
ربیع الاول ہے اللہ تعالٰی ہمیں اس ماہ مبارک میں قرآن و سنت کے مطابق اپنی زندگیاں گذارنے اور اپنا محاسبہ کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ اس ماہ مبارک کی مناسبت سے آج نعتیہ کلام قارئین نوائے وقت کی نذر ہے۔ مختلف وقتوں میں شعراء نے تاجدار انبیاء خاتم النبیین نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعریف بیان کی ہے۔ آج ہم بھی ان نعتوں کو پڑھتے ہیں اور دعا گو ہیں اللہ تعالٰی ہم پر رحمتیں فرمائے اور ہمیں دنیا و آخرت میں کامیابی عطاء فرمائے۔ آمین
مِرا پیمبر عظیم تر ہے
کمالِ خلّاق ذات ا±س کی
جمالِ ہستی حیات ا±س کی
بَشَر نہیں عَظَمَتِ بَشَر ہے
مِرا پیمبر عظِیم تر ہے
وہ شرَحِ اَحکامِ حَق تعالیٰ
وہ خود ہی قان±ون خود حوالہ
وہ خود ہی ق±رآن خ±ود ہی قاری
وہ آپ مہتاب آپ ہالہ
وہ عکس بھی اور آئینہ بھی
وہ ن±قطہ بھی خَط بھی دائرہ بھی
وہ خود نظارہ ہے خود نَظَر ہے
مِرا پیمبر عظِیم تر ہے
ش±ع±ور لایا کِتاب لایا
وہ حَشر تک کا نِصاب لایا
دیا بھی کامِل نِظام ا±س نے
اور آپ ہی اِنقلاب لایا
وہ عِلم کی اور عَمَل کی حد بھی
اَزَل بھی ا±س کا ہے اور اَبَد بھی
وہ ہر زمانے کا راہبر ہے
مِرا پیمبر عظِیم تر ہے
وہ آدم و ن±وح سے زیادہ
بلند ہمَّت بلند اِرادہ
وہ ز±ہدِ عیسیٰ سے کوسوں آگے
جو سب کی مَنزِل وہ ا±س کا جادَہ
ہر اِک پیمبر نِہاں ہے ا±س میں
ہ±ج±ومِ پیغمبراں ہے اس میں
وہ جِس طرَف ہے خدا ا±دھر ہے
مِرا پیمبر عظِیم تر ہے
بَس ایک مَشکِیزہ اِک چٹائی
ذرا سے جَو ایک چارپائی
بدن پہ کپڑے بھی واجبی سے
نہ خوش لِباسی نہ خوش قبائی
یہی ہے ک±ل کائنات جِس کی
گِنی نہ جائئیں صِفات جِس کی
وہی تو س±لطانِ بَحر و بَر ہے
مِرا پیمبر عظِیم تر ہے
جو اَپنا دامن لہ±و سے بھر لے
مصِیبتیں اپنی جان پر لے
جو تَیغ زَن سے لڑے نَہِتّا
جو غالِب آ کر بھی ص±لح کر لے
اَسِیر د±شمن کی چاہ میں بھی
م±خالِفوں کی نِگاہ میں بھی
اَمیں ہے صادِق ہے م±عتَبَر ہے
مِرا پیمبر عظِیم تر ہے
جِسے شاہءِ شَش جِہات دیکھ±وں
ا±سے غرِیبوں کے ساتھ دیکھ±وں
عنانِ کون و مکاں جو تھامے
ک±دال پر بھی وہ ہاتھ دیکھ±وں
لگے جو مزد±ور شاہ ایسا
نذر نہ دَھن سربراہ ایسا
فَلَک نشیں کا زمیں پہ گھر ہے
مِرا پیمبر عظِیم تر ہے
وہ خَلوَتوں میں بھی صَف بہ صَف بھی
وہ اِس طرَف بھی وہ ا±س طرَف بھی
محاذ و مِنبَر ٹِھکانے ا±س کے
وہ سَربَسجدَہ بھی سَربَکَف بھی
کہِیں وہ موتی کہِیں سِتارہ
وہ جامِعیَّت کا اِستِعارہ
وہ ص±بحِ تہذِیب کا گَجَر ہے
مِرا پیمبر عظِیم تر ہے۔۔۔!
مظفروارثی
ہمیں جو یاد مدینے کا لالہ زار آیا
تصورات کی دنیا پہ اک نکھار آیا
کبھی جو گنبد خضرا کی یاد آئی ہے
بڑا سکون ملا ہے بڑا قرار آیا
یقین کر کہ م±حمَّد کے آستانے پر
جو بد نصیب گیا ہے وہ کامگار آیا
ہزار شمس و قمر راہ شوق سے گزرے
خیال حسن م±حمَّد جو بار بار آیا
عرب کے چاند نے صحرا بسا دئے ساغر
وہ ساتھ لے کے تجلی کا اک دیار آیا
ساغر صدیقی
اک رند ہے اور مدحت سلطان مدینہ
ہاں کوئی نظر رحمت سلطان مدینہ
تو صبح ازل آئن حسن ازل بھی
اے صل علیٰ صورت سلطان مدینہ
اے خاک مدینہ تری گلیوں کے تصدق
تو خلد ہے تو جنت سلطان مدینہ
ظاہر میں غریب الغربا پھر بھی یہ عالم
شاہوں سے سوا سطوت سلطان مدینہ
اس طرح کہ ہر سانس ہو مصروف عبادت
دیکھوں میں در دولت سلطان مدینہ
کونین کا غم یاد خدا درد شفاعت
دولت ہے یہی دولت سلطان مدینہ
اس امت عاصی سے نہ منہ پھیر خدایا
نازک ہے بہت غیرت سلطان مدینہ
اے جان بہ لب آمدہ ہشیار خبردار
وہ سامنے ہیں حضرت سلطان مدینہ
کچھ اور نہیں کام جگر مجھ کو کسی سے
کافی ہے بس اک نسبت سلطان مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
جگر مراد آبادی
چہرہ ہے کہ انوارِ دو عالم کا صحیفہ
آنکھیں ہیں کہ بحرینِ تقدس کے نگیں ہیں
ماتھا ہے کہ وحدت کی تجلی کا ورق ہے
عارِض ہیں کہ ”والفجر“ کی آیت کے اَمیں ہیں
گیسو ہیں کہ ”وَاللَّیل“ کے بکھرے ہوئے سایے
ابرو ہیں کہ قوسینِ شبِ قدر کھ±لے ہیں
گردن ہے کہ بَر فرقِ زمیں اَوجِ ثریا
لب، صورتِ یاقوت شعاعوں میں د±ھلے ہیں
قَد ہے کہ نبوت کے خد و خال کا معیار
بازو ہیں کہ توحید کی عظمت کے عَلَم ہیں
سینہ ہے کہ رمزِ دلِ ہستی کا خزینہ
پلکیں ہیں کہ الفاظِ ر±خِ لوح و قلم ہیں
باتیں ہیں کہ ط±وبیٰ کی چٹکتی ہوئی کلیاں
لہجہ ہے کہ یزداں کی زباں بول رہی ہے
خطبے ہیں کہ ساون کے امنڈتے ہوئے دریا
قِرا ت ہے کہ اسرارِ جہاں کھول رہی ہے
یہ دانت، یہ شیراز شبنم کے تراشے
یاقوت کی وادی میں دمکتے ہوئے ہیرے
شرمند تابِ لب و دندانِ پیمبر
حرفے بہ ثنا خوانی و خامہ بہ صریرے
یہ موجِ تبسم ہے کہ رنگوں کی دھنک ہے
یہ عکسِ متانت ہے کہ ٹھہرا ہوا موسم
یہ شکر کے سجدے ہیں کہ آیات کی تنزیل
یہ آنکھ میں آنسو ہیں کہ الہام کی رِم جھم
یہ ہاتھ، یہ کونین کی تقدیر کے اوراق
یہ خط، یہ خد و خالِ ر±خِ مصحف و انجیل
یہ پاو¿ں،یہ مہتاب کی کرنوں کے مَعابِد
یہ نقشِ قدم، بوسہ گہِ رَف رَف و جبریل
یہ رفعتِ دستار ہے یا اوجِ تخیل!
یہ بندِ قبا ہے کہ شگفتِ گ±لِ ناہید
یہ سای داماں ہے کہ پھیلا ہوا بادل
یہ صبحِ گریباں ہے کہ خمیاز خورشید
یہ دوش پہ چادر ہے کہ بخشش کی گھٹا ہے
یہ مہرِ نبوت ہے کہ نقشِ دلِ مہتاب
رخسار کی ضَو ہے کہ نمو صبحِ ازل کی
آنکھوں کی ملاحت ہے کہ روئے شبِ کم خواب
ہر نقشِ بدن اتنا مناسب ہے کہ جیسے
تزئینِ شب و روز کہ تمثیلِ مہ و سال
ملبوسِ کہن یوں شکن آلود ہے جیسے
ترتیب سے پہلے ر±خِ ہستی کے خد و خال
رفتار میں افلاک کی گردش کا تصور
کردار میں شامل بنی ہاشم کی اَنا ہے
گفتار میں قرآں کی صداقت کا تیق±ّن
معیار میں گرد±وں کی بلندی کفِ پا ہے
وہ فکر کہ خود عقلِ بشر سَر بگریباں
وہ فقر کہ ٹھوکر میں ہے دنیا کی بلندی
وہ شکر کہ خالق بھی ترے شکر کا ممنون
وہ ح±سن کہ یوسف بھی کرے آئینہ بندی
وہ علم کہ قرآں تِری عِترت کا قصیدہ
وہ حِلم کہ دشمن کو بھی امیدِ کرم ہے
وہ صبر کہ شبیرتری شاخِ ثمردار
وہ ضبط کہ جس ضبط میں عرفانِ ا±م±م ہے
محسن نقوی
فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر
ہم بھی بےبس نہیں ، سہارا نہیں
خود انہی کو پکاریں گے ہم دور سے
راستے میں اگر پاو¿ں تھک جائیں گے
جیسے ہی سبز گنبد نظر آئے گا
بندگی کا قرینہ بدل جائے گا
سر جھکانے کی فرصت ملے گی کسے
خود ہی آنکھوں سے سجدے ٹپک جائیں گے
ہم مدینے میں تنہا نکل جائیں گے
اور گلیوں میں قصداً بھٹک جائیں گے
ہم وہاں جا کے واپس نہیں آئیں گے
ڈھونڈتے ڈھونڈتے لوگ تھک جائیں گے
اے مدینے کے زائر! خدا کے لیے
داستانِ سفر مجھ کو یوں مت سنا
دل تڑپ جائے گا بات بڑھ جائے گی
میرے محتاط آنسو چھلک جائیں گے
نام ان کا جہاں بھی لیا جائے گا
ذکر ان کا جہاں بھی کیا جائے گا
نور ہی نور سینوں میں بھر جائے گا
ساری محفل میں جلوے لپک جائیں گے
ان کی چشمِ کرم کو ہے اس کی خبر
کس مسافر کو ہے کتنا شوقِ سفر
ہم کو اقبال جب بھی اجازت ملی
ہم بھی آقا کے دربار تک جائیں گے
پروفیسر اقبال عظیم
اللہ تعالٰی ان شعراء کو اپنی رحمتوں میں رکھے۔
آمین