ہفتہ ، 4ربیع الاول 1444ھ، یکم اکتوبر 2022ء
عمران اس ہفتے اسلام آباد لانگ مارچ کی کال دینگے۔ اسد قیصر
خدا جانے وہ روز سعید کب آئے گا جب عمران خان اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے حقیقی آزادی کی حقیقی کال دیں گے۔ ورنہ ابھی تک ان کی ہر کال مس کال ثابت ہوئی ہے اور اسلام آباد کی حکومت
وعدے کر کے صنم تم نہ آئے
پیار کے خوب وعدے نبھائے
کے مصداق ہر وقت ان کے استقبال کی بھرپور تیاری کے اعلانات کرتے کرتے تھک گئی ہے۔ ہر جلسے سے قبل لوگوں کو جلسے میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے عمران خان اور پی ٹی آئی کے قائدین اس جلسے میں اہم اعلان کروں گا کا ڈھول پیٹتے ہیں مگر بلی ہے کہ تھیلے سے باہر ہی نہیں آتی۔ چلیں بلی نہ سہی ’’بلا‘‘ ہی تھیلے سے باہر آ جائے تاکہ عوام کو تسلی ہو اور وہ جوق در جوق عمران خان کے ساتھ اسلام آباد روانہ ہوں۔ جہاں پہلے کی طرح
کھانا ملے گا پینا ملے گا
بھیا کی شادی میں سب کچھ ملے گا
آمدورفت کا خرچہ دیہاڑی اور تین وقت کا ناشتہ کھانا پینا سب دستیاب ہو گا۔ یوں اسلام آباد میں میلے کا سماں بن جائے گا۔ لوگ اب اس روز روز کی کال دوں گا کال کروں گا کی تکرار سے تنگ آنے لگے ہیں۔ اب اسد قیصر صاحب کہہ رہے ہیں کہ ایک دن بھی اوپر نہیں ہو گا اس ہفتے یعنی سات دن کے اندر اندر لانگ مارچ کال ملے گی۔ اب عمران خان ہی ان کی اس بات کا بھرم رکھ لیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ سات دن بعد اسد قیصر عوام سے منہ چھپاتے پھریں اور صحافیوں کے کرارے سوالات سے تنگ آ کر گوشہ نشین ہو جائیں۔ اب تو جو ہونا ہے ہو ہی جائے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے ، حالات بدلتے جا رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ بازی ہاتھ سے نکل جائے۔
٭٭٭٭٭
یکی گیٹ نواز شریف ہسپتال کے واش روم سے نعش برآمد۔3 ڈاکٹر معطل
ایک معمر شخص کی نعش چار روز واش روم میں پڑی رہی اور سینٹری سٹاف جو روزانہ حاضری لگا کر غائب ہوتا رہا انہیں پتہ بھی نہ چلا۔ کیا سینٹری عملے کا یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ ہسپتال آ کر رجسٹر پر حاضری لگا کر حسب معمول غائب ہو جائے۔ صفائی کا کام نہ پہلے ہوتا تھا نہ اب ہو رہا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں تو صفائی نام کی چیز واش رومز میں نظر نہیں آتی۔ یہ طہارت خانے کم نجاست خانے زیادہ ہیں جہاں جا کر اچھا بھلا انسان بیمار ہو سکتا ہے۔ 4 روز یا 3 روز کسی مریض کا یا انسان کا واش رو م میں مرنا اور کسی کو پتہ نہ چلنا ظلم ہے۔ اگر صفائی کرنے والے بند واش رومز نہ کھلنے پر صورتحال دیکھتے تو اسی روز پتہ چل جاتا۔ اگر یہ مریض تھا تو ہسپتال کے عملے نے کیوں پوچھ گچھ نہیں کی کہ بندہ کہاں چلا گیا۔ مریض کے لواحقین نے جو عام طور پر ذرا ذرا سی بات پر ہسپتال کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں اپنے مریض کے غائب ہونے پر طوفان کیوں نہ اٹھایا۔ اب حکومت نے اس اندوہناک حادثے پر سخت ایکشن لیا ہے اور چار ڈاکٹروں سمیت چیف سینٹری انسپکٹر کو معطل کر دیا ہے۔ ویسے ڈاکٹروں کی معطلی باعث حیرت بھی ہے۔ کیا صفائی کی ذمہ داری ان کی ہوتی ہے۔ ہاں مریض کے غائب ہونے پر ان سے پوچھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مریض کے گھر والے بھی ذمہ دار ہیں جو پوچھنے تک نہ آئے۔ سینٹری کا عملہ البتہ قصور وار ضرور ہے کہ کسی نے بند واش روم کھول کر دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔
٭٭٭٭٭
دریائے سندھ کے قدرتی راستوں کی بحالی کے طریقے تلاش کرنا ہوں گے۔ شیری رحمان
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا
والا شعر اس موقع پر کہنے کو جی چاہتا ہے۔ محترمہ شاید بھول رہی ہیں کہ دریائوں، ندی نالوں کے قدرتی بہائو والے راستے اب ماضی کے قصوں کہانیوں میں ہی ملیں گے۔ حقیقت میں تو ہم نے ان تمام آبی گزر گاہوں پر بے دردی سے قبضہ کر کے قدرت سے جنگ کا آغاز کیا ہوا ہے۔ جس کی سزا ہر 2 یا 4 سال بعد سیلاب کی صورت میں بھگتنا پڑتی ہے۔ سندھ ہو یا چناب، راوی ہو یا جہلم ، بیاس ہو یا ستلج، کابل ہو یا کنہار سوات ہو یا نیلم کس کس دریا کا نام لیں۔ ندی نالوں کی چلیں چھوڑ دیتے ہیں۔ مافیاز نے ان دریائوں کے اردگرد تمام زمینوں کو کسی ڈائن کی طرح ہڑپ کر لیا ہے۔ اگر ان دریائوں کے قدرتی بہائو کے راستے کھلے ہوتے تو آج ہمیں تباہی و بربادی کے یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ دنیا بھر میں بڑے بڑے شہر دریائوں کے کنارے آباد ہیں۔ ان میں سے اکثر دریا ان شہروں کے درمیان سے گزرتے ہیں۔ مگر وہاں کے ماہرین نے ان دریائوں کی روانی اور بہائو کو اس طرح بحال رکھا ہے کہ لاکھوں کی آبادی والے شہر بھی سیلاب سے متاثر نہیں ہوتے۔ پختہ کناروں سے دریا کبھی اچھل کر باہر نہیں آتا کیونکہ ان کی گزر گاہیں محفوظ ہوتی ہیں۔ ستلج، بیاس اور راوی میں تو بارش میں پانی آتا ہے۔ ان کا پانی بھارت استعمال کرتا ہے۔ کم از کم ہم ان کو ہی کشادہ اور محفوظ بنانے کے اقدامات کر سکتے ہیں تاکہ ان کا پانی محفوظ ہو۔ جہلم، چناب اور سندھ میں جب پانی کم ہوتا ہے ہم وہاں بھی بندوبست کر سکتے ہیں۔ مگر ایسا کرے کون۔ ہم تو شہروں میں نالوں پر قبضہ جمانے میں تاخیر نہیں کرتے۔ جب وہ ابلتے ہیں تو رونا شروع کر دیتے ہیں۔ دریائوں کے راستے کون بحال کرے۔
٭٭٭٭٭
خالصتان ریفرنڈم پر بھارت اور کینیڈا میں سفارتی جنگ،مودی کا مسلم تنظیم کیخلاف کریک ڈائون
یہ تو وہی ڈِگا کھوتی توں تے غصہ کمہارتے والی بات ہوئی۔ سکھوں کی عالمی تنظیم نے دنیا کے مختلف ممالک میں سکھوں سے خالصتان کی آزادی پر ریفرنڈم کرایا جس میں کینیڈا میں موجود لاکھوں سکھوں نے بھی بھرپور شرکت کی۔ پہلے تو مودی نے کوشش کی کہ مغربی ممالک بشمول کینیڈا یہ ریفرنڈم نہ ہونے دیں مگر اس کی کہیں دال نہیں گلی۔ کینیڈا میں سب سے زیادہ سکھ آباد ہیں۔ مودی نے ’’ٹِل‘‘ لگایا کہ کینیڈا ریفرنڈم روکے مگر یہاں بھی اسے منہ کی کھانی پڑی۔ اب مودی سرکار ان ممالک کا کچھ بگاڑ تو نہیں سکتی البتہ اس نے کینیڈا کے ساتھ سفارتی جنگ چھیڑ دی ہے جس کا کینیڈا نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے اپنے شہریوں کو بھارت میں سفر سے اجتناب کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اس سے قبل بھارت نے اپنے طلبہ کوکینیڈا کے لیے ٹریونگ ایڈوائزی (یعنی محتاط رہنے کی) جاری کی تھی۔ اب واپسی جواب پر بھارتی حکومت اپنا غصہ مسلم تنظیم ’’مسلم پاپولر فرنٹ پر نکال رہی ہے اور اس کی ذیلی تمام تنظیموں پر پابندیاں لگا رہی ہے۔ ٹویٹر سمیت ان کے تمام سوشل میڈیا اکائونٹس بند کئے جا رہے ہیں۔ مسلم دشمن کالے قوانین کے تحت ان کے 210 سے زیادہ رہنمائوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ یہ ہے اس انتہا پسند مودی حکومت کا وہ مکروہ چہرہ جس پر نجانے کیوں دنیا کی نظر نہیں پڑتی اور وہ بھارت کے جمہوری نقاب کو الٹ کر اس کا اصل چہرہ دیکھنے سے قاصر ہے۔ مگر ٹھہرئیے یہ دوہرا معیار صرف مسلم آبادی پر ظلم و ستم کے حوالے سے ہے۔ بھارت ذرا عیسائی اقلیت پر تو ہاتھ ڈالے پھر دیکھیں دنیا کیسے چیخ اٹھتی اور امن و انصاف کی دہائیاں دیتی نظر آتی ہے۔
٭٭٭٭٭