سیاست دانوں کی ہر ممکن کوشش ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کو کسی بھی طرح متنازع بنایا جائے اس معاملے میں پاکستان تحریک انصاف کا کردار سب سے منفی رہا ہے اور اپنی ہی فوج کو عوام کے ساتھ لڑانے کی کوشش میں مصروف رہی ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان تحریکِ انصاف کی ہر ممکن کوشش رہی کہ کسی بھی طریقے سے فوج میں تقسیم ہو، عوام اپنی ہی فوج کےخلاف اٹھ کھڑے ہوں، پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے افواجِ پاکستان کو کبھی نام لے کر اور کبھی بغیر نام لیے نہایت نامناسب انداز میں مخاطب کیا جاتا رہا بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ افواجِ پاکستان کے خلاف منظم منصوبہ بندی کے تحت مہم چلائی جاتی رہی۔ یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں اور اس وقت تک نہیں رکے گا جب تک نئے آرمی چیف کی تقرری ہو نہیں جاتی۔ یہ طرز عمل صرف پاکستان تحریکِ انصاف کا نہیں بلکہ ہر سیاسی جماعت اپنے انداز میں اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ابہام ضرور پیدا کرتی ہے بھلے وہ آصف علی زرداری ہوں، مولانا فضل الرحمٰن ہوں یا پھر مسلم لیگ نون کے نمایاں سیاست دان ہوں سبھی بوقت ضرورت آرمی چیف کی تعیناتی پر گفتگو ضرور کرتے ہیں۔ حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اب شاہد خاقان عباسی نے بھی بیانات کے سیلاب میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ "سینیارٹی کی بنیاد پر آرمی چیف بنائیں تو اس کے ملک اور فوج کے نظام پر منفی اثرات ہوں گے۔ کیا سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کو چیف جسٹس بنانے کا تجربہ درست ثابت ہوا؟ آرمی چیف کی مدت میں توسیع پر تنقید ہوتی ہے مگر کسی آرمی چیف کی تعیناتی پر نہیں ہوئی۔"
اب ایسے سوالات کا اس سے بہتر جواب دیا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فوج کے ایک جوان سے اعلیٰ ترین افسر تک سب ملک و قوم کی حفاظت کے لیے ہر وقت جان قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ فوج کا اپنا احتساب کا نظام ہے، اگر ملک میں کسی ادارے کے میرٹ کی مثال دی جاتی ہے تو وہ فوج ہے۔ وہاں نچلی سطح سے اوپر جانے کا ایک مربوط نظام ہے جو آج تک اپنے مخصوص انداز میں چل رہا ہے۔ سنیارٹی کے معاملے میں بھی کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی عدلیہ یا کسی دوسرے ادارے کے ساتھ اس کے موازنے کی ضرورت ہے۔ ہر ادارے کا اپنا ایک نظام ہے۔ سو فیصد ضمانت تو کسی بھی جگہ نہیں دی جا سکتی لیکن خامیوں کو بروقت دور کرنے سے نظام کو بہتر ضرور بنایا جا سکتا ہے۔ سنیارٹی کے حوالے سے شاہد خاقان عباسی کا بیان غیر ضروری اور نامناسب ہے اگر سنیارٹی کی بنیاد پر بھی آرمی چیف کی تعیناتی کی جاتی ہے تو وہ اتنی اہم ہے۔ جو افسران اس سطح تک پہنچتے ہیں وہ باصلاحیت بھی ہوتے ہیں اور فوج کے ہر جوان کی طرح ان کے اندر بھی وطن کی محبت بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ جب ایسے بیانات عوامی سطح پر زیر بحث آتے ہیں تو منفی اثر چھوڑتے ہیں اسی طرح فوج کے اندر بھی ایسے بیانات کو پسند نہیں کیا جاتا کیونکہ یہ غیر ضروری بحث ہے اور ایسی چیزوں میں عام آدمی کو الجھانے کا مطلب صرف اور صرف ابہام پیدا کرنا ہے۔ اگر پاکستان تحریکِ انصاف والے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہیں تو انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو مسلم لیگ نون والوں کو اپنی صفوں میں موجود افراد کے بیانات پر بھی غور کرنا چاہیے۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ کبھی آرمی چیف کی تعیناتی پر تنقید نہیں ہوئی تو آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہاں میرٹ کو اولین ترجیح دی جاتی ہے اور آرمی چیف کوئی بھی ہو وہ پاکستان کی فوج کا سربراہ ہوتا ہے وہ اس ملک کی سرحدوں کے محافظوں کا سربراہ ہوتا ہے اس کے لیے ملکی مفاد سب سے اہم ہوتا ہے۔ اس لیے سب سے بہتر یہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے وہ لوگ جو ٹیلیویژن چینلز کے پروگراموں میں شریک ہوتے ہیں، پریس کانفرنس کرتے ہیں یا کہیں بھی کسی بھی سطح پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ ایسے سوالات کا بہتر جواب دینے کی کوشش کریں۔ سیاسی حکومتیں اگر کچھ کرنا چاہیں تو ان کے پاس اپنے اتنے کام ہیں، ملک مسائل میں گھرا ہوا ہے اگر توجہ دینا چاہتے ہیں تو عوامی مسائل پر توجہ دیں۔ آرمی چیف جو بھی ہو گا اس ملک کا محافظ ہو گا اور وہ جو بھی ہو گا عہدے کے لیے سب سے موزوں ہو گا۔ وہ نہ تیرا ہو گا نہ میرا ہو گا وہ اس ملک کا ہو گا اس ملک کے لیے ہو گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جوڈیشل مجسٹریٹ زیبا چوہدری سے معذرت کرنے کے لیے ان کی عدالت پہنچے تاہم پولیس نے خاتون جج کا کمرہ بند کرتے ہوئے بتایا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ زیبا چوہدری رخصت پر ہیں۔عمران خان نے ریڈر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے زیبا چوہدری صاحبہ کو بتانا ہے کہ معذرت کے لیے آیا ہوں، ریڈر آپ گواہ رہنا اگر ان کی دل آزاری ہوئی ہو تو عمران خان معذرت کرنے آئے تھے۔ پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہو گئی لیکن ان کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے وقت گذرنے کے بعد غلطی تسلیم کرنے کی عادت نہیں گئی۔ جب آپ کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تو وہ کام کیا جو پہلے دن ہی کر لینا چاہیے تھا۔ جب حکومت تھی اس وقت بھی یہی کرتے تھے جو کام سب سے پہلے کرنا ہوتا وہ سب سے آخر میں کرتے اور جو سب سے آخری کام سمجھا جاتا اسے سب سے پہلے کر کے ناصرف عوام کے لیے مشکلات پیدا کرتے بلکہ خود بھی غیر ضروری مسائل میں الجھتے رہے۔ یہی حال اب بھی ہے۔ اس پر یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ دیر آئے درست آئے۔ اب تو صرف اس لیے آئے کہ نہ آنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024