اسلامی مہینوں کے نئے سال 1439ھ ،نئے مہینے محرم الحرام کا اللہ کے فضل و کرم سے آغاز ہوگیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ یہ سال پوری اُمت ، عالم اسلام کے لیے اتحاد ،وحدت ،یکجہتی ،عزت و سربلندی ، ترقی و خوشحالی ، امن وآزادی اور خیر وبرکت کا سال بنادے ،آمین۔ ماہ محرم الحرام اسلامی سال کا آغاز ہے اس ماہ میں ایسا تاریخی اور انقلابی سانحہ پیش آیاکہ ہر سال یہ عظیم قربانیاں اہل ایمان کو سبق دیتی ہیں ، کربلا کا درس یا دکراتی ہیں کہ اصل زندگی خدا کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردینا ہے ، میدان کربلا میں امام حسین ؓ اور خانوادہ¿ رسول کی قربانی کا یہ ہی پیغام ہے ۔
انسانی تاریخ اور معاشروں میں انسان ہی ہمیشہ کی زندگی پاتے ہیں ، مہلت عمل کے اختتام پر اپنے رب کی طرف لوٹ جاتے ہیں ۔ اللہ کی کتاب قرآن یہ ہی آگہی دیتی ہے کہ زندہ رہنے اور ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے زندگی گزارنے کا حق اُن کو ہی ملتاہے جو حق پر قائم رہیں اور حق کی خاطر جان دینے کے لیے تیار رہیں۔ وہ قوم او رانسان جو موت سے ڈرے لرزے ان کے لیے موت اور مٹ جانا ہی مقدر ہوتا ہے۔ لیکن جو گروہ ، قوم اور فرد اللہ سے ڈرتا ہے ، رسول اللہ ﷺ کے اسوہ کی پیرو ی کرتاہے ،غلبہ حق کے لیے سرگرداں رہتاہے اور وقت پڑنے پر موت سے پنجہ آزمائی کے لیے تیار ہوتاہے ۔ اللہ کی طرف سے کامیابیاں بھی اُن کے لیے اور فتح و نصرت سے بھی وہی نوازے جاتے ہیں ۔ انسا ن کے لیے عزت و سربلندی کی زندگی یہ ہی ہے کہ اللہ کی راہ میں جان، مال اوروقت قربان کرنے کے لیے تیار رہے۔
خلافت راشدہ معیار حق ہے ، صحابہ کرام ؓ نے اپنی پوری زندگیاں دین حق کی پاسبانی میں گزاریں۔ خلافت راشدہ محض ایک سیاسی حکومت نہیں تھی بلکہ نبوت کی مکمل نیابت تھی ، خلافت کا کام صرف یہ نہ تھا کہ حکومت کرے ، ملک کانظم و نسق چلائے ، امن قائم کرے ، سرحدوں کی حفاظت کرتی رہے بلکہ مسلمانوں کے اجتماعی نظام زندگی میں معلم، مربی اور مرشد کے وہ تمام فرائض انجام دیتی تھی جو رسول اللہ ﷺاپنی حیات مبارکہ میں انجام دیا کرتے تھے ۔ ان کی ذمہ داری تھی کہ دارالاسلام میں دین حق کے پورے نظام کو اس کی اصل روح کے ساتھ چلائے ، اور پوری دنیا میں اہل ایمان کی اجتماعی طاقت کو اللہ کا کلمہ بلند کرنے کی خدمت پر لگادے ، اسی لیے یہ صرف خلافت راشدہ ہی نہیں خلافت مرشدہ تھی ۔ دین سے وابستہ لوگوں کے لیے یہ امربالکل عیاں رہنا چاہیے کہ اسلام میں ایسی ریاست مطلوب ہے جو محض سیاسی و جمہوری حکومت ہی نہ ہو بلکہ خلافت راشدہ کی تمام خصوصیات کی پیروی اس کی ترجیح اول ہو۔
یہ پہلو غور طلب اور جاننے سے تعلق رکھتا ہے کہ رسول اللہ ﷺکی عظیم قیادت ، رہنمائی اور پھر خلفائے راشدین کے عظیم دور و کردار کے بعد یہ نظام خیر شخصی خواہشات کے زیر کیسے چلا گیا۔ مسلمانوں کے ریاستی نظام کے اصول اور اسلوب حکمرانی کو کیسے تبدیل کیاگیا اور کس رویہ اور طریقہ نے اسے راستہ سے ہٹایا جس کی وجہ سے اسلامی تاریخ اور مسلمانوں پر خوفناک گہرے اثرات بد پیداہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، حضرت عمر بن خطاب ؓ،حضرت عثمان غنی ؓ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کے ادوار کے اختتامی مراحل میںریشہ دوانیاں شروع ہوئیں اور المناک واقعات رونما ہوئے لیکن کئی اختلافی مراحل سے گزر کر خلافت ، اختیارات ، ریاست چلانے کا عبوری مرحلہ حضرت معاویہ ؓ کے ہاتھ میں آیا تو اسلامی بصیرت رکھنے والے جان گئے تھے کہ اب خلافت کے رہنما اصولوں کی بجائے شخصی بادشاہت اور اسلوب سے سابقہ درپیش ہے۔ تاریخ کے اوراق میں یہ امر نقش ہے کہ حضرت سعد ؓبن ابی وقاص جب حضرت معاویہ ؓ کی بیعت ہوجانے کے بعداُن سے ملے تو السلام علیک ایھا الملککہہ کر خطاب کیا تو حضرت معاویہ ؓ نے کہاکہ اگر آپ امیرالمو¿منین کہتے تو کیا حرج تھا انہوںنے جواب دیا خدا کی قسم جس طرح آپ کو یہ حکومت ملی ہے اس طریقے سے اگر یہ مجھے مل رہی ہوتی تو میں اس کا لینا ہرگز پسند نہ کرتا۔ حضرت سعد ؓ وہ عظیم مقام رکھتے تھے کہ زمانہ فتنہ میں اُن سے کہا گیا کہ خلافت آپ کا حق ہے ، یہ حق لینے کے لیے کھڑے ہوجائیں تو ایک لاکھ تلواریں آپ کی حمایت کے لیے تیار ہیں ۔ انہوںنے جواب دیا ”ایک لاکھ تلواروں میں سے میںصرف ایک تلوار ایسی چاہتاہوں جو کافر پر تو چلے مگر کسی مسلمان پر نہ چلے ۔ “ (البدایہ ، جلد۸،ص:۷۲)حالات نے حضرت معاویہ ؓ کو خود ہی سمجھا دیا تھا اور ہ خود ایک مرتبہ کہہ اٹھے کہ ”انا اول الملک “میں مسلمانوں میں پہلا بادشاہ ہوں۔ رسول اللہ ﷺکی حدیث مبارکہ ہے کہ میرے بعد خلافت 30سال رہے گی پھر بادشاہی ہوگی۔ خلافت علیٰ منہاج النبوة کے بحال ہونے کی اس مرحلہ پر یہ صورت باقی رہ گئی تھی کہ حضرت معاویہ ؓ اپنے بعد اس منصب پر کسی شخص کے تقرر کی بجائے معاملہ مسلمانوں کے باہم مشورہ پر چھوڑ دیتے، اگر وہ اپنی زندگی میں ہی جانشینی طے کرنا چاہتے تھے تو بھی صاحبان رائے اور اہل علم کو جمع کرکے انہیں آزادی کے ساتھ یہ فیصلہ کرنے دیتے کہ ولی عہد کے لیے اُمت میں موزوں ترین کون فرد ہے لیکن انہوںنے اپنے بیٹے یزید کی ولی عہدی کے لیے خوف ، لالچ ، طمع کے ذرائع استعمال کرتے ہوئے بیعت لے کرانہوں نے بحالی خلافت کے اس امکان کا بھی خاتمہ کردیا۔ اس طرح خلافت راشدہ کے نظام کاآخری اور قطعی طور پر خاتمہ ہوگیا ۔
حضرت معاویہ ؓ کادین سے اخلاص اور جہد مسلسل میں مقام بہت بلند ،شرف صحابیت میں بھی واجب الاحترام ، ان کا یہ کردار اسلامی تاریخ پر نقش ہے کہ دنیائے اسلام کو ایک جھنڈے تلے جمع کیا اور دنیا میں اسلام کے غلبہ کا دائرہ بہت وسیع کردیا ۔ اُن کی عظیم شخصیت پر جو لعن طعن کرتاہے وہ زیادتی کرتاہے، علم سے بے بہرہ ہونے کاثبوت دیتاہے۔ لیکن ایسا عمل جو حق و انصاف ،اُمت کے لیے خیر کا باعث نہ بنا اسے بھی تو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہی درست قرار نہیں دیا جاسکتا ، پھر تو صحیح اور غلط کامعیار خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
میدان کربلا میں دین حق کی حفاظت ، خلافت کے احیاءاور اہل ایمان پر بادشاہت ملوکیت کی بجائے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں قیادت اور نظام کے قیام کے لیے نواسہ¿ رسول اور خانوادہ¿ رسول نے قربانی دی۔ رسول اللہﷺنے فرمایا حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓنے روایت کیا کہ حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ کے لیے دعا فرمائی :”اے اللہ میںان دونوں سے محبت کرتاہوں تو بھی ان دونوں سے محبت فرما اور جس نے ان دونوں سے محبت کی اس نے حقیقت میں مجھ سے محبت کی ۔ “حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بھی روایت کرتے ہوئے آپ سے یہ الفاظ منقول کیے : ”اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتاہوں تو بھی ان سے محبت فرما، جوان سے بغض رکھے تو ان سے بغض رکھ ۔ “ (کمای المنتخب ۵/۱۰۶) حضرت علی ؓ فرماتے ہیں :”میں نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا ، حضور اکرم ﷺنے ایک چادر بچھا رکھی تھی اس پر حضور اکرم ﷺ،میں ، حضرت فاطمہ ؓ ،حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ سب بیٹھ گئے ۔ پھر حضور اکرم ﷺنے چادر کے چاروں کونے پکڑ کرگرہ لگادی۔ پھر یہ دعا فرمائی :اے اللہ جیسے میں ان پر راضی ہوں تو بھی ان پر راضی ہو جا۔“(طبرانی ۹/۶۹)
اس خانوادہ کے عظیم رکن حضرت امام حسین ؓ کا حق اور فرض بنتاتھا کہ جب اسلام کی فکر ، سیاست ، خلافت ، سماجی واخلاقی قدریں اور دینی اقدار پامال ہو رہی تھیں سارے نظام بابرکت کا رخ موڑا جارہاتھا تو یزید کی بیعت کرنے کی بجائے حق کے علم کو بلند کیا جاتا تاکہ اسلام کی فکر ، سیاسی ، سماجی اور دینی حیثیت کو غلط راستے سے بچا کر حق کی راہ پر قائم رکھا جاتا ۔ اسی جرم کی پاداش میں یزید نے نشہ اقتدار میں سب ہوش کھو کر امام عالی مقام اور خاندان پیغمبر زماں ، خانوادہ¿ رحمة اللعالمین کو شہید کیا ،صرف اپنی ذات کی بالادستی اور ناحق اقتدار کے لیے ۔ امام عالی مقام کی شہادت ایک ایساالمناک او ردردانگیزواقع تھا کہ اُمت صدیوں سے آنسو بہانے کے باوجود اُن کی شہادت پر آج بھی افسردہ اور غم ناک ہے۔ سینکڑوں برس گزرجانے کے باوجود یہ زخم ،غم اور واقعہ تازہ ہے۔”ابو الکلام آزادؒ کے بقول امام حسین ؓ کے جسم خونچگاں سے دشت کربلا میں جس قدر خون بہاتھا اس ایک ایک قطرہ کے بدلے دنیا اشک ہائے ماتم الم کا سیلاب بہا چکی ہے ۔ “شہادت امام حسین ؓ اُمت مسلمہ کے لیے ایک عظیم درس ہے۔ میدان کربلا میں جیت اور غلبہ تو یزیدی سپاہ کو ہوئی تھی جب کہ ہار،ہزیمت اور شہادت سیدنا امام حسین ؓ اور ان کے جان نثار ساتھیوں کے حصے میں آئی تھی ۔ لیکن حق اور سچ یہ ہے کہ امام عالی مقام ؓ ہار کر بھی جیت گئے ، شہادت دوام اور رہتی دنیا تک کے لیے عزم و استقلال کی علامت بن کر آج مسلمانان عالم کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔
اسلام میں شہداءحق کاسلسلہ طویل اور دراز تر ہے۔ لیکن معرکہ حق وباطل اور دنیا ئے شہداءمیں حضرت امام حسین ؓکامرتبہ و مقام کئی اعتبار سے ممتاز اور نمایاں ترین ہے۔ امام عالی مقام نے اپنی سپاہ کابیشتر حصہ ”میدان کربلا “ میں راہ حق میں شہید کروانے کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کے بیشتر مرد وزن اپنی آنکھوں کے سامنے دین کی سربلندی کی خاطر قربان کردیئے اور خود دشمن کی صفوں کو تن تنہا چیرتے ہوئے ان پر ٹوٹ پڑے،امام جو اں مردی اور بہادری سے لڑتے ہوئے دین اسلام اور شعائر اسلام کی سربلندی کے لیے بڑے عزم و استقلال سے جام شہادت نوش کر گئے۔ شہید ان حق اور فدائیان اسلام ہمیشہ معرکہ حق وباطل میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہتے ہیں۔ کیونکہ اسلام کی سربلندی نگاہ حق پرست میں جان سے عزیز اور اہم تر ہوتی ہے۔