سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پھانسی سے قبل کوٹ لکھپت جیل کا عرصہ قید ، شاندار طریقے اور اعلیٰ ظرفی سے گزارا جسکی گواہی اس وقت وہاں تعینات جیل افسران دیتے ہیں ۔اس د وران جیل سپرنٹنڈنٹ کا رعب و دبدبہ اور جاہ وجلال دیکھ کر انہوں نے کہا تھا کہ اگر انہیں کبھی موقع ملا تو وہ وزیراعظم کی بجائے جیل سپرنٹنڈنٹ بننا پسند کریں گے۔ اس وقت جیل سپرنٹنڈنٹ واقعی جیل کا بادشاہ ہوتا تھا۔ جیل کے اندر اسے لامحدود اختیارات حاصل ہوتے تھے اور اچھے جیل سپرنٹنڈنٹ کو قیدی اپنے باپ کا درجہ بھی دیتے تھے۔ کرپشن کا ناسور بھی اس وقت جیلوں میں اس قدر نہیں پھیلا تھا۔قیدیوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری ہونا ان کیلئے بہت بڑا کام ہوتا تھا مگر اب حالات بدل گئے ہیں۔ آج جیلوں میں کرپشن ہی کرپشن ہے۔ جیلیں بکتی بھی رہی ہیں اور اب تو اکثر جیلیں ٹھیکے پر چلتی ہیں۔ ملاقاتوں سے لیکر تلاشی اور چکرسے لیکر ڈھلائی تک ہر جگہ پیسہ بولتا ہے۔ میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی جیلروں کے اختیارات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ جیل میں قیدیوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات سے مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔ موجودہ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید مشرف کے دور میں گرفتار ہو کر تشدد کا نشانہ بنائے گئے ۔ میرے ساتھ ان دنوں ان کے تعلقات بہت اچھے تھے اور ویسے بھی نوائے وقت کے سیکریٹریٹ اور جیلوں کے بیٹ رپورٹر کی حیثیت سے پرویز رشید صاحب کی گرفتاری سے لیکر جیل جانے کے تمام حالات پر نظر رکھنا میرے فرائض میں شامل تھا۔ ایک دن مجھے مجسٹریٹ کینٹ لاہور کا فون آیا کہ ”آپ کے دوست پرویز رشید کو جیل بھجوا دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے وہ لاہور میں مختلف جگہوں پر مختلف ایجنسیوں کے پاس رہے اور ان پر بے پناہ تشدد بھی کیا گیا۔ مجھے ان کے جیل جانے کی خبر ملی تو میں نے فوراً اس وقت کے جیل سپرنٹنڈنٹ کوٹ لکھپت چدھڑ مرحوم کو ان کے گھر فون کیا اور کہا کہ میں نے ایک قیدی سے ملاقات کرنا ہے تو انہوں نے کہا کہ شام ہو چکی ہے اب تو جیل بند ہو چکی ہے ۔چدھڑ مرحوم میرے مہربان تھے میرے اصرار پر مان گئے اور کہا آپ آ جائیں۔ انہوں نے میرے آنے سے پہلے ہی بہانے سے پرویز رشید صاحب کو جیل ڈاکٹر کے کمرے میں بلوا لیا تاکہ کسی کو شک نہ پڑے۔ اس وقت مارشل لاءکا تازہ تازہ خوف تھا اس لئے ہر افسر ڈرتا تھا۔ پرویز صاحب بھی چونکہ مارشل لاءکے قیدی تھے اس لئے ان پر خصوصی نظریں بھی تھیں جو لمحہ بہ لمحہ اوپر رپورٹ کرتی تھیں۔ پرویز رشید صاحب کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی تفصیل پھر کبھی سہی مگر فی الحال ان کی ایک چھوٹی سی خواہش کا ذکر۔ میں جیل ڈاکٹر کے کمرے میں پہنچا تو پرویز صاحب وہاں اکیلے تھے میں نے جیل سپرنٹنڈنٹ سے کہا کہ مجھے اکیلے میں بات کرنے کا موقع دیں۔ پرویز رشید صاحب کا تمام جسم زخموں سے چور اور کمر سے خون رس رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ فوری طور پر آپ کے علاج کے لئے میں نے جیلر کو کہہ دیا ہے، تو انہوں نے کہا محسن سردی ہے۔ انہوں نے میرے سیل میں ایک کمبل دیا ہے۔ جیلر آپ کا دوست ہے مجھے ایک کمبل اور لے دو“ میں نے ایک کی بجائے مزیددو کمبل انہیں بھجوا دئیے۔ انہی دنوں فوج نے متعدد سیاستدانوں کو تھانہ سرور روڈ کی دو حوالاتوں میں قید رکھا ہوا تھا۔ میاں منظور احمد وٹو کی خواہش تھی کہ انہیں گھر کا پرہیزی کھانا دیا جائے کیونکہ وہ دل کے مریض ہیں، وہ انہیں نہ دیا گیا اور لنگر کی دال ہی کھانا پڑی۔ سید فیصل صالح حیات کی خواہش تھی کہ انہیں ویسٹرن کموڈ استعمال کرنے کی اجازت دی جائے،جو ممکن نہ تھی۔ ضلع کونسل لاہور کے سابق چیئرمین چودھری ذوالفقار علی کی خواہش تھی کہ ایک سگریٹ ہی پلا دیا جائے جو انہیں اسی وقت دے دیا گیا۔ مجھے یاد ہے ان کے ساتھ قید میاں نواز شریف کے کزن میاں طارق شفیع نے کسی خواہش کا اظہار نہ کیا بلکہ یہ کہا کہ انہوں نے نماز پڑھنی ہوتی ہے اس لئے انہیں مسجد یا کسی پاک جگہ پر نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ یہ ایسے ہی چلتے چلتے قیدیوں کی خواہشات کا ذکر درمیان میں آ گیا۔بات جیلروں کے اختیارات کی ہو رہی تھی مگر اب تو قیدی اتنے بااختیار ہو گئے ہیں کہ وہ جیل سپرنٹنڈنٹ اور ڈی آئی جی جیل تک کو تبدیل کرا سکتے ہیں۔ پچھلے دنوں اڈیالہ جیل میں ایک قیدی نے وہاں کے ڈی آئی جی جیل کے ساتھ ایسا ہی کیا ہے۔ ان دنوں جیلوں میں سب سے زیادہ سنگین جرم موبائل فون رکھنا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ فون برآمد کرنے کا کارنامہ ڈی آئی جی کا جرم بنا دیا گیا ہے اور راولپنڈی کے ایک حکمران ایم این اے نے اس ڈی آئی جی کو او ایس ڈی بنوا دیا ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!!!۔
اس وقت جیلوں میں بہت سے مسائل اصلاح طلب ہیں ۔پاکستان میں 83جیلیں ہیں جن میں سے پنجاب میں 32، سندھ میں 19، بلوچستان میں 10اور خیبر پختونخوا میں 22 ہیں۔ ان میں پانچ جیلیں خواتین کے لیے مخصوص ہیں جن میں سے3 سندھ میں اور ایک ایک پنجاب اور بلوچستان میں ہے۔ پنجاب میں جیل خانہ جات کا ادارہ 1854میں قائم کیا گیا جس کا مقصد قیدیوں کی تحویل، کنٹرول، حفاظت اور ان کی اصلاح تھا۔ ماضی میں کسی بھی جیل میں جب بھی کوئی مجرم جاتا تھا تو اس کے لیے ایک سبق ہوتا تھا مجرموں کی شناخت پریڈ اور اسطرح کے کئی واقعات سننے میں آتے رہے ہیں اور کئی جیلوں میں جیلر اپنی نوکری کو فرض سمجھتے تھے جس کی وجہ سے نہ صر ف مجرموں کی اصلاح ہوتی تھی بلکہ معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی ہوتی تھی جو کہ جرائم کی روک تھا م کے لیے بھی مدد گار ثابت ہوتی تھی لیکن حال ہی میں دیکھا جائے تو جیلیں بعض مجرموں کے آگے کمزور پڑتی جارہی ہیں جیسا کہ خیبر پختونخوا میں پے درپے جیلوں پر ہونے والے حملوں نے تو تمام صورتحال ہی تبدیل کر دی ہے اور جیلوں خصوصاً پاکستان کی جیلوں میں سیکیورٹی کے حوالے سے نئے خدشات پیدا کر دئیے ہیں جن میں سب سے اہم تو یہ ہے کہ ان جیلوں کی تعمیر مجرموں کی اصلاح کے لیے کی گئی تھی نہ کہ یہ جیلیں دہشت گردوں کے لیے بنائی گئیں تھیں اور حالیہ واقعات نے ثابت بھی کیا ہے کہ یہ جیلیں اور ان کا عملہ دہشت گردوں کے سامنے ریت کی دیوار سے زیادہ کچھ بھی نہیں ، دوسرا اہم پہلو جو سامنے آیا ہے وہ یہ کہ خیبر پختونخوا کی جیلوں میں حملوں کے بارے میں واضح طور پر حقائق سامنے آنا شروع ہورہے ہیں اور سننے میں آیا ہے کہ بڑے مجرموں کی موبائل ہی نہیں سوشل میڈیا پر بھی رسائی تھی اور وہ اس تمام کارروائی کے دوران فیس بک اور دیگر سائٹس پر اپنے ساتھیوں کو اپ ڈیٹ کرتے رہے ۔ اب بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بااثر ملزمان جیلوں میں بیٹھ کر اپنے کاروبار اور دوسرے جرائم کو کنٹرول کرتے ہیں ۔ دہشت گردی اور بڑے جرائم کے مجرموں کی اصلا ح کی بجائے جیلیں ان کے لیے ایک آرام گاہ بن جاتی ہیں جن میں بیٹھ کر وہ سکون کے ساتھ اپنا دو نمبر دھندہ چلاتے ہیں اور ان پر کوئی الزام بھی نہیں آتا۔
جیلوں کے لحاظ سے ایک نئی تشویش ناک صورتحال یہ ہے کہ پہلے تو قیدی سیوریج پائپ ، گاڑی میں چھپ کر یا پھر بڑی جیلوں میں کوئی سرنگ نکال کر بھاگنے کی کوشش کرتے تھے لیکن اب تو انہیں لے جانے والے لاو¿ لشکر لے کر پورے پروٹوکول کے ساتھ آتے ہیں اور سکون کے ساتھ ساری جیل اور انتظامیہ کو دہلا کر اپنے ساتھیوں کو لے کر فرار بھی ہوجاتے ہیں ۔ان موجودہ حالات اور چیلنجز کے پیش نظر پاکستان کی تمام جیلوں میںسیکیورٹی بڑھانے اور سٹاف کی نئی لائنز پر ٹریننگ اور میرٹ پر بھرتی ضروری ہے۔ سب سے اہم پہلو تو یہ ہے کہ جیل خانہ جات کے ادارے کی تنظیم ایسی ہونے چاہیے کہ کوئی بھی قیدی اپنے سیاسی یاسماجی اثر ورسوخ کی وجہ سے جیل کے کسی ذمہ دار اور ایماندار افسر کو چیلنج نہ کرسکے اور قانون کو اپنے ہا تھ میںلے کر افسروں کے خلاف کارروائی نہ کرسکے ۔ حال ہی میں پنجاب اور سندھ کی جیلوں میں کریک ڈاو¿ن کیے گئے جن کے دوران جیلوں میں انٹرنیٹ کے استعمال اور موبائل کی فراہمی کے ثبوت ملے ہیں حتیٰ کے فی جیل سینکڑوں موبائل برآمد بھی ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے مزید تحقیقات کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ کوئی جیل ملازم کسی مجرم کے ساتھ ساز باز کرکے یا اس کے زیر اثر آکے اسے موبائل سمیت دیگر غیر قانونی اور ممنوعہ آلات فراہم نہ کرسکے۔پنجاب میں جیلوں کے حوالے سے اقدامات دوسرے صوبوں سے بہتر ہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024