یہ ایک یادگار،گونجدار، گرجدار تقریر تھی جو وزیر اعظم نے ساری دنیا کے منہ پر کی۔یہ دھار بھی تھی۔ میں نے کہا۔ مگر کیا کشمیر کا سنگین اور پیچیدہ مسئلہ تقریروں سے حل ہو جائے گا۔لوگ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ ہر مسئلہ چٹکی بجاتے حل ہو جائے۔ بہتر سال کا مسئلہ دھیرے دھیرے اور صبر سے حل ہو گا،مگر وزیر اعظم تو ایٹمی تصادم کی بات بھی کر آئے۔ اس سے تو چشم زدن میںمسئلہ حل ہو جانا چاہئے اورا گر حل نہیںہوتا تو کیا دنیا نے ایٹمی تصادم کے خدشے کو سنجیدگی سے نہیں لیا،سنجیدگی کیا ہوتی ہے، وزیر اعظم نے ڈھکے چھپے انداز میں نہیں، سفارتی لب و لہجے میں نہیں ، بلکہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کروہ سب کچھ کہہ دیا جو کسی دوسرے میں کہنے کی ہمت نہیں اور سننے کی ہمت بھی نہیں ہے مگر وزیر اعظم نے تقریر کے اختتام پر اس نکتے پر زور دیا کہ فوری طور پر وادی سے کرفیو تو اٹھایا جائے۔ انڈیا کرفیو اٹھا دے توکیاہم مطمئن ہو جائیں گے۔ یہ نکتہ انہوںنے مسئلے کے حل کی شروعات کے طورپر کیا ہے لیکن تقریر کاا ختتام انہوںنے اس بات پر کیا کہ اقوام متحدہ اپنا کردارا دا کرے اور تصادم روکنے کے لئے اپنی کوششیں تیز کر دے، اسی لئے تو اقوام متحدہ کووجود میںلایا گیا تھا۔ سلامتی کونسل کی قرادادیں تو ڑردی کی ٹوکری کی نذر کر دی گئیں۔بھارت تو ان کو مانتا تک نہیں ، وہ کشمیر کو اٹوٹ انگ کہتا ہے اور اب اس نے آئین کی حیثیت بھی بدل دی ہے بھارت کے کہنے سے کیا ہو گا، دیکھنا یہ ہے کہ خود یو این کیا کہتی ہے۔ سلامتی کونسل کا ا س پر اجلاس ہوا اسوقت توانڈیانے شور نہیںمچایا کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے ویسے انڈیا نے کوشش تو بہتری کی کہ سلامتی کونسل یہ کیس نہ سنے لیکن اس کی کسی نے نہیں سنی اور سلامتی کونسل میں اس پر غور کیا اور اس ضمن میں چین۔ روس نے ہماری مکمل حمایت بھی کی جس کے لئے پاکستان اور کشمیری ان کے بے حدشکر گزار ہیں ۔ جنرل اسمبلی میں تو ملائیشیا اور ترکی نے بھی کشمیریوں کے حق میں بات کی اور دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی بھارت پر زور ڈال رہی ہیں کہ وہ کشمیریوں پر مظالم اور جبر کا سلسلہ ختم کرے۔مودی نے واپسی پر ایک نیا پروپیگنڈہ شروع کر دیا ہے اور بھارتی میڈیا بھی نئی ڈفلی بجا رہا ہے۔ مودی نے پاکستان کو یاد دلایا ہے کہ بھارت نے سن دو ہزار چودہ میں بھی ایک سرجیکل اسٹرائیک کی تھی۔مقصد اس کا شاید یہ ہے ایسا دوبارہ ہو سکتا ہے ۔ بھارتی میڈیا طعن وتشنیع پر اتر آیا ہے کہ پاکستان کو کہاں سے انسانی حقوق کا خیال آ گیا اور یہ نیا نویلا انسانی حقوق کے لئے آواز اٹھا رہا ہے جبکہ اس حوالے سے اس کا اپنا کردار ناقابل بیان ہے ۔آپا مہنا رفیع نے میرا سوال بڑے تحمل سے سنا مگر جذباتی انداز میں بولیں کہ پاکستان میں سارے فتنے بھارت کے اٹھائے ہوئے ہیں۔ مودی نے خود تسلیم کیا کہ ہر بھارتی کی کوشش اور خواہش تھی کہ بنگلہ دیش بنے اور اب بلوچستان اور ملک کے دوسرے حصوںمیں کل بھوشنوںکی سرگرمیاں عیاں ہو گئی ہیں۔ عام پاکستانی کو حکومت سے کوئی شکایت نہیں۔یہ تو بھارت کے زرخرید ایجنٹ شور ڈال رہے ہیں اور دنیا ان کے پروپیگنڈے پرتوجہ دینے کو تیار نہیں ، نہ کوئی گریٹر بلوچستان بن رہا ہے، نہ گلگت الگ ہونا چاہتا ہے آزاد کشمیرا ور مقبوضہ کشمیر سے تو ایک صدا اٹھتی ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔آپا نے کل بھوشن کا ذکر کیاا ورا س سے مجھے دہشت گردی کی جنگ یاد آ گئی جن کی عمران خان مخالفت کرتے چلے آ رہے ہیں۔اگرا ٓپ کل بھوشن کے وجود کو تسلیم کرتی ہیں تو پھر دہشت گردوں سے نفرت کیوں نہیں۔آپا جی نے کہا کہ کل بھوشن تو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ اس پر کوئی تنازعہ نہیں مگر جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے دور میں ہم سے جو جہاد کروایا گیا۔ا س پر ہمارے تحفظات ہیں۔ روس ضرور افغانستان میں آیا تھا۔ اس پر امریکہ کو کوئی اعتراض تھا تو وہ خود اس کے خلاف لڑتا۔ مجاہدین کھڑے کیوں کئے اور وہی ہمارے گلے پڑ گئے۔ کلاشنکوف اور ہیرو ئن کلچر نے فروغ پایا۔ انتہا پسندی کو شہہ ملی اور تفرقہ بازی کا زہر ہماری رگوں میں سرایت کر گیا۔ ہمیں اس جہاد میں کودنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ وار آن ٹیر ر شروع ہوئی تو کوئی پاکستانی یا افغانی نائن الیون کے حادثے میںملوث نہیں تھا ،ا سلئے ہمیںاس جنگ میں نہیں کودنا چاہئے تھا۔ مگر ہم نے غلطی کی اور یہ بلا ہمارے گلے پڑ گئی اور ہمارے ستر ہزار افراد شہید ہو گئے ۔ نائن الیون میں تو امریکہ کے تین ہزار بھی نہیں مرے اور جو بھی مرے ، امریکہ نے ان کابدلہ لینا تھا تو امریکہ خود یہ جنگ لڑتا۔ اسے تو خراش تک نہ آئی مگر اس نے ایک طرف ہم سے یہ جنگ لڑوائی اور دوسری طرف وہ ہمیں اپنا حلیف بھی نہیںمانتا، بلکہ ہمیں دہشت گردوں کا گھر قرار دیتا ہے، وہ سب اصل میں بھارت کا پروپیگنڈہ ہے اور امریکہ بھی بھارت ہی کی زبان بول رہا ہے۔وزیر اعظم نے اسلامو فوبیا کی بات بھی کی ۔ کیا انکے بیانئے کو تسلیم کر لیا گیا۔آپا جی نے کہا کہ اسلامو فوبیا کا زہر اہل مغرب کا پھیلایا ہوا ہے ۔ وزیر اعظم نے سوال کیاا ور بجاطور پر کیا اور ان لوگوں کے منہ پر کیا کہ ایک طالبہ حجاب پہن کر اسکول کالج جاتی ہے تو وہ ا یسے دہشت گرد ہو گئی۔ اصل میں اہل مغرب مسلمانوں کی حساسیت کو نہیں سمجھ سکے۔ انہیں اپنے احساسات سے تو غرض بہت ہے کہ دنیا میں کہیںکوئی امریکی نہ مرنے پائے۔ مر جائے تو ا سکا بدلہ لیا جائے تو کیا جب مسلمانوں کے دین کا مضحکہ اڑایا جاتا ہے ، کارٹون بنائے جاتے ہیں۔ گستاخی کی جاتی ہے اورا س پر فخر کیا جاتا ہے تو کیا مسلمانوں کو اس پر غصہ نہیں آئے گا۔ مسلمانوں کے ا س رد عمل کو انتہا پسندی اور دہشت گردی سے تعبیر کیا جاتا ہے،ا س پر اہل مغرب کو اپنی سوچ بدلنی پڑے گی۔ اب آپ آگے کا لائحہ عمل کیا دیکھتی ہیں۔ حکومت کشمیر کے لئے کیا کرنے جا رہی ہے اور یہ مسئلہ کیسے اور کب حل ہو گا۔ظاہر ہے پلک جھپکنے میں تو حل نہیںہو گا۔ وزیر اعظم نے امریکہ ا ور اہل مغرب کے سامنے دو ٹوک انداز میں بات کی ہے۔ ہر دلیل سے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ ایک مدبرانہ انداز ہے اور فی الوقت بہت بڑی کامیابی ہے،آج تک پاکستان کے کسی حکمران نے ا س زور دار طریقے سے مسئلہ کشمیر پر بات نہیں کی اور اب ہو ئی ہے تو ا س پر کان دھرے رہ جائیں گے۔ یہ باتیں ہوا میں تحلیل نہیںہو گئی حکومت ہر محاذ پر کوشاں ہے اور عمران خان ہی یہ مسئلہ حل کرنے کاا عزاز حاصل کریں گے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024