دانشمند پچھان کریندے

حضرت میاں محمد بخش صاحبؒ سات ذوالحج انیس سو چوبیس کو عیسوی کیلنڈر کے مطابق 22 جنوری 1907 ء اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ آپ ؒ کی قبر اپنے روحانی مرشد حضرت پیرا شاہ غازی قلندرؒ کی تربت سے چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ آپ ؒ کا عرس مبارک ہجری کیلنڈر کے مطابق منایا جاتا ہے اس لیے ہجری کیلنڈر کے مطابق موجودہ عرس مبارک ایک سو چودھواں ہی بنتا ہے۔
پنجابی زبان میں صوفی شاعری کی روایت بارھویں صدی عیسوی میں شروع ہوئی جب ہمارے ہاںسلسلہ چشتیہ کے عظیم صوفی بزرگ حضرت بابا جی فرید شکرگنج ؒ نے پنجابی میں اشلوک کہے اور پھر صوفیائے کرام کی ایک لڑی موجود ہے جس نے عوام الناس کی زبان پنجابی میں تواتر سے شاعری کی۔ یہ سلسلہ باالاخر انیسویں صدی عیسوی میں حضرت خواجہ غلام فرید مٹھن کوٹی ؒ اور حضرت میاں محمد بخشؒ تک چلا آتا ہے۔اس میں شک نہیں کہ ہمارے ہاں درجنوں ایسے صوفی شعراء کی کہکشاں موجود ہے جن کی شاعری کو دنیا بھر کی کسی بھی زبان کی شاعری کے ہم پلہ بلکہ کہیں بہتر طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پنجابی زبان سے ناآشنائی اور رغبت کی کمی کے رویوں نے اس کہکشاں کی روشنی کے آگے دیوار کھڑی رکھی ہے۔
شاید یہ ہی ایک وجہ ہے کہ سارے جہان سے با لکل متضاد پنجاب وہ واحد خطہ ہے جہاں بچوں کو تعلیم اُن کی مادری زبان پنجابی کی بجائے بدیسی زبانوں میں دی جاتی۔پنجاب پر قابض لوگے سوچتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پنجابی بچے اپنی دھرت سے گہرا تعلق جوڑ لیں اور صوفیاء کی شاعری پڑھ کر سُرت سنبھال لیں۔مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ یہ لسانی پابندی مُلک کی دیگر اقوام پر عائد نہیں۔ ایسے میں ان پنجابی صوفی شاعروں کے کلام کو عارفانہ کلام کہہ کر لوگوں کو زبان کی طرف کم مگرنام کے عرفان کی طرف رکھنا مقصود ہے تاکہ عام لوگ ان صوفی بزرگوں کی تقدیس تک ہی محدود رہیں، چڑھاوے و چادریں چڑھائیں، منتیں مانیں، غلوں (صندوقچوں) کو ہی بھرتے جائیں مگر جو کچھ انہوں نے لکھا اور کہاہے اُس سے آگاہی حاصل نہ کریں اور نہ ہی اپنے شعور کو جگائیں۔ ریاست کااستحصال کرنے کا جو بھی بیانیہ ہو اُسے من وعن قبول کر لیں۔
آج اس مضمون کا رخ حضرت میاں صاحبؒ کے نام منسوب اُن اشعار کی طرف ہے جو عوام الناس میںخاصے مشہور ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ اشعار حضرت میاں محمد بخشؒ کی کسی کتاب و تحریری لکھت میں موجودنہیں۔ آپؒ نے کم وبیش اٹھاراں کتابیں لکھیں۔ ان میں سترہ کتب پنجابی زبان میں جبکہ ایک کتاب فارسی میں ہے۔ پنجابی زبان میں آپ ؒ نے کم و بیش اٹھائیس ہزار اشعار یعنی چھپن ہزار مصرعے لکھے ہیں۔ جن کا تحریری ثبوت موجود ہے۔صرف مثنوی سیف الملوک (اصل نام سفرالعشق)میں نو ہزار دو انچاس اشعار ہیں۔ایک آدھ کو چھوڑ کرسارے کے سارے پرانے و نئے سنگرز خواتین و حضرات میاںمحمد بخش صاحبؒ کے اصل اشعار کوایک طرف رکھ کر ایسے اشعار جوڑتے ہیں جِن کو پڑھنا تقدیس کے زمرے میں نہیں آتا۔ پھر سوشل میڈیا کے کھلاڑی سوشل میڈیا پر بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ایسے اشعار اپ لوڈ کرتے چلے جا رہے ہیںجو انہوں نے کہے ہی نہیں۔ گویا ہمارے ہاں اس طرح کی حرکات باقاعدگی کے ساتھ کی جاتیں ہیں۔ حقیقت میں یہ اُس قابلِ احترام عظیم صوفی بزرگ کے ساتھ مذاق کرنے کے مترادف ہے۔ حضرت میاںمحمد بخش جیؒ کے نام منسوب کچھ اشعار نمونے کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔یہ اشعار حضرت میاں محمد بخش جیؒ کے نہیں ہیں۔
یہ منسوب شدہ اشعار حضرت میاں صاحبؒ کی کسی کتاب میں نہیں ہیں:
دُشمن مرے خوشی نہ کرئیے سجناں وی مر جانا
دیگر تے دِن گیا محمدؔ اوڑک نوں ڈُب جانا
اِک گناہ میرا ماں پیو ویکھے، دیوے دیس نکالا
لکھ گناہ میرا اللہ ویکھے، اوہ پردے پاون والا
اوہ بیلی تے ہر کوئی بیلی، ان بیلی وی بیلی
سجناں باہجھ محمد بخشاؔ سنجی پئی حویلی
بھائی بھائیاں دے درد وڈاندے بھائی بھائیاں دیاں باہواں
باپ سراں دے تاج محمدؔ ماواں ٹھنڈیاں چھاواں
ڈیگر ٹلی تے شاماں پئیاں سب گھراں نوں آئے
اوہ نہ آئے فیر محمدؔ موت جنہاں لے جائے
عدل کریں تاں تھر تھر کمبن، اُچیاں شاناں والے
فضل کریں تاں بخشے جاون، میں جیہے منہ کالے
مالی دا کم پانی دینا بھر بھر مشکاں پاوے
مالک دا کم پھل پُھل لانا لاوے یا نہ لاوے
لے فیر یار حوالے رب دے میلے چار دناں دے
اُس دن عید مبارک ہو سی، جس دن فیر مِلاں گے
میں نیواں میرا مرشد اُچا، اُچیاں دے سنگ لائی
صدقے جاواں انہاں اچیاں توں جنہاں نیویاں نال نبھائی
راقم یہ بات تسلی سے لکھ رہا ہے کہ درج بالا اشعارحضرت میاں صاحبؒ کی کسی کتاب میں نہیں۔راقم نے صاحبزادہ میاں محمد ساجد، میاں ریاض اور شہباز علی قادری کی معاونت سے ایسے اشعار جو میاں صاحبؒ کی کسی کتاب میں نہیں انہیں اکٹھا کر کے ایک کتابچے کی شکل میں شائع کیا ہے جومفت تقسیم جاتا ہے۔ میں نے جب یہ مضمون چوہدری محمد انور سماں ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور کے ساتھ اعادہ کیا تو انہوں نے پذیرائی کرتے ہوئے کہا کہ یہ مضمون بہت عرصہ پہلے حضرت میاں محمد بخشؒ کے ساتھ عقیدت رکھنے والوں کے علم میں آ جانا چاہیے تھا بہرحال اب بھی یہ کوشش درست کلام کی ترویج میںایک نشانِ منزل ہوگی۔کیوں کہ ایسا شاعر جس کا پہلا مصرعہ دعویٰ اور دوسرا مصرعہ دلیل ہو اُس کو نقل کرتے ہوئے ہم پلّہ شعر اُن کی شاعری میں ضم نہیں کیا جا سکتا۔
سرکار حضرت میاں محمد بخشؒ نے خود سیف الملوک میں ارشاد فرمایا ہے کہ
دانشمند پچھان کریندے، عاماں سار نہ بھائی
لکڑ ہارے لین بزاروں جو سستی مٹھیائی
دانشمند پہچان کرتے ہیں، جبکہ عام لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہوتے ہیں، لکڑہارے سے مراد وہ لوگ جو عقل و شعور کی بجائے کُلہاڑے کا استعمال کرتے ہیں وہ سستی مٹھیائی پر ہی ریجھ جاتے ہیں، مطلب ہے کہ اوہ عامیانہ باتوں میں دِل بہلاتے ہیں۔
سب احباب سے ایک ہی گذارش ہے کہ اس طرح کے اشعار جو آپ کی کسی کتاب میں نہیں اُن کو سوشل میڈیا پر نہ پھیلائیں۔ اور دوسرا درج بالا منسوب شدہ اشعار کو یہاں لکھنے کا ایک ہی مقصد تھا کہ ان اشعار کو چھوڑ کر حضرت میاں محمد بخشؒ کے اصل کلام تک رسائی حاصل کریں۔ خدارا! تھوڑی بہت تحقیق کر لینے میں کیا ہرج ہے۔ محکمہ اوقاف آزادکشمیر کی طرف سے شائع شدہ میاں صاحبؒ کی تصنیف سیف الملوک مکمل طور پر نہیں لیکن کِسی حد تک غلطیوں سے مبراہے۔دربار عالیہ سے اُسے خرید کر پڑھیں۔ حکومتِ پنجاب اور حکومتِ آزادکشمیر حضرت میاںمحمد بخشؒ کے غلطیوں سے پاک کلام کو شائع کرنے کا انتظام کریں اور نہایت ہی کم قیمت پر عام مخلوقِ خدا تک پہنچائیں۔ ہماری یہ حکومتیں اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ حضرت میاں محمد بخش ؒ کا شمار گنتی کے اُن چند اولیائے کرام میں ہوتا ہے جنہوں نے روحانی بلندیوں تک رسائی حاصل کی لیکن ساتھ ہی ساتھ مخلوقِ خدا کی رشدوہدایت کی خاطر ایسا روحانی ،علمی وادبی ورثہ چھوڑا جو رہتی دنیا تک راہِ حق کے مسافروں کی رہنمائی کرتا رہے گا۔
آخر میں نہایت عجزو انکساری کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ راقم کو حال ہی میں حضرت میاں صاحبؒ کی اس عظیم کتاب یعنی سیف الملوک کے نسخہء اول (اشاعت باراں سو چھیاسی ہجری ) کو ایک سو باون سال کے بعد من و عن شائع کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے ۔ اور راقم آجکل اسی نسخہ پر کام کر رہا ہے۔اس نسخے کی خصوصیت یہ ہے کہ اسے اِعراب (زیر ز بر پیش وغیرہ) کے ساتھ ترتیب دیاگیا ہے تاکہ پڑھنے میں آسانی ہو۔ یہ نسخہ آجکل کی پنجابی لکھائی میں کمپوزنگ کے آخری مراحل میں ہے۔ دعافرمائیں کہ یہ کاوش جلد ازجلد پایہ تکمیل کو پہنچے تاکہ حضرت میاں صاحبؒ کی یہ شہرہ ء آفاق کتاب اپنی اصل حالت میں لوگوں تک پہنچ سکے۔

ای پیپر دی نیشن