جنرل اسمبلی سے وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ خطاب کا فوری رد عمل بھارت کی طرف سے آیا۔ بھارتی وفد تو اس قدر حواس باختہ ہو گیا کہ اس نے وزیر اعظم کی تقریر شروع ہونے کا بھی انتظار نہیں کیاا ور وہ سب واک ا ٓئوٹ کر گئے۔ بھارتی وزیر اعظم مودی پر تو جیسے سنا ٹاچھا گیا ہو ، وہ اس بار نہ تو طویل تقریر جھاڑ سکے اور نہ اپنی زبان پر پاکستان اور کشمیر کا نام لا پائے۔
برادر اسلامی ملک ترکی کے صدر جناب طیب اردوان نے اس بار بھی اپنی تقریر میں مسئلہ کشمیر کے مسئلے پر تفصیل سے اظہار خیال کیا اور بھارتی افواج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر سخت احتجاج کیا اور یہ مسئلہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر اصرار کیا۔ ایک رد عمل پاکستانی اپوزیشن پارٹیوںنے بھی دیا، انہیں تو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ کیا مجال کہ کشمیر پر وزیر اعظم کے مضبوط بیانیے کی تحسین کے لئے ایک لفظ تک ان کی زبان سے نکلا ہو بلکہ وزیر اعظم نے منی لانڈرنگ، لوٹ کھسوٹ اور کرپشن کے انسداد کے لئے ترقی یافتہ اقوام کو ان کی کوتاہی اور ذمے داری یاد دلائی تو ہماری اپوزیشن کے ہاتھو ں کے طوطے اڑ گئے۔ اس نے بیک زبان چیخنا چلانا شروع کر دیا کہ حکومت انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے ۔اصل میں اس کرپٹ مافیا کو یہ خوف لاحق ہے کہ ابھی تو نیب اور ایف آئی اے کا سامنا ہے ۔ کل کو اقوام متحدہ نے منی لانڈرنگ روکنے کے لئے کسی عالمی عدالت کو اختیار دے دیا توغریب ممالک کے لٹیروں کو گوانتا نامو بے لے جا کر بند کر دیا جائے گا ۔تیرا کیا بنے گا کالیا۔جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم دو مرتبہ خطاب کر چکے ہیں، پچھلے سال بھی ا ور اس سال بھی۔
پاکستان میں جو لوگ کرپشن کی لت میںمبتلا ہیں اور منی لانڈرنگ کر کے لوٹ کھسوٹ کی دولت باہر لے جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یا ملک ہی سے فرا رہو کر کہیں سیاسی پناہ مانگ لیتے ہیں، ان کے گرد وزیر اعظم نے شکنجہ سخت کر دیا ہے اور جنرل اسمبلی میں کی گئی دونوں تقریروں کے ذریعے انہوںنے پاکستان اور اس طرح کے دیگر ترقی پذیر ممالک میں منی لانڈرنگ کی روک تھام اور اس کے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے ترقی یافتہ ممالک کو پا بند بنانے کی کوشش کی ہے۔
پاکستان کی وہ شرافیہ جو تیس چالیس برسوں سے ملکی دولت ہڑپ کر رہی ہے اس کو خبر دار ہو جانا چاہئے کہ وزیر اعظم ان لٹیروںکی کرپشن کی کمائی بیرونی تجوریوں میںجمع کروانے کے خلاف سخت ترین کاروائی کے لئے آواز بلند کر چکے ہیں، وزیر اعظم نے احتجاج کیا کہ ترقی یافتہ ممالک ان لٹیروں کو نہ واپس کرتے ہیں اور نہ ان کی لوٹی ہوئی دولت واپس کرنے کا نام لیتے ہیں۔
پانامہ لیکس کے لاکھوں صفحات میں ایسے لٹیروں کے نام اور انکی لوٹی ہوئی دولت کا کچا چٹھا بیان کیا گیا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیرا عظم نواز شریف کے خلاف پانامہ کے جرائم کامقدمہ چلا تو وہ حکومت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے اور سیاست سے بھی ہمیشہ کے لیے نااہل ہو گئے ۔ جیل ان کامقدر بنی مگر پہلے کی طرح وہ اس بار بھی ملک سے بچ نکلنے میںکامیاب ہوگئے ہیں۔ اس کی وجہ ان کی طویل حکومتوں کا دور ہے ، انہوںنے بیرونی ممالک میں تعلقات قائم کر رکھے ہیں جو ان کی دمڑی اور کھلڑی بچانے کے لئے آگے بڑھتے ہیں، نواز شریف کے بعد ان کے بھائی شہبا ز شریف بھی اب کٹہرے میںہیں اور جعلی کمپنیوں کے ذریعے اربوں کی لوٹ کھسوٹ کاا ن سے حساب مانگا جا رہا ہے، ان کا ایک بیٹا حمزہ قید ہے اور ایک بیٹا سلمان اور داماد علی عمران لندن فرار ہو چکے ہیں۔
پاکستان کی دوسر ی پارٹی پی پی پی کی قیادت بھی منی لانڈرنگ کے الزامات کا سامنا کررہی ہے ان کے خلاف کوئی کاروائی اس لئے کامیاب نہیں ہو پاتی کہ ترقی یافتہ ممالک ان کی کرپشن کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، آسٹریلیا، برطانیہ، امریکہ‘ کینیڈا کوچند ارب ڈالر کا جلوہ دکھائو اور ساری عمر عیش کی زندگی گزارو، ان ممالک کا قا نون ایسے مجرموں کی واپسی میں حائل ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنی دونوں تقاریر میں دنیا کو احسا س دلایا کہ، اس طرح غریب ممالک غریب تر اور امیر ممالک امیر تر ہو رہے ہیں، اور ترقی پذیر ممالک کے عوام بھوک ،بیماری جہالت کے ہاتھوں سسکتے رہ جاتے ہیں۔
وزیر اعظم نے ترقی یافتہ ممالک کے ضمیر کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ اگر یہ بیانیہ زور پکڑ جائے تو کرپٹ مافیا اور لوٹ مار کرنے والی اشرافیہ کو نکیل نہ ڈالی جا سکے اور ان کا ایسا احتساب نہ ہو سکے کہ انہیں چھٹی کا دودھ یاد آ جائے۔
شہباز شریف کے خلاف جو الزامات سامنے ا ٓئے ہیں یا اس سے قبل زرداری خاندان پر جو الزامات لگے، انہیں سن کر عام آدمی کے ہوش و حواس ا ڑ جاتے ہیں، اور وہ سوچتے ہیں کہ نہ ان کی زندگی سنو ر سکی اور نہ ان کی نسلوں کی زندگی میں کوئی انقلاب ا ٓ سکے گا۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنا پیغام لائوڈ اینڈ کلیئر دے دیا ہے۔ اور وہ دن دور نہیں جب غریب ممالک کے لٹیروں کے پیٹ سے دولت نہ نکالی جاسکے۔
٭…٭…٭
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024