ہفتہ‘ 20 ذی الحج 1439 ھ ‘ یکم ستمبر2018ء
فضل الرحمن نے مایوس کیا:خورشید شاہ
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ بات پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ کر رہے ہیں۔ عملاً تو فضل الرحمن کو کرنی چاہئے کہ پیپلزپارٹی طے شدہ معاہدے کے باوجود متحدہ اپوزیشن کے غبارے میں سوراخ کرکے اس کی ساری ہوا نکال دی اور اپوزیشن متحدہ صدارتی امیدوار کھڑا کرنے سے محروم ہو گئی۔ کیا خورشید شاہ کو یاد نہیں کہ متحدہ اپوزیشن نے کیا فیصلہ کیا تھا اور وزیراعظم کے انتخاب میں قومی اسمبلی میں اس فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پیپلز پارٹی نے کیا روند مارا تھا۔ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے مولانا فضل الرحمن کی نامزدگی تو آخری حربہ تھا۔ پیپلزپارٹی والوں کو راہ راست پر لانے کا کیونکہ مولانا سے نوازشریف اور آصف زرداری کے یکساں خوشگوار تعلقات پچھلے دس پندرہ برسوں سے قائم ہیں۔ اب اعتزاز احسن کی شکل میں پیپلزپارٹی جو گیم کھیل رہی ہے وہ صرف اور صرف جوابی کارروائی ہے۔ مولانا جو عام الیکشن میں شکست کے بعد خاصے فارغ نظر آ رہے تھے اب ایک بار پھر متحرک ہو گئے ہیں۔ سندھ بلوچستان، پنجاب میں ان کا حلقہ احباب وسیع ہے اور حامی بھی ہیں۔ خیبر پی کے تو ہے ہی انکا صوبہ۔ اس کے برعکس اعتزاز احسن کو ایسا وسیع حلقہ دستیاب نہیں۔ معروضی صورتحال میں حکومتی امیدوار کا مقابلہ کرنا اب اپوزیشن کے بس میں نہیں رہا ہاں البتہ مولانا فضل الرحمن کو اعتزاز احسن کے مقابلے میں کافی برتری رہے گی۔ تاہم حکومتی امیدوار کے مقابلے میں وہ شاید ہی کامیاب ہو سکیں جو بھی ہوا ان کی اس ہار میں سب سے بڑا ہاتھ پیپلزپارٹی کا ہوگا۔
٭........٭........٭
نامزد گورنر خیبر پی کے نے احتساب کمشن کو ختم کرنے کا عندیہ دیدیا
لگتا ہے گزشتہ پانچ برسوں سے خیبر پی کے میں پارساﺅں کی حکومت رہی جبھی تو خیبر پی کے میں قائم احتساب کمشن گزشتہ 5برس سے عضو معطل بنا ہوا تھا۔ اسے کسی کارروائی کی اجازت نہیں تھی۔ اب اس کے ڈیتھ وارنٹ بھی جاری ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس کمیشن نے صوبے میں بدعنوانی اور کرپشن کے الزامات پر جب حکومتی وزراءکیخلاف ایکشن لینا چاہا تو اس وقت وہاں قائم تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی اتحادی حکومت نے اس کے ناخن اور پرکتر کر اسے بے کار کردیا تھا۔ یوں گزشتہ 5سالوں میں خیبر پی کے میں ہر طرف سب اچھا کی چہکار سنائی دی گئی اور احتساب کمیشن کسی کا کیا احتساب کرتا خود اپنے پر ہونے والے ظلم وستم کیخلاف بھی فریاد نہ کر سکا۔ اب اس کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ 5برسوں میں صوبے میں ہر طرف چین ہی چین تھا۔ یہ جو بدعنوانی، کرپشن، لوٹ مار اور اقربا پروری کی داستانیں پھیلیں وہ سب جھوٹ تھیں۔اب 2018ءمیں نئے نامزد گورنر خیبر پی کے نے صوبے میں ہر طرف نیک اور صالح نظام حیات اور کاروبار کو اسی طرح چلانے کیلئے اس بے حیثیت احتساب کمشن کے خاتمے کا جو عندیہ دیا ہے اس کے بعد کہیں باقی صوبوں کے گورنر اور وزراءبھی ایسے بیانات جاری کرنا نہ شروع ہو جائیں کہ اب ان کے صوبوں میں بھی احتساب کمیشن کو باقی رکھنے کی ضرورت نہیں اس لئے انہیں بھی ختم کیا جائے۔
٭....٭....٭
ملتان کے لکھ پتی بھکاری کا بھاشا ڈیم فنڈ میں 10 لاکھ روپے دینے کا اعلان
اگر یہی جذبہ ہماری قوم کے باقی افراد میں بھی بیدار ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں کاغذوں میں بننے والے وہ تمام منصوبے زمین پر بھی بنتے نظر آئیں جن کے لئے برسوں سے ہماری حکومتیں فنڈز جمع کرتی ہیں جاری کرتی ہیں مگر کچھ پتہ نہیں چلتا کہ یہ فنڈز کہاں جاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے اس درد دل رکھنے والے بھکاری کو یقین ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان ضرور از ضرور پانی کی قلت دور کرنے کے لئے ڈیمز کی تعمیر کروا دیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہماری حکومت اس عزم بالجزم میں کتنا پورا اترتی ہے۔ یہ تو بھاشا اور مہمند ڈیم ہی تعمیر کر لیں تو ان کی بڑی مہربانی ہو گی۔ کیونکہ کالا باغ ڈیم کے نام پر تو ہمارے حکمرانوں کی گھگی بند جاتی ہے۔ چند مٹھی بھر قوم پرست جو سرحد پار سے ملنے والی چوپڑی کھانے کے عادی ہیں ان کے شور و غوغا سے گھبرا جاتے ہیں۔ شرم کی بات تو یہ ہے کہ ایسے قوم پرستوں کو پاکستانی قوم ہر الیکشن میں دھکے مار مار کر عوامی نمائندگی سے محروم کرتی ہے تو پھر ان مسترد شدہ لوگوں سے ڈرنا کیسا۔ فی الحال بھاشا اور مہمند ہی سہی چلیں اس طرح کچھ نہ کچھ تو بن کے رہے گا ۔ کالا باغ ڈیم میں ایک فائدہ یہ ہے کہ اس کی تعمیر کا ابتدائی کام مکمل ہے اب صرف اس کی تعمیر شروع کرناہے جو کم از کم وقت میں مکمل ہو سکتی ہے۔ جتنی دیر میں بھاشا یا مہمند ڈیم کے ابتدائی کام کا آغاز ہوتا اتنے عرصہ میں کالا باغ ڈیم تعمیر ہو کر بھارت کے سینے پر مونگ دل رہا ہو گا اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے حکمران دلیرانہ فیصلے کریں پھر دیکھیں عوام کس طرح ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں۔ ایٹم بم تو بن گیا اب کالا باغ ڈیم بنا کر عمران خان اپنا نام تاریخ میں امر کر سکتے ہیں۔
٭........٭........٭
برطانوی وزیراعظم نے انرجی ڈرنکس پر پابندی لگا دی
فی الحال تو یہ پابندی 16 سال سے کم عمر بچوں کے انرجی ڈرنکس کے استعمال اور فروخت پر لگائی گئی ہے تاکہ وہ اس کے مضر اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔ فاسٹ فوڈ اور انرجی ڈرنکس کی وبا نے اس وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ نوجوان خاص طور پر اشتہارات دیکھ کر ان کے سحر میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور انہیں لذت و طاقت کا سرچشمہ سمجھتے ہیں۔ حقیقت تب کھلتی ہے جب ان انرجی ڈرنکس کی وجہ سے یہ بچے اور نوجوان اپنے دانتوں اور آنتوں سے محروم ہونے لگتے ہیں۔ توانائی کیا حاصل کرنی یہ قبل از وقت ہی ہڈیوں کی بیماریوں میں مبتلا ہونے لگتے ہیں۔ اب برطانوی وزیر اعظم کا یہ فیصلہ پوری دنیا کے ساتھ ساتھ ہمارے حکمرانوں کے لئے بھی قابل تقلید ہے۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں بھی مغرب کی نقالی عام ہے اور ہم ہر وہ کام کرنا فرض سمجھتے ہیں جو مغرب میں ہو رہا ہوتا ہے۔ مغرب کے برعکس ہمارے ہاں تو اگر کسی چیز پر پابندی بھی لگائی جائے اس پر عمل ہوتا نظر نہیں آتا۔ سگریٹ کو ہی دیکھ لیں 18 سال سے کم عمر افراد کو اس کی فروخت کی اجازت نہیں مگر ہمارے ہاں کم سن بچے اور بچیاں گھر والوں کے لئے سگریٹ خریدتی نظر آتی ہیں اور سرعام کم عمر لڑکے سگریٹ پیتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ امید ہے حکومت ہمارے ہاں بھی مضر صحت انرجی ڈرنکس کی سکولوں اور کالجز میں فروخت پر پابندی کے فیصلے پرسختی سے عمل کر کے بچوں کو ا س بیماری سے محفوظ رکھنے کی بھرپور کوشش کرے گی۔
٭........٭........٭