سی پیک اور مسلم دْنیا
چین پاکستان اقتصادی راہداری ایک ایسا منصوبہ ہے جس نے پوری دْنیا میں ایک ہلچل مچا دی ہے۔ پاکستان اور چین کے ساتھ مختلف ترقی یافتہ ممالک کی اپنے تجارتی، معاشی اور فوجی مفادات کو لے کر چپقلش شروع ہو چکی ہے۔لیکن اگر ہمارا عزم اسی طرح رہا تو ہر سازش اپنی موت آپ ہی مرتی جائے گی، بالکل چاہ بہار کی طرح جو گوادر کے خلاف ایران اور ہندوستان کا مشترکہ منصوبہ تھا۔ ہمیں حقائق کے برخلاف بات نہیں کرنی چاہئے کیونکہ اس سے ملک و قوم کا نقصان ہوتا ہے، جب ہندوستان نے چاہ بہار میں سرد مہری دکھانا شروع کر دی تو یہ امریکہ کا حکم تھااور پھر ہندوستان نے اسے خیرباد کہہ دیا۔ اگرچہ ہندوستان چاہ بہار میں اربوں ڈالر خرچ کر چکا تھا اور ایران کی طرف سے ہندوستان کو قدرتی گیس فراہم کرنے کے لئے جس قدر زور لگایا گیا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیںجبکہ پاکستان کو تو صرف مشروط طور پر گیس دی جانی تھی۔اس میں یہ شرط بھی تھی کہ پاکستان اپنی سرزمین سے ہندوستان کو گیس پائپ لائن گذارنے دے گا، بصورت دیگر پاکستان کو بھی گیس نہیں ملے گی۔ یعنی منصوبہ کا اصل مقصد ہندوستان کو گیس کی فراہمی تھی جس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کو آج تک گیس نہیں دی گئی۔ پاکستان نے دانشمندی کا ثبوت دیا اور اپنے ازلی دشمن کو ایرانی گیس سے مستفید نہیں ہونے دیا۔ اسی طرح چند اور ممالک بھی ہیں جو اپنے انداز سے سی پیک کے خلاف متحرک اور مصروفِ کار ہیں، مگر تادمِ تحریر ناکامیوں سے دوچار ہیں۔ یہ ممالک سخت پریشان ہیں کہ چین پاکستان راہداری سے موجودہ عالمی نظام متاثر ہی نہیں بلکہ تبدیل ہو جائے گا۔ آسان لفظوںمیں یہ کہ دنیا پر سے امریکہ اور یورپ کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی جو کہ ایک ٹھوس اور اٹل حقیقت ہے۔سی پیک میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ بھارت کے علاقائی چوہدری بننے کے خواب کو ہمیشہ کے لئے بحیرہ عرب کے پانیوں میں غرق کر دے اور یقینایہ بات بھارت جیسے مکار دشمن کے ذہن میں کئی سالوں سے کھٹک رہی ہے۔ اسی لئے تو گزشتہ سال بھارت پاکستان پر حملہ آور ہوا مگر منہ کی کھائی اور سارے جگ میں ذلیل و خوار ہوا۔ کنٹرول لائن کی خلاف ورزیاں تو بھارت کا معمول ہیں مگر ہر بار اپنے ہی زخم چاٹتا رہ جاتا ہے۔ پچھلے ماہ توبھارت چین کو دھمکانے کی احمقانہ کوشش کر بیٹھا جس کے نتیجہ میں خوب جگ ہنسائی ہوئی۔ اسرائیل پر آج بھی اٹھائیس فروری کا خوف طاری ہے جب وہ پاک فوج کے ہاتھوں گیدڑ بن گیا تھا۔ امریکہ بھی چین کے خلاف معاشی اور دیگر ہتھکنڈوں پر اْترا ہوا ہے جبکہ برطانیہ نے چین کے ساتھ ہانگ کانگ میں تبدیلی قوانین کا مسئلہ اْٹھا رکھا ہے۔ چونکہ ہر مسئلہ کا توڑ بھی ہوتا ہے اس لئے پاکستان اور چین بھی اپنے طور سے ان سازشوںکا توڑ کرنے سے بالکل بھی غافل نہیں ہیں۔ (برائے مہربانی کچھ توڑ مہنگائی کا بھی کیجئے کیونکہ اس بلا خیز مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔)
مدعی جتنا بھی بْرا چاہ رہا ہے چاہتا رہے کیونکہ عرفی تو می اندیش زغوغائے رقیباں-آوازِ سگاں کم نہ کنند رزقِ گدا را۔ شاعر کہتا ہے کہ تو اپنے مخالفین کی پھیلائی ہوئی جھوٹی باتوں کی فکر نہ کیا کر، بالکل اس طرح جیسے کْتّے بھونکتے ہیں لیکن گداگر کا رزق کم نہیں کر سکتے۔ بس مندرجہ بالا شعر مصداق ہے کہ دشمن جتنا بھی شور مچائیں یا پھر سازشیں کریںان شائ اللہ سی پیک کا سفر جاری رہے گا اور بہت جلد کْلّی طور پر فعال ہو جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تیاری پہلے سے ہو اور جو ممالک سی پیک میں دلچسپی رکھتے ہیں اْن سے بِنا دیر کئے رابطے کئے جائیں مگر حکمت کے ساتھ، ایسے رابطے جو فوری اور دور رس نتائج کے حامل ہوں۔ جن ممالک سے عمدہ تعلقات ہوں اْن پر سی پیک کے صرف فوائد ہی نہیں بلکہ تذویراتی اہمیت بھی اچھی طرح سے واضع کی جائے۔ اس حوالے سے چین نے بڑا اہم قدم اْٹھایا ہے، چین نے روس سے کہا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ روس کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر درپیش مشکلات کو حل کیا جائے۔یہ تجویز چین کی طرف سے بڑی دور اندیشی اور انتہائی اہمیت کی حامل منصوبہ بندی کی مظہر ہے۔ چین کو یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہے کہ روس کے بغیر وہ وسط ایشیا کی مسلم ریاستوں کے قفل نہیں کھول سکتا کیونکہ وسطی ایشیا ئی ریاستیں سوویت یونین سے آزادی حاصل کرنے کے باوجود آج بھی روس ہی کے زیرِ اثر ہیں، لہٰذا روس کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی سے وسطی ایشیائی ممالک سے تعلقات میںبھی گرم جوشی آ جائے گی۔ اسی طرح میانمار (برما)، بنگلہ دیش، نیپال اور بھوٹان سے چین اپنے تعلقات اس قدر مضبوط کر چکا ہے کہ اب نیپال بھی بھارت کو جواب دے رہا ہے جو حقیقت میں بھارت کے لئے بہت بڑا دھچکہ اور پاکستان اور چین کی کامیابی ہے۔بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی جماعت ہی بھارت کی ہمنوا اور پاکستان کی مخالف ہے ورنہ تو بنگلہ دیش کی عوام بھی اب بھارت سے متنفّر اور نالاں ہیں۔ بھارت اپنے توسیع پسندانہ اور مکر و فریب سے لبریز جارحانہ عزائم کی بدولت خطہ میں اکیلا ہوتا جا رہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب بھارت اپنے پڑوسیوں کے بیچ میں ہوتے ہوئے بھی یک و تنہا ہو گا۔اب آتے ہیں وطنِ عزیز کی طرف جس کا اثر ورسوخ بلا شبہ اسلامی دنیا میں مسلّمہ اور بھرپور ہے۔ جیسا کہ سعودی عرب، تْرکی، متحدہ عرب امارات، ملائشیا، مصر، سوڈان، انڈونیشیا، قطر، بحرین، اْردن، کویت، نائجیریا اور دیگر اسلامی ممالک اور اسی طرح افغانستان بھی ہمارا بھائی ہے۔گو افغانستان پر یورپی اقوام کی ہمراہی میں امریکہ قابض ہے، جس کی وجہ سے افغان کٹھ پتلی حکومت کے اکثر اقدامات سے پاکستان کی حکومت اور عوام کو صرف پریشانی اور تکلیف ہی نہیں پہنچتی بلکہ بے گْناہ لوگوں اور ہمارے فوجی جوانوں کی قیمتی جانوں کا دْکھ بھی سہنا پڑتا ہے۔ افغانستان سے متعلق یہ بات تو یقینی ہے کہ جب بھی اس پر غیر ملکی تسلط ہوتا ہے تو یہ پاکستان سے دشمنی پر آمادہ
رہتا ہے لیکن آزادحیثیت میں ہو تو پاکستان کا حلیف بن جاتا ہے۔پاکستان کو چاہئے کہ وہ اسلامی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مربوط کرے اور بالخصوص مالدار مسلم ممالک کو پاکستان چین اقتصادی راہداری میں شراکت داری پر آمادہ کرے۔ اس سے جہاں سی پیک کو استحکام حاصل ہو گاوہیں یہ پاکستان میں سرمایہ کاری اور صنعتکاری میں خاطر خواہ اضافہ کا باعث بھی ہو گا۔ اس ضمن میں سعودی عرب سرِ فہرست ہے اور اس کا کردار بھی کلیدی ہو گا، دیگر اسلامی ممالک مثلاً متحدہ عرب امارات، کویت، قطر، بحرین اور برونائی بھی دولت سے مالا مال ہیں۔ لیکن ایک سعودی عرب کی شراکت سارے کھیل کا پانسہ پلٹ دے گی۔
، کیونکہ سعودی عرب کی شمولیت گویا کہ دیگر عرب ملکوں کی اقتصادی راہداری میں شامل ہونے کا ایک اعلان ہو گا جو سی پیک میں بے پناہ طاقت اور توانائی بھر دے گا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان ہر مسلمان ملک پر اقتصادی راہداری کے فوائد اور مقاصددونوں کو ظاہر کرے اور اْن سے معاونت بھی طلب کرے جو کہ بہت اہم اور ضروری بھی ہے۔ مسلم ممالک قدرتی وسائل اور دولت سے مالا مال ہیں جیسا کہ سعودی عرب دْنیا کا چالیس فیصد تیل اپنے پاس رکھتا ہے، قطر تیل کی دولت سے تو دولتمند ہے ہی مگر دنیا کی بارہ فیصد گیس بھی قطر میں پائی جاتی ہے۔ ربڑ، پام آئل اور ٹِن کی پیداوار میں ملائشیاء سرِ فہرست ہے، دنیا کا نوے فیصد کولمبائیٹ نائجیریا میں پایا جاتا ہے، سیسہ اور مینگنیز کی پیداوار میں مراکش بہت نمایاں ہے، خشک میوہ جات کی عالمی پیداوار میں افغانستان کا حصہ اسی فیصدہے جبکہ اکیلے کھجور کی پیداوار میں عراق بھی اسی فیصد کے ساتھ سرِفہرست ہے۔ اسی طرح انڈونیشیا کے پاس ربڑ، پام آئل اور گیس ہے، مصر نہ صرف یہ کہ روئی اور چاول کی پیداوار میں بہت آگے ہے بلکہ عسکری لحاظ سے بھی طاقتور ہے۔ اور پھر تْرکی ہمارا وہ وفادار اور ہمدرد بھائی ہے جس سے پاکستان کے تعلقات کبھی متاثر نہیں ہوئے خواہ پاکستان کی بھارت کے ساتھ کوئی جنگ ہو یا ایٹمی دھماکے کرنے کا وقت ہو، ہمارے ترک بھائیوں نے ہمیشہ پاکستان کے حق میں نعرہ بلند کیا ہے۔دنیا کا پچاسی فیصد تیل مسلمانوں کے پاس ہے، ربڑ بھی پچاسی فیصد سے زیادہ ہے، لوہا، تانبہ، مینگنیز، کولمبائیٹ، سونا، یورینیم اور دیگر معدنیات کے ساتھ ساتھ عالمِ اسلام زرعی پیداوار میں بھی نمایاں ہے۔ دنیا کا پچیس فیصد رقبہ مسلمانوں کی ملکیت ہے، دْنیا بھر میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب بھی پچیس فیصد سے زیادہ ہے۔ تمام مسلم ممالک کی افادیت اور حیثیت اپنی جگہ مگر جدید میزائل ٹیکنالوجی اور جوہری طاقت کا حامل پاکستان تو عالمِ اسلام کا قلعہ ہے۔ لہٰذا اور کیا چاہئیے اللہ کا نام لے کر شروع ہو جائو مگر خلوص اور دیانتداری کے ساتھ تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی ہمارے قدم نہ چومے۔