امت ِ وسط
آئیے ’’تفسیر القرآن الکریم‘‘ حافظ عبدالسلام بن محمد حفظ اللہ سورۃ البقرہ: 143 کے آغاز کے بارے، جاننے کی کوشش کرتے ہیں: ترجمہ ’’اور اسی طرح ہم نے سب سے بہتر ’’اُمت‘‘ بنایا، تاکہ تم لوگوں پر شہادت دینے والے بنو اور رسولؐ تم پر شہادت دینے والا بنے۔‘‘
اس کی تفسیر کچھ یوں بیان کی ہے۔ ’’وسط‘‘ کے معنی ’’درمیان‘‘ ہے، افضل چیز کو بھی ’’وسط‘‘ کہہ لیتے ہیں کیونکہ درمیانی چیز سب سے بہتر ہوتی ہے۔ یہاں مراد سب سے بہتر ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
’’تم سب سے بہتر ’’اُمت‘‘ چلے آئے ہو، جو لوگوں کے لیے نکالی گئی‘‘ (آل عمران: 110 ) کیونکہ دو لفظوں کے درمیان سب سے مختصر اور صحیح خط مستقیم ہی ہوتا ہے۔ ابو سعید خدریؓ نے نبی صلعم سے اس کا معنی یہاں ’’عدل‘‘ روایت کیا ہے (بخاری التفسیر: 4487 ) ’’عدل ‘‘ کے معنی ’’ثقہ‘‘ اور ’’قابل اعتماد‘‘ بھی ہے۔ اعتقاد و اخلاق اور اعمال میں معتدل اور پہلی اُمتوں کی افراط و تفریط سے پاک بھی۔ نہ یہاں یہود کی سختی ہے نہ نصاریٰ کی نرمی۔ (کبیر۔ قرطبی) یعنی جس طرح یہ دو باتیں تمہارے پاس پوری ہیں اور تمہارے مخالفوں کے پاس ناقص، ایک یہ کہ تمام انبیاء کرام کو مانتے ہو اور یہود و نصاریٰ کسی کو مانتے ہیں اور کسی کو نہیں دوسری یہ کہ تمہارا قبلہ کعبہ ہے، جو ابراہیمؑ کے وقت سے مقرر ہے اور ابراہیمؑ سب کے پیشوا ہیں۔ یہود و نصاریٰ اور ان کے قبلے بعد کی بات ہیں۔ اسی طرح ہم نے تمہیں ہر کام میں ’’افضل اُمت‘‘ بنا دیا ہے۔ اس لیے اب تمہارا کام ہے کہ تم دوسروں کی رہنمائی کرو، ان کا کام نہیں کہ تمہاری رہنمائی کریں۔ (موضح القرآن)
لوگوں پر شہادت سے مراد تین طرح کی شہادت پہلی یہ کہ رسول صلعم شہادت دیں گے کہ انہوں نے صحابہ کرامؓ تک پیغامِ حق پہنچا دیا‘ صحابہ کرامؓ تابعین پر اور اسی طرح ’’اُمت‘‘ کا ہر طبقہ آنے والوں پر یہ شہادت دے گا۔ اس ’’اُمت‘‘ ہونے کا سبب بھی یہی ہے کہ وہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں۔ جیسا کہ ترجمہ : تم سب سے بہتر اُمت ہو کہ لوگوں کیلئے نکالی گئی ہو۔ (سورۃ آل عمران:110)
چنانچہ ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلعم نے خطبہ دیا۔ لوگو! تم اللہ کے سامنے ننگے پائوں ننگے جسم اور بغیر ختنہ کے اکٹھے کئے جانے والے ہو۔ پھر فرمایا اور میری اُمت کے کچھ لوگوں کو بائیں طرف لے جایا جائے گا تو میں کہوں گا‘ پروردگار! یہ تو میرے ساتھی ہیں‘ تو کہا جائے گا‘ آپ نہیں جانتے انہوں نے ‘ آپؐ کے بعد کیا نیا کام کیا تھا۔ تو میں کہوں گا جیسے صالح بندے (عیسیٰ) نے کیا تھا (المائدہ: 117 بخاری فی التفسیر: 4625) یہی آپؐ نے حجتہ الوداع میں صحابہ کرامؓ سے پوچھا: کیا میں نے (اللہ تعالیٰ کا) پیغام آپ لوگوں تک پہنچا دیا‘‘ تو سب نے کہا بے شک آپ نے پہنچا دیا۔ ‘‘ (بخاری 1741) اب ہم سب پر ایک فرض ہے کہ وہ یہ پیغام آنے والوں تک پہنچائے۔ تبھی وہ ان پر شہادت دے سکے گا بعد تبھی وہ ’’اُمت وسط‘‘ کہلانے کا حق دار ہو گا اور جو ’’اُمتِ مسلم‘‘ کی تمام گمراہی دیکھ کر بھی خاموش رہے گا وہ نہ گواہی دے سکے گا اور نہ ’’اُمت وسط‘‘ کا مصداق ہو گا۔