فیصل صالح حیات نے پہلے ق لیگ کے پلیٹ فارم سے بجلی و پانی کے کرپٹ وزیر راجہ پرویز اشرف کے خلاف بیانات دئیے اور پھر سپریم کورٹ میں آواز اٹھائی۔ تو وہ ہمیں اچھا لگا۔ تب مسلم لیگ ن فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی تھی۔ مصنوعی لوڈشیڈنگ راجہ صاحب کی طرف سے رینٹل پاور پلانٹ منگوانے کی ایک چال تھی۔ ہم نے کرائے کے گھر تو سُنے تھے۔ بجلی گھر بھی کرائے پر ہو سکتے ہیں؟ یہ انہونی صرف راجہ پرویز اشرف کی وزارت کا کارنامہ ہی ہو سکتا ہے۔ یہ کرپشن کا ایک طریقہ تھا اس کے بعد وہ مہاراجہ پرویز اشرف بن گئے۔ نوید قمر بھی مہاراجہ بن جائیں گے مگر وہ ابھی راجہ صاحب بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے وزیروں کو لوٹ مار کرنا آتی ہے مگر لوٹ مار کے وہ طریقے نہیں آتے جو انہیں بدنام ہونے سے بچا لیں۔ اس ملک میں کچھ سیاستدانوں اور حکمرانوں نے اتنے ہی کمائے جتنے دوسروں نے کمائے مگر وہ صاف بچ گئے اور دوسروں پر الزام بازی کو اپنی سیاست بنا لیا۔ انعام، الزام اور انتقام ایک ہی سیاسی واردات کے مختلف طریقے ہیں۔ رینٹل پاور پلانٹ کی خریداری سے کمیشن اور کرپشن کا جو معاملہ وابستہ ہے۔ وہ کسی اور طریقے سے نہیں ہو سکتا۔ چین اور ایران کی پیشکش کے باوجود بجلی نہیں لی گئی اور نئے راجہ صاحب یعنی جناب نوید قمر نے بھارت سے بجلی خریدنے کا اعلان کر دیا ہے۔
فیصل صالح حیات نے اس معاملے میں بھی کئی انکشافات کئے ہیں۔ فیصل صاحب نے کابینہ میں شامل ہوتے ہوئے بھی اپنے موقف کو نہیں چھوڑا۔ یہ سیاسی بہادری کی انوکھی مثال ہے۔ کئی لوگ فیصل سے اتنی توقع نہیں رکھتے تھے۔ اس نے کہا کہ وہ اپنے اس اقدام سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے گا۔ فیصل کے دلائل اس قدر مضبوط تھے کہ چیف جسٹس افتخار چودھری نے یہ معاہدے منسوخ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ مگر کئی رینٹل پاور پلانٹ پاکستان آ چکے ہیں لیکن ابھی تک ان سے ایک یونٹ بجلی بھی وصول نہیں ہو سکی۔ مگر کرایہ پورے کا پورا ادا کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ کمیشن متعلقہ فریقین کو مل چکا ہے۔ پہلے ق لیگ کی قیادت نے فیصل صالح حیات کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ ویسے بھی چودھری پرویز الٰہی کئی موقعوں پر فیصل کی تعریف کر چکے ہیں۔ چودھری شجاعت اور مشاہد حسین بھی سپریم کورٹ میں فیصل کے ساتھ کھڑے رہے۔ کیا اب بھی وہ فیصل کی تائید کریں گے؟ اتنا بڑا کام اپنی قیادت کی حمایت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا ق لیگ والے وزیراعظم گیلانی سے بہت تنگ ہیں۔ فیصل نے پیپلز پارٹی سے ٹوٹ کر صدر جنرل مشرف کی حکومت کو بچایا تھا۔ اور کہا تھا کہ مجھے اس معاملے میں بے نظیر بھٹو کی تائید حاصل ہے۔ اس کی تردید بے نظیر بھٹو نے نہیں کی تھی۔ بے نظیر نے اپنی شہادت سے پہلے خود جنرل مشرف کے ساتھ مفاہمت کی تھی۔ اس معاہدے میں جنرل کیانی اور رحمن ملک بھی شریک تھے۔ عین ممکن ہے کہ خود بی بی نے فیصل صالح حیات کو اجازت دی ہو کہ وہ جنرل مشرف کی حمایت کریں۔ مخدوم امین فہیم بھی جنرل مشرف کے ساتھ درپردہ روابط رکھتے تھے۔ انہیں وزیراعظم بھی اسی بنیاد پر نہیں بنایا گیا تھا جبکہ تعلقات تو وزیراعظم گیلانی کے بھی جنرل مشرف کے ساتھ تھے۔ وزیراعظم گیلانی نے حلف بھی صدر مشرف سے لیا تھا۔ دونوں اُس دن بہت خوش تھے۔
فیصل کا یہ فیصلہ ایک بہت بڑی معرکہ آرائی ہے۔ پیپلز پارٹی حکومت کی کابینہ میں وزیر کی حیثیت سے دوسرے وزیر راجہ پرویز اشرف کے خلاف بدستور ڈٹ کر کھڑے رہنا کوئی کم بات نہیں۔ راجہ صاحب سابق ہو کر بھی سابق نہیں۔ نوید قمر ان کی ایکسٹنشن ہیں۔ بھارت سے بجلی خریدنا رینٹل پاور پلانٹ کا سودا کرنے سے کم کرپشن نہیں ہے۔ نوید قمر نے پاکستان دشمنی کا ریکارڈ توڑا ہے۔ وہ مخدوم امین فہیم اور حنا ربانی کھر کے ساتھ مل کر دشمن ملک بھارت کو پسندیدہ ترین ملک بنوا رہا ہے۔ فیصل نے وزیراعظم گیلانی کو خط لکھا ہے۔ اس سے پہلے خط میں وزیراعظم گیلانی کو بجلی کے حوالے سے کرپشن کی نگرانی کرنے سے منع کیا گیا تھا۔ وہ اس بڑی کرپشن میں برابر کے حصے دار ہیں۔ اب نئے خط میں فیصل نے وزیراعظم گیلانی کو لکھا ہے کہ وہ گڈ گورننس کو فروغ دیں۔ فروغ تو اس کو دیا جاتا ہے جو پہلے سے کچھ نہ کچھ ہو وزیراعظم گیلانی نے گڈ گورننس کو بالکل فارغ کر دیا ہے۔ بی بی زندہ ہوتی تو وہ اُسے فارغ گیلانی کا خطاب دیتی۔ یہ تو بیڈ گورننس کا بھی مظاہرہ نہیں ہے۔ گورننس نام کی کوئی چیز وزیراعظم گیلانی کے دور میں نہیں۔ اُسے دور حکومت بھی نہیں کہا جا سکتا۔ حکومت نام کی کوئی چیز وزیراعظم گیلانی کے کسی رویے میں نہیں۔ فیصل کی مسلسل نشاندہی کے باوجود ایک کرپٹ چیف انجینئر کو معطل نہیں کیا۔ وہ وزیراعظم گیلانی کا خاص آدمی ہے۔ اس نے گیلانی صاحب کو مرعوب کرنے کے لئے آصف ہاشمی کو بھی درمیان میں ڈالنے کی کوشش کر رکھی ہے۔
فیصل صالح حیات نے اپنی وزارت کو بھی کرپشن سے بچانے کے لئے کئی اقدام کئے ہیں۔ وہ بجلی کی وزارت کے علاوہ دوسرے محکموں کی طرف بھی توجہ دے اور کرپشن کے جو الزامات وزیراعظم گیلانی کی حکومت اور ان کے گھر والوں پرلگتے رہتے ہیں انہیں سامنے لائے چونکہ وہ خود بھی اس کابینہ کا حصہ ہے لہذا میں اسے اور اس کی جماعت کو اس داغدار سیاست سے بچانے کیلئے یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جب وہ ابھی وزیراعظم گیلانی کی کابینہ میں نہ تھے تو میں اُس کے خلاف بات کرتا رہتا تھا۔ مگر میں اسے مخدوم گیلانی لکھ دیا کرتا تھا۔ فیصل نے میری جرات اظہار کی تعریف کی اور کہا کہ آپ اس شخص کو مخدوم نہ لکھا کریں۔ یہ مخدوم نہیں۔ اور مخدوم کہلانے کا مستحق بھی نہیں۔ تو میں نے اس کے بعد کبھی اسے مخدوم نہیں لکھا۔ مگر فیصل وزیراعظم گیلانی کی کابینہ میں وزیر بن گئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ مخدوم گیلانی کی کابینہ میں نہیں۔ وزیراعظم گیلانی کی کابینہ میں ہے۔ فیصل اب وزیراعظم گیلانی کی کرپشن سے بھی پردہ اٹھائے۔ چیف جسٹس افتخار چودھری نے بھی فیصل صالح حیات سے کہا ہے کہ وہ کابینہ میں بھی کرپشن کے خلاف آواز اٹھائے۔ پیپلز پارٹی کے کسی آدمی نے فیصل کی باتوں کو ایک ڈراﺅنا خواب قرار دیا ہے۔ چیف جسٹس نے حج کرپشن کا حوالہ دیتے ہوئے سابق وزیر حامد سعید کاظمی کا نام تعریفی انداز میں لیا تو جناب چیف جسٹس سے گزارش ہے کہ ان کی ضمانت ہی لے لیں۔ وزیراعظم گیلانی فیصل صالح حیات پر ہاتھ ڈالنے سنے پہلے ہزار بار سوچیں گے۔ حامد سعید کاظمی کو وزیراعظم گیلانی نے اپنے بیٹے ایم پی اے عبدالقادر گیلانی کو بچانے کے لئے پھنسایا ہے۔ کاظمی صاحب نے کہا ہے کہ جب تک گیلانی صاحب وزیراعظم ہیں میں جیل سے باہر نہیں آ سکتا۔ فیصل اب اپنی کہی بات کو قول فیصل بنا کے دکھائے۔!
فیصل صالح حیات نے اس معاملے میں بھی کئی انکشافات کئے ہیں۔ فیصل صاحب نے کابینہ میں شامل ہوتے ہوئے بھی اپنے موقف کو نہیں چھوڑا۔ یہ سیاسی بہادری کی انوکھی مثال ہے۔ کئی لوگ فیصل سے اتنی توقع نہیں رکھتے تھے۔ اس نے کہا کہ وہ اپنے اس اقدام سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے گا۔ فیصل کے دلائل اس قدر مضبوط تھے کہ چیف جسٹس افتخار چودھری نے یہ معاہدے منسوخ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ مگر کئی رینٹل پاور پلانٹ پاکستان آ چکے ہیں لیکن ابھی تک ان سے ایک یونٹ بجلی بھی وصول نہیں ہو سکی۔ مگر کرایہ پورے کا پورا ادا کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ کمیشن متعلقہ فریقین کو مل چکا ہے۔ پہلے ق لیگ کی قیادت نے فیصل صالح حیات کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ ویسے بھی چودھری پرویز الٰہی کئی موقعوں پر فیصل کی تعریف کر چکے ہیں۔ چودھری شجاعت اور مشاہد حسین بھی سپریم کورٹ میں فیصل کے ساتھ کھڑے رہے۔ کیا اب بھی وہ فیصل کی تائید کریں گے؟ اتنا بڑا کام اپنی قیادت کی حمایت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا ق لیگ والے وزیراعظم گیلانی سے بہت تنگ ہیں۔ فیصل نے پیپلز پارٹی سے ٹوٹ کر صدر جنرل مشرف کی حکومت کو بچایا تھا۔ اور کہا تھا کہ مجھے اس معاملے میں بے نظیر بھٹو کی تائید حاصل ہے۔ اس کی تردید بے نظیر بھٹو نے نہیں کی تھی۔ بے نظیر نے اپنی شہادت سے پہلے خود جنرل مشرف کے ساتھ مفاہمت کی تھی۔ اس معاہدے میں جنرل کیانی اور رحمن ملک بھی شریک تھے۔ عین ممکن ہے کہ خود بی بی نے فیصل صالح حیات کو اجازت دی ہو کہ وہ جنرل مشرف کی حمایت کریں۔ مخدوم امین فہیم بھی جنرل مشرف کے ساتھ درپردہ روابط رکھتے تھے۔ انہیں وزیراعظم بھی اسی بنیاد پر نہیں بنایا گیا تھا جبکہ تعلقات تو وزیراعظم گیلانی کے بھی جنرل مشرف کے ساتھ تھے۔ وزیراعظم گیلانی نے حلف بھی صدر مشرف سے لیا تھا۔ دونوں اُس دن بہت خوش تھے۔
فیصل کا یہ فیصلہ ایک بہت بڑی معرکہ آرائی ہے۔ پیپلز پارٹی حکومت کی کابینہ میں وزیر کی حیثیت سے دوسرے وزیر راجہ پرویز اشرف کے خلاف بدستور ڈٹ کر کھڑے رہنا کوئی کم بات نہیں۔ راجہ صاحب سابق ہو کر بھی سابق نہیں۔ نوید قمر ان کی ایکسٹنشن ہیں۔ بھارت سے بجلی خریدنا رینٹل پاور پلانٹ کا سودا کرنے سے کم کرپشن نہیں ہے۔ نوید قمر نے پاکستان دشمنی کا ریکارڈ توڑا ہے۔ وہ مخدوم امین فہیم اور حنا ربانی کھر کے ساتھ مل کر دشمن ملک بھارت کو پسندیدہ ترین ملک بنوا رہا ہے۔ فیصل نے وزیراعظم گیلانی کو خط لکھا ہے۔ اس سے پہلے خط میں وزیراعظم گیلانی کو بجلی کے حوالے سے کرپشن کی نگرانی کرنے سے منع کیا گیا تھا۔ وہ اس بڑی کرپشن میں برابر کے حصے دار ہیں۔ اب نئے خط میں فیصل نے وزیراعظم گیلانی کو لکھا ہے کہ وہ گڈ گورننس کو فروغ دیں۔ فروغ تو اس کو دیا جاتا ہے جو پہلے سے کچھ نہ کچھ ہو وزیراعظم گیلانی نے گڈ گورننس کو بالکل فارغ کر دیا ہے۔ بی بی زندہ ہوتی تو وہ اُسے فارغ گیلانی کا خطاب دیتی۔ یہ تو بیڈ گورننس کا بھی مظاہرہ نہیں ہے۔ گورننس نام کی کوئی چیز وزیراعظم گیلانی کے دور میں نہیں۔ اُسے دور حکومت بھی نہیں کہا جا سکتا۔ حکومت نام کی کوئی چیز وزیراعظم گیلانی کے کسی رویے میں نہیں۔ فیصل کی مسلسل نشاندہی کے باوجود ایک کرپٹ چیف انجینئر کو معطل نہیں کیا۔ وہ وزیراعظم گیلانی کا خاص آدمی ہے۔ اس نے گیلانی صاحب کو مرعوب کرنے کے لئے آصف ہاشمی کو بھی درمیان میں ڈالنے کی کوشش کر رکھی ہے۔
فیصل صالح حیات نے اپنی وزارت کو بھی کرپشن سے بچانے کے لئے کئی اقدام کئے ہیں۔ وہ بجلی کی وزارت کے علاوہ دوسرے محکموں کی طرف بھی توجہ دے اور کرپشن کے جو الزامات وزیراعظم گیلانی کی حکومت اور ان کے گھر والوں پرلگتے رہتے ہیں انہیں سامنے لائے چونکہ وہ خود بھی اس کابینہ کا حصہ ہے لہذا میں اسے اور اس کی جماعت کو اس داغدار سیاست سے بچانے کیلئے یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جب وہ ابھی وزیراعظم گیلانی کی کابینہ میں نہ تھے تو میں اُس کے خلاف بات کرتا رہتا تھا۔ مگر میں اسے مخدوم گیلانی لکھ دیا کرتا تھا۔ فیصل نے میری جرات اظہار کی تعریف کی اور کہا کہ آپ اس شخص کو مخدوم نہ لکھا کریں۔ یہ مخدوم نہیں۔ اور مخدوم کہلانے کا مستحق بھی نہیں۔ تو میں نے اس کے بعد کبھی اسے مخدوم نہیں لکھا۔ مگر فیصل وزیراعظم گیلانی کی کابینہ میں وزیر بن گئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ مخدوم گیلانی کی کابینہ میں نہیں۔ وزیراعظم گیلانی کی کابینہ میں ہے۔ فیصل اب وزیراعظم گیلانی کی کرپشن سے بھی پردہ اٹھائے۔ چیف جسٹس افتخار چودھری نے بھی فیصل صالح حیات سے کہا ہے کہ وہ کابینہ میں بھی کرپشن کے خلاف آواز اٹھائے۔ پیپلز پارٹی کے کسی آدمی نے فیصل کی باتوں کو ایک ڈراﺅنا خواب قرار دیا ہے۔ چیف جسٹس نے حج کرپشن کا حوالہ دیتے ہوئے سابق وزیر حامد سعید کاظمی کا نام تعریفی انداز میں لیا تو جناب چیف جسٹس سے گزارش ہے کہ ان کی ضمانت ہی لے لیں۔ وزیراعظم گیلانی فیصل صالح حیات پر ہاتھ ڈالنے سنے پہلے ہزار بار سوچیں گے۔ حامد سعید کاظمی کو وزیراعظم گیلانی نے اپنے بیٹے ایم پی اے عبدالقادر گیلانی کو بچانے کے لئے پھنسایا ہے۔ کاظمی صاحب نے کہا ہے کہ جب تک گیلانی صاحب وزیراعظم ہیں میں جیل سے باہر نہیں آ سکتا۔ فیصل اب اپنی کہی بات کو قول فیصل بنا کے دکھائے۔!