اوپر والا ہی جانے
مجھے ابھی تک یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کہ پنجاب پولیس کی سربراہی فیصل شاہکار جیسے شریف النفس اور بیبے بندے کو آخر کیسے مل گئی۔ صاف ستھری زندگی گزارنے والے فیصل شاہکار کو میں تب سے جانتا ہوں جب وہ ایس پی لودھراں تھے اور اپنے اظہار الحق نامی چچا کو اپنا آئیڈیل مانتے تھے جن کا نام کسی دور میں پاکستان کے کرنسی نوٹوں پر بطور گورنر بنک دولت پاکستان کے طور پر شائع ہوتا تھا۔ شیخ اظہار الحق ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ بھی رہے اور باوقار شخصیت کے طیب آدمی تھے۔ وہ میرے والد مرحوم کے محلے دار اور دوست تھے۔فیصل شاہکار لودھراں سے ڈی آئی جی کی میٹنگ میں شرکت کیلئے ملتان آتے تو طویل نشست ہوتی اور میں لودھراں جاتا تو ان سے ملاقات لازم تھی۔ وہ پولیس سسٹم میں تبدیلی کے بہت بڑے خواہاں تھے اور مجھے یقین ہے کہ انکی سوچ پر وقت کی گرد نہیں پڑی ہو گی کہ کسی بھی انسان کی 50 فیصد اور بعض نفسیات دانوں کے مطابق 70 فیصد تربیت تو پہلے پانچ سال میں ہو جاتی ہے اور ماضی قریب تک تو یہ وقت ہر کسی نے اپنی ماں اور باپ کی قربت میں بسر کیا ہوتا تھا۔ فیصل شاہکار بھی اسی دور کے ہیں کہ جب تربیت ’’آیا جی‘‘ کے ہاں منتقل نہیں ہوئی تھی پھر وہ پنجاب پولیس کے کلچر میں تبدیلی کیوں نہیں لا رہے کہ پولیس کا ظلم کم ہونے کی بجائے ہر آنے والے دن میں بڑھ رہا ہے۔ انہیں اس سے بہتر موقع انہیں اور کہاں ملے گا۔ مجھے یقین تھا کہ انکی سربراہی میں اصلاحات ہوں نہ ہوں کم از کم پولیس ناجائز مقدمات درج کرنے میں احتیاط ضرور برتے گی مگر ہر حوالے سے حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ بہت بڑی سرجری کے بغیر یہ درست نہیں ہو سکتے۔ ویسے بھی جب آئی جی کی مرضی سے ضلعی اور ڈویژنل پولیس افسران کی تقرریاں ہی نہ ہو پائیں اور احکامات خالص سیاسی بنیادوں پر جاری ہوں اوپر سے ضلعی افسران کی ’’سہ ماہی‘‘ کارکردگی بھی آئی جی پنجاب کے علاوہ کہیں اور ’’چیک‘‘ ہو تو پھر کنٹرول تو نہیں رہے گا۔
ملازمت کے ابتدائی ایام کی بات ہے ایک ماتحت نے میرے ساتھ تلخی کی تو میرے والد مرحوم جو خود بھی کار سرکار سے طویل عرصہ منسلک رہ کر ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے، کہنے لگے کہ جب کوئی ماتحت بات نہ مانے، آگے سے جواب دے، تلخ لہجے میں بات کرے، بدتمیزی کرے تو اسکی صرف تین ہی وجوہات ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ اس کی جیب میں کسی اور ادارے کا تقررنامہ ہے، دوئم یہ کہ اس کے سر پر تمہارے ہی کسی سینئر کا دست شفقت اور شیلٹر ہے اور سوئم یہ کہ وہ پاگل ہے، ذہنی طورپر فارغ ہے اور ملازمت کرنا ہی نہیں چاہتا۔ پھر کہنے لگے کہ اب تیسری وجہ تو ہو نہیں سکتی لہٰذا پہلی دو وجوہات میں سے کوئی ایک وجہ تلاش کرو۔ پھر مجھے وجہ مل ہی گئی جو دوئم والی تھی۔
پنجاب اور سندھ میں خاص طور پر جبکہ ملک بھر میں عام طور پر اس قسم کی صورتحال ہے کہ جس کو جواب دہ ہونا چاہئے وہ اپنی چین آف کمانڈ کی بجائے کسی اور کو جواب دہ ہوتا ہے کہ جس کا اس چین آف کمانڈ سے براہ راست کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے ہر آسامی پر انتظامی گرفت تو نظر نہیں آتی البتہ سیاسی گرفت ہر آنے والے دن میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے۔ پاک فوج بطور ادارہ اسی لئے مستحکم ہے کہ چین آف کمانڈ کے پروٹوکول پر عمل درآمد ہوتا ہے۔ آج سول افسران کام کی بجائے سیاسی ڈیرے آباد کر رہے ہیں اور اپنے اپنے دفاتر بتدریج ویران کر رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں ایسے گنے چنے ضلعی سربراہ ہوں گے جو باقاعدگی سے دفتر میں موجود ہوتے ہوں۔ یہاں تو ایسا بھی ہوتا رہا ہے کہ ایس ایچ او حضرات کے تبادلے بھی چیف منسٹر آفس کے ڈائریکٹو کے محتاج ہوں تو پھر جو جس کے ذریعے آئے گا اس کے احکامات بجا لائے گا۔ جنوبی پنجاب کے ایک ضلع میں ایک ایسا دور بھی رہا کہ انہیں تھانوں کے اشتہاری رکن اسمبلی بن کر انہیں تھانوں میں تعیناتیاں کراتے رہے تھے اور یہ کھلا سچ ہے۔ ایک رکن اسمبلی اپنے لیٹر پیڈ پر لسٹ بنا کر بھجوا دیتا اور ضلعی پولیس کی او ایس آئی برانچ اسی لسٹ کے مطابق تبادلے کر دیتی۔ نہ پولیس کے ضلعی سربراہ کے خلاف اراکین اسمبلی کے گروپ چیف منسٹر کو شکایت کرتے اور اوپر سب اچھا کی رپورٹ ہی ملتی کہ رکن اسمبلی مطمئن تو سب ٹھیک۔ ملتان میں توجہ دلانے والے نشاندہی کر بیٹھے کہ افسران اپنے دفاتر کی بجائے رہائشگاہوں پر بنائے گئے کیمپ آفس ہی میں براجمان رہتے ہیں اور ہر سائل کی تو کیمپ آفس تک رسائی ممکن نہیں لہٰذا ضلعی سربراہ عوام کی بجائے خواص تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ بس پھر کیا ہوا کہ اپنے ہی وضع کردہ میرٹ پر چلنے والے ’’صاحب بہادر‘‘ ناراض ہو گئے اور اپنے سارے اختیارات کا حدود کے ایک جھوٹے مقدمے کے ذریعے بھانڈا پھوڑ لیا۔ مقدمہ جھوٹا تھا لہٰذا گرفتار ملزم رہا کرنا پڑا اور جو دوسرا نامزد تھا اس نے ضمانت ہی نہ کرائی کہ پکڑ لو۔ آج کل فرانزک کا دور ہے۔ لوکیشن پولیس حکام لے سکتے ہیں تو ہر کوئی لے سکتا ہے لہٰذا لے لی گئی۔ معاملہ الجھا رہا، ایس ایچ او نے اس جھوٹے مقدمہ کو اوپر کا حکم قرار دیا، اب کون اوپر والے حکم کی تحقیق کرے۔ کہتے ہیں کہ کسی گھر میں چور گھس آئے اور گھر والے جاگ گئے اور باہر سے گھیرا تنگ ہونے پر ایک چور بڑے کمرے میں چھپ گیا، دوسرا چھت کے ساتھ نصب پرانے زمانے کے روشندان میں چھپ گیا۔ باقی دو نے الماریوں اور صندوقوں کے پیچھے پنا ہ لے لی اور آخری والا چارپائیوں میں چھپ گیا۔ صبح ہوتے ہی گاوں کی عورتیں چوری بارے معلومات لینے آ گئیں۔ ہر عورت ایک ہی سوال کرے کہ چور کیسے گھر میں گھس آئے۔ گھر کی بزرگ عورت بار بار ایک ہی جواب دیتی۔ پتہ نہیں اوپر والا ہی جانے۔ اب جو اوپر چھت کے روشندان میں چھپا ہوا تھا تنگ آ کر بول پڑا۔ کیا صرف اوپر والا ہی جانے اور جو صندوقوں کے پیچھے، چارپائیوں کے نیچے چھپے ہوئے ہیں وہ نہ جانیں،بس پھر سارے دھر لئے گئے۔ اب ایس ایچ او جلالپور اوپر والے پر ڈال رہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اوپر والے اچھے خاصے ’’کھوچل‘‘ ہو گئے ہیں لہٰذا اوپر والے ہونے کے باوجود مان نہیں رہے اور مان اس لئے نہیں رہے کہ انہیں یقین ہے کہ اور تو سب نے اوپر جانا ہے وہ تو پہلے ہی اوپر ہیں لہٰذا انتظار فرمائیے۔
شائد یہی وجہ ہے کہ آئی جی پنجاب فیصل شاہکار جب جوان تھے اور اوپر والے نہیں بنے تھے، بہت ہی خوبصورت باتیں کیا کرتے تھے۔ اب اوپر والے ہو گئے ہیں تو ان کے پائوں اور زمین کی مٹی کے درمیان فاصلہ بھی بڑھ چکا ہے۔ اور رہا پولیس کا ظلم تو وہ اسی آن شان اور طمطراق سے جاری و ساری ہے۔