی جدوجہد اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت پر انحصار تھا۔ ایسا ماحول تھا۔ لوگ گھروں سے باہر سڑکوں پر آئے۔ گویا آسمان کے ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر زمین پر پڑتے اور آواز آتی پاکستان زندہ باد‘ قائداعظم محمد علی جناحؒ زندہ باد‘ اسلام زندہ باد‘ نوجوان محمود علی کا یہ بڑا کارنامہ تھا کہ سلہٹ کے لوگوں نے پاکستان کا ساتھ دیا۔ گویا محمود علی صاحب پاکستان بنانے والے نڈر سپاہی تھے۔ پاکستان سے محبت ان کا نصب العین بن کر رہ گیا۔ ان کے نظریات‘ کردار تحریک پاکستان میں منفرد تھے۔ پاکستانیت اور حب الوطنی اس حد تک ہوگئی کہ سانحہ 1971ء مشرقی پاکستان ہم سے چھن گیا۔ محمود علی صاحب نے اپنی زبان سے کبھی بھی بنگلہ دیش نہیں کہا۔ ان کو دھچکہ لگا کہ یہ کیا ہوگیا؟ جس حصہ کیلئے اُنہوں نے جوانی صرف کی‘ جدوجہد کی‘ وہ گہرا زخم نہ برداشت کرسکے۔ مشرقی پاکستان کے جدا ہونے کا غم اور روگ انہیں کھا گیا۔ ہر انسان کو اپنی مٹی سے بڑا پیار ہوتا ہے۔ جہاں پیدا ہوئے۔ پڑھے‘ جوان ہوئے‘ شادی ہوئی‘ جیل گئے اپنے علاقہ کی بہاریں‘ قدرتی مناظر‘ درخت‘ فصلیں‘ عزیز و رشتہ دار‘ اساتذہ و دوست سب کو چھوڑ دیا۔ اپنے آپ کو حسین پاکستان کی مٹی میں سپرد ہونے کیلئے وقف کردیا کہ اب وہ اس زمین میں نہیں جائیں گے‘ جو بنگلہ دیش بن کر پاکستان نہیں رہی۔ انہوں نے بڑی نفسیاتی جنگ لڑی۔ اپنے جذبات کو قابو میں رکھا۔ صرف پاکستان کے لیے ہوکر رہ گئے۔ یہ بڑے صبر آزما لمحات ہیں۔ جن پر محمود علی صاحب نے قابو پایا۔ وہ قائداعظم محمد علی جناحؒ آل انڈیا مسلم لیگ کے زعماء کا پاکستان چاہتے تھے اور پاکستان کو از سر نو جوڑنے کی مہم میں لگ گئے۔ عمر رسیدہ ہونے کے باوجود ان میں جوش پاکستان وسیع طرز کا موجود تھا۔ سٹیج پر آتے تو شیر کی طرح دھاڑتے‘ للکارتے‘ ہر حکومت پر تنقید کرتے۔ پاکستان بن جانے کے بعد تعمیری کاموں میں لگ گئے۔ مشرقی پاکستان میں ہندو ٹیچرز اور ہندو سیاستدان زیادہ تھے۔ وہ پاکستان کیلئے مسائل پیدا کرتے رہے۔
1950ء میں فسادات پیدا ہوگئے۔ محمود علی امن کے داعی تھے۔ تو آپ نے سلہٹ میں امن مشن قائم کیا۔ لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا اور اس مشن کی بدولت فضا امن کی طرف راغب ہوئی۔ محمود علی بڑے متحرک‘ جوشیلے ورکر تھے۔ تاہم سیفٹی ایکٹ کے تحت ڈپٹی کمشنر ایچ ایم نعمانی نے ان کو نظر بند کردیا۔ جب ملک میں فسادات ہوں تو وزیراعظم پاکستان کو فسادات کے علاقوں میں جانا پڑتا ہے۔ چنانچہ خان لیاقت علی خان نے سلہٹ کا دورہ کیا اور مسلم لیگ کے جوشیلے ورکر کا پوچھا۔ نظر بندی کا علم ہوا تو ان کو (محمود علی) وزیراعظم کی بدولت رہائی میسر آئی۔ چونکہ محمود علی جوان تھے۔ لہٰذا یوتھ لیگ کی تنظیم نو1951ء میں کی گئی تو محمود علی صاحب کو اس یوتھ لیگ کا صدر چنا گیا۔ مزید اُن کا امتحان ہونے لگا۔ ہندو ٹیچرز نے طلباء میں اُردو کے خلاف میٹھی میٹھی باتوں میں Brain Washکر رکھا تھا۔ مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کی حکومت تھی۔ ادھر ٹیچرز نے بنگالی زبان کی آگ سلگا رکھی تھی۔ طلباء اور نوجوان اُردو کے خلاف ہوچکے تھے۔ مسلم لیگ کی حکومت قومی زبان اُردو پر قائم تھی۔ مقامی لوگ بنگالی زبان کے حق میں تھے۔ لہٰذا اس جھگڑے میں محمود علی صاحب نے مسلم لیگ سے علیحدگی اختیار کرلی۔ کیونکہ اُردو کے مسئلہ پر بڑے فسادات ہوئے۔ محمود علی صاحب نے اپنے ہم خیال سیاسی ورکروں کی ایک نئی جماعت پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی تشکیل کرلی اور لوگوں نے محرک پارٹی کو جنرل سیکرٹری منتخب کرلیا۔ وقت گزرتا گیا۔ خلیج بڑھتی گئی۔
1954ء کے انتخابات ہوئے محمود علی اپنی سیاسی ہر دلعزیزی کی وجہ سے متحدہ محاذ کے پلیٹ فارم سے سٹام گنج سے الیکشن میں جیت گئے اور مشرقی پاکستان اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ سیاسی حالات خراب ہوتے گئے۔ اسیری محمود علی کے مقدر میں تھی۔ مگر اس دفعہ ان کے گھر والوں کو بھی‘ رشتہ داری کو گورنر راج نے اسیر بنا لیا۔ اہلخانہ نے 8ماہ تک جیل کی ہوا کھائی اور وہیں کی روٹی کھاتے رہے۔ جبکہ محمود علی صاحب نے 14ماہ کا عرصہ جیل میں گزرا پھر باہر آئے۔ دستور ساز اسمبلی آئین پاکستان اس لیے نہیں پاس کرسکی کہ اس میں مشرقی پاکستان کے ہندو ممبر بھی تھے اور لوگوں کا میٹنگ میں شامل ہونا‘ موسم کے اعتبار سے مشکل تھا۔ 1955ء میں وہ دستور ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ حکومت کا اعتبار ان پر اُٹھ گیا۔ دوبارہ سیفٹی ایکٹ کے محمود علی صاحب کو گرفتار کرکے کراچی جیل بعد میں ڈھاکہ جیل رکھا گیا۔ 1956ء میں عوامی لیگ اور پاکستان ڈیموکرٹیک پارٹی کی مخلوط حکومت بنی وہ وزیر تعلیم اور وزیر صحت مقرر کیے گئے۔ لہٰذا یہاں بھی وہ آرام سے حکومت نہ کرسکے۔ ان کے اپنے خیالات تھے۔ وہ ان پر قائم تھے۔ چنانچہ 1957ء میں کابینہ سے مستعفی ہوگئے۔ سیاسی اُتار چڑھائو میں وہ جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کے خلاف تھے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد صدر کے مشیر اور پھر تاحیات وفاقی وزیر رہے۔یکم ستمبر 2019ء کو اُن کی یومِ ولادت کی صدسالہ تقریبات منعقد کی جائیں گی۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024