کشمیر ، فلسطین دنیا میں مظلومیت کی علامت کے طور پر دیکھے پڑھے اور سنے جاتے ہیں۔ اہل فلسطین کا ذکر ہو یا کشمیر کا شہداء اور غازیوں کی طویل تعداد آنکھوں کے سامنے آ جا تی ہے ۔ اہل اسلام اور مظلوموں سے محبت کرنیوالے ہمیشہ فلسطین اور کشمیر میں ہونیوالے مظالم کا ذکر کرنا نہیں بھولتے ۔ اگرچہ حالات کے جبر اورسختیوں نے شام ، عراق اور یمن میں بھی ایسے حالات پیدا کر دیئے ہیں کہ کشمیر اور فلسطین کے ذکر سے قبل شامیوں اور عراقیوں پر ہونیوالے مظالم کا ذکر ہر زبان پر آ جاتا ہے لیکن فلسطین اور کشمیر کے مظلوم ملت اسلامیہ کا اہم جزو ہیں جن کو کسی صورت نہیں بھولا جا سکتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سال حج کی سعادت نصیب کی تو منیٰ میں سعودی عرب کی وزارت مذہبی امور کے کچھ ذمہ دار دوستوں نے توجہ دلائی کہ منیٰ کے خیموں میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو فلسطین کے شہداء کے وارث ہیں اور خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز کی دعوت و ضیافت پر اور وزارت مذہبی امور کی زیر نگرانی ان کو بلایا گیا ہے یہ ایک ہزار شہداء کے ورثا ہیں جو اس سال خادم الحرمین الشریفین کی ضیافت میں حج اد اکر رہے ہیں۔ جب یہ اطلاع موصول ہوئی تو خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز کے ضیافت پروگرام کے سیکرٹری جنرل برادرم عبد اللہ مدلیج سے رابطہ قائم کیا جو روز و شب وزیر مذہبی امور الشیخ صالح بن عبد العزیز آل الشیخ کی سرپرستی میں حجاج کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں اور پھر اپنے ساتھیوں مولانا عبد الحمید صابری ، مولانا حافظ محمد امجد ، مولانا محمد ایوب صفدر اور سعودی عرب کے وزارت مذہبی امور کے ذمہ داران کے ہمراہ فلسطین کے شہداء کے وارثوں نے ملاقات کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ ان شہداء کے وارثوں نے جس محبت اور پیار سے ہم سے ملاقات کی اور فلسطین کے مسئلہ پر پاکستان اور پاکستان علماء کونسل کے مؤقف کو سراہا اس سے اس بات کا احساس ضرور ہوا کہ اگرچہ گذشتہ چند سالوں سے پاکستان کے اند رعالم اسلام کے مسائل پر اس طرح آواز بلند نہیںہو تی جس طرح 9/11 سے پہلے ہوتی تھی لیکن پھر بھی عالمی طور پر اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے پاکستان کا نام انتہائی احترام سے لیا جاتا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان نے کشمیر پر اور اسرائیل نے فلسطین پر جو ظلم و ستم کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے دنیا کی تاریخ میں ایسے مظالم دیکھنے کو نہیں ملتے لیکن فلسطینی اور کشمیری اپنی جدوجہد آزادی سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔دنیا نے ان مظلوموں کا کبھی بھی اس طرح ساتھ نہیں دیا جس طرح دینے کا حق ہے لیکن اسکے باوجود یہ دونوں مایوس ہونے کی بجائے روز و شب اپنے خون سے اپنی جدوجہد کو جلا بخش رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ پراپیگنڈہ کیا گیا کہ سعودی عرب اسرائیل کیساتھ اپنے تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے اور اس سلسلہ میں اعلیٰ سطح پر رابطے شروع کر دئیے گئے ہیں جس کی سعودی وزارت خارجہ نے فوری تردید کر دی ، لیکن اس کے باوجود یہ سلسلہ جاری تھا سعودی عرب کے شاہ ، شاہ سلمان بن عبد العزیز نے ایک ہزار فلسطینی شہداء کے ورثا کو حج کی ضیافت پر بلا کر ہر طرح سے پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کو نہ صرف دور کر دیا بلکہ دنیا عالم کو ایک واضح پیغام دے دیا کہ عالم اسلام اور مسلم دنیا فلسطین کے شہداء کو نہیں بھولی اور جب تک فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہوتا اس وقت تک اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اگر ہم حالیہ دنوںمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہونیوالی عرب رہنمائوں کی تقریروں کو دیکھیں تو ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد ہوں ، امارات کے وزیر خارجہ ہوں یا امیر قطر ہوں ہر کسی نے فلسطین کے معاملے پر اپنے مؤقف کو واضح انداز میں بیان کیا ہے۔ امیر قطر کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یہ کہنا کہ دنیا جان لے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کسی صورت قائم نہیں ہو سکتے جب تک مسئلہ فلسطین حل نہیں ہوتا اور فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں مل جاتا، یہ بیان تمام خدشات کو دور کر دیتا ہے۔پاکستان بھی فلسطینیوں کے ساتھ اسی طرح کھڑا ہے جس طرح سعودی عرب اور قطر کھڑے ہیں ۔ یہ بات قابل اطمینان ہے کہ عالم عرب اور عالم اسلام مظلوم فلسطینیوں کی جدوجہد میں ان کی پشت پر کھڑا ہے ۔ اس سلسلہ میں ترکی کا کردار بھی قابل ستائش ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عالم اسلام فلسطینیوںا ور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے بارے میں اب واضح عملی لائحہ عمل اختیار کرے ۔ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز کی دعوت پر آئے ہوئے فلسطینی شہداء کے ورثا سے ہونے والی نشست میں جو گفتگو ہوئی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ فلسطینی قوم نے تمام تر اسرائیلی مظالم کے باوجود اپنی جدوجہد کو ترک نہیں کیا، ہزاروں شہداء اور زخمیوں اور قیدیوں کے باوجود فلسطینی عوام کا جذبہ آزادی دنیا کے سامنے روز روشن کی طرح واضح ہے ۔ ہمیں دنیا اسلام کی عملی مدد کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور الفاظ کی مدد کی بھی ضرورت ہے ، ہم یہ جانتے ہیں کہ گذشتہ چند سال سے شام ، عراق اور یمن کے مسائل بھی سامنے آ گئے ہیں ۔ لیبیا اور تیونس بھی جلتا ہوا نظر آ رہا ہے ، پاکستان کیلئے بھی مسائل پیدا کیے جا رہے ہیں لیکن ہماری آرزو اور تمنا یہی ہے کہ مسلم دنیا اور بالخصوص پاکستان کی عوام ہمیں ہر گز ہرگز نہ بھولے ۔ ہر ہر لمحہ ہماری جدوجہد کو یاد رکھا جائے کیونکہ حالات و واقعات اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ ہماری جدوجہد کی منزل قریب ہے ۔ یہی آواز کشمیریوں کی بھی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عملی طور پر اسلامی دنیا فلسطین اور کشمیر کیلئے آگے بڑھے اور حتمی فیصلہ کر لے ۔کیونکہ آزادی فلسطین و کشمیر کی منزل قریب ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024