عوامی مشکلا ت کا حل؟
جن حالات میں ہم نے پاکستان کو سیاسی اور معاشی طور پر پہنچا دیا ان حالات سے نکل پانا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ہم ملک و ملت کے لیے کوئی بھی ایسا کام نہیں کر سکے ہیں ،جس سے ملک آج ایک ترقی یافتہ ملک کہلا تا ۔ایک دور تھا جب یہ ملک دیگر ممالک کے لیے ایک مثال تھا ۔یعنی کی 50ء کی دہائی میں جب پاکستان دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کررہا تھا لیکن اس کے بعد ایسا دور آگیا جہاں پر اقتدار پر’’ قبضے{{‘‘ کی ایک جنگ چل پڑی ۔اور اس بے مقصد اور تباہ کن جنگ میں ملک کی ترقی کا وژن اور اس کے لیے قوم کی توانائی کم ہو تی چلی گئی۔ملک کی ترقی کے پلان ناکارہ ہو گئے ۔کئی پلان جو کہ بنے بنائے ہوئے پڑے تھے وہ کبھی تکمیل تک پہنچے ہی نہیں ۔اور نتیجہ ہمیں آج کے حالات کی صورت میں درپیش ہے جہاں پر بیو کرو کریسی بھی اپنا کام چھوڑ چکی ہے اور سیاست دان تو بس نہ ہی پوچھیں ۔سیاست دان کی آواز بھی عوام کے کسی کا م کی نہیں اور عوام کی مشکلا ت کے حل کے لیے بالکل بھی کام نہیں آرہی ہے ۔اس وقت ملک پر کسی ایک جماعت کی نہیں بلکہ ایک سیاسی اتحاد کی حکومت بن چکی ہے اور اس حکومت کے اندر اس کے وزراء اور مشیران کی بڑی تعداد شامل ہے ہر جماعت نے کابینہ میں اپنا حصہ لیا ہوا ہے اور سلسلہ چل رہا ہے لیکن یہ بات اس حکومت کو پتہ ہونی چاہیے کہ اسے بہت ہی پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے ۔بہت ہی آرام اور سنجیدگی کے ساتھ امور سلطنت نمٹائے جا ئیں کیونکہ موجودہ حالات میں یہی دانش مندی ہے قدم قدم پر بارودی سرنگیں بھچی ہو ئی ہیں اور مشکل ترین حالات ہیں لیکن بہر حال ہمیں بطور قوم آگے تو بڑھنا ہے ۔کابینہ کو سیاسی جماعتوں کا میلہ نہ بنایا جائے بلکہ بنیادی مسائل کی طرف توجہ دی جائے ۔اس سے معاملات آگے بڑھیں گے ۔اس ملک میں بہت
سے ایسے کام ہوئے ہیں جو کہ نہیں ہونے چاہیے تھے اور انہی کاموں میں ایک کام حکومت کے اخراجات کو بے جاہ طور پر حد سے زیادہ بڑھا دینا ہے ۔باقی سب قصے کہانیاں چھوڑ دیں صرف اور صرف ایک کام کریں وہ یہ کہ سرکاری ملازمین کی ٹرانسپورٹ کے حوالے سے اصلاحات کریں ،صرف حکومت ہی ہے جس میں ٹرانسپورٹ کا سیکشن موجود نہیں ہے اس کے علاوہ ہر وزارت اور ڈویژن میں ٹرانسپورٹ کا سیکشن موجود ہے ۔اگر ان اخراجات کو کنٹرول کیا جائے تو سیلاب زدگان کی مدد کے لیے آدھے سے زیادہ کام ہو جائے گا اور ایک خطیر رقم اس کے لیے جمع ہو جائے گی ۔سرکاری ملازمین کو اپ گریڈ کیا جائے اور ان کی تنخواہوں میں ان کی آمد و رفت اور رہائش وغیرہ کے اخراجات شامل کر دیے جا ئیں تو حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کا بھی بھلا ہو سکتا ہے اور ہونا چاہیے سرکاری وسائل بے دریغ طریقے سے ضا ئع کرنے کے لیے نہیں ہوتے ہیں بلکہ ایک ایک پائی عوام کی امانت ہوتی ہے اور اس کو اسی طریقے سے استعمال کیا جانا چاہیے ۔وقت کی ضرورت ہے کہ ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے بہتر فیصلے کیے جائیں اور سخت فیصلے کیے جائیں اس کے بغیر اب کو ئی چارہ نہیں ہے ۔اس وقت ملک کو اتنے مسائل درپیش ہیں کہ ان کا شمار نہیں کیا جاسکتا ہے ،لیکن ملک میں اس وقت ایک اتحادی جماعت کی حکومت ہے ،اور ایک ایسا وزیر اعظم موجودہ ہے جو کہ کام کرنے کے حوالے سے اچھی شہرت کا حامل ہے اس کو کام کرنے کا طریقہ معلوم ہے نہ صرف کہ کام کرنے کا طریقہ معلوم ہے بلکہ کام کروانے کا طریقہ بھی آتا ہے ،پاکستان میں حکومت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور اگر بیو رکریسی سے کام نہ کروا سکیں تو کوئی بھی حکومت کامیاب نہیں ہو تی ہے ،اور موجودہ وزیر اعظم کو بیو رو کریسی سے کام لینا آتا ہے اور شاید یہ ان کی بڑی خوبیوں میں سے ایک ہے ۔بہت عرصے کے بعد ایک اعلیٰ ترین منتظم وزیر اعظم کے عہدے پر فائض ہوا ہے ،اور ہمیں اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے ۔لیکن ان کو بھی ہر طریقے سے خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،ان پر بھی تنقید کے فلڈ گیٹ کھلے
ہوئے ہیں جو کہ افسوس ناک آ مر ہے ۔شہباز شریف ایک ایسی شخصیت ہیں جن کی ہر طریقے سے معاونت کی جانی چاہیے ۔ ان کی سپورٹ کی جائے تو ملک کو مسائل سے نکالا جاسکتا ہے ۔ان کو نئے آئیڈیاز دینے کی ضرورت ہے ،ملک کو اس وقت ایک نئی سوچ کی ضرورت ہے ۔معیشت کو مستقل بنیادوں پر بھنور سے نکالنے کی ضرورت ہے ۔ہم ایک غریب ملک ہیں لیکن ہمارے طور طریقے ایک امیر ملک والے ہیں ۔ہمیں اپنی چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے کی ضرورت ہے اس کے بغیر اب کام نہیں چلنے والا ہے ۔امیر ملک بھی اپنے افسران کو وہ سہولیات نہیں دیتے جو کہ ہمارے ملک میں افسران کو حاصل ہیں ۔یہ کلچر کو اور ان رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔آج ملک ایک قدرتی آفت کا شکار ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملک اور قوم کو ایک بار پھر آزمائش میں ڈال دیا گیا ہے ۔ہمیں اللہ تعالیٰ سے رجوع کرنا چاہیے ،بارش کا پانی ابھی اتنی جلدی سوکھنے والا نہیں ہے اور ہمیں اس کے لیے کئی ہفتوں کاانتظار کرنا پڑ سکتا ہے ۔پانی اترے گا تو لوگ گھروں میں آباد ہوسکیں گے ۔آبادی کا برا حصہ بے دم ہو چکا ہے اور جو با دم ہیں وہ بھی بے دم ہیں ۔سیلاب زدگان کا سب کچھ کھو چکا ہے ان کو زندگی گزارنے کے لیے ان کو زندہ رہنے کے لیے ہر ممکن سہولت دی جانی چاہیے اور یہ حکومت کا کام ہے ،ملک میں بے شمار انجمنیں بھی قائم ہیں جو کہ سیلاب زدگان کی خدمت میں مصروف ہیں ،سرکار ان سے بھی کام لے سکتی ہے ،اس معاملے پر کسی صورت میں سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں ہونی چاہیے ۔بہر حال ملک جس حالت میں ہے اس کے لیے بہت ہی زیادہ سنجیدگی اور تعاون کی ضرورت ہے ۔اگر سیلاب زدگان کی مدد میں کوئی سیاسی جماعت پیچھے رہ گئی تو اس کا اپنا نقصان ہوگا اور کسی کا نہیں ۔اس وقت حکومت کی اولین ترجیح سیلاب زدگان کی مد اور بحالی ہونی چاہیے ،یہ سب سے اہم ہے ۔