واقعی لاہور لاہور ہے، اسی لئے یہیں سے ہر قیادت، ہر لیڈر شپ اور ہر جلسے جلوس ریلیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ اتوار کے روز بھی جلسہ ہوا عمران خان کا اس سے پہلے مسلم لیگ ن نے بھاٹی گیٹ میں مجمع لگایا۔ اسی طرح گول باغ میں ابرارالحق نے بھی لوگ اکٹھے کئے۔ پہلے ریلی اور پھر جلسہ، یہ تربیت ہے سیاسی جمگھٹوں کی۔ اتوار کو عمران خان نے بغیر کسی مشینری اور کسی کے تعاون کے ایک ایسا جلسہ منعقد کر دیا کہ شاید وہ خود بھی حیران تھے کیونکہ انہوں نے تو کرسیوں قناتوں تک محدود رہنے کا پروگرام بنایا تھا، بہرحال 15 برس کی محنت رنگ لائی اور زیادہ رنگ تو عوام الناس اور خاص کر نوجوانوں کی اُس ناامیدی نے جما دیا جو انہیں 63 برسوں سے اور بالخصوص عہد حاضر کی حکومت سے ملی۔ پرانے سیاستدان اتنے پرانے ہو گئے ہیں البتہ وہ میک اپ اور گیٹ اپ بدلتے رہے ہیں مگر اپنی چال بے ڈھنگی بدلنے کی کوشش نہ کی کیونکہ اس طرح عوام کا بھلا نہیں ہوتا اور اُن کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ ایک طویل عرصے سے پاکستان نے اتنا بڑا جلسہ نہی دیکھا، مگر تحریک انصاف نے سیاسی شطرنج کے مہرے ہلا کر رکھ دئیے ہیں اور یوں لگا کہ شاید یہاں واقعی کوئی انقلاب آنے والے ہے۔ لاہور کو سردست تو عمران خان نے جیت لیا ہے اور بالخصوص مسلم لیگ نون کے لئے لمحہ فکریہ فراہم کر گیا ہے۔ اب تو ایک ہی راستہ ہے کہ مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف اگر ایک ہو جائیں تو بہت کچھ ہو سکتا ہے کیونکہ دونوں کے منشور لگ بھگ ایک ہیں، اثاثوں کے ظاہر کرنے کے حوالے سے بھی دونوں کا نقطہ نظر ایک ہے لیکن میاں برادران بعض اوقات سیاسی موسم کا لحاظ نہیں کرتے، اس جلسے کا حجم پوری سیاسی دنیا کے لئے حیران کن بلکہ پریشان کن ہے۔ ایک بار تو اس جلسے نے ثابت کر دیا کہ لوگ اب تبدیلی چاہتے ہیں اور پرانے چہرے بدلنا چاہتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ نئی ہَوا جو چلی ہے وہ کیا اثرات مرتب کرتی ہے، ظاہر ہے عمران خان اس کے بعد پورے ملک میں جلسے کریں گے اور لاہور کا جلسہ اُن کے دوسرے جلسوں پر بھی مثبت اثرات ڈالے گا۔ ایک سیاسی پہیلی یہ ہے کہ متحدہ نے صدر گرامی قدر کی بحالی عزت کا اہتمام کیا اور کراچی میں جلسہ کیا جس سے فون پر سربراہ پارٹی الطاف بھائی نے خطاب کیا اور کہا کہ وہ صدر کی بے حرمتی برداشت نہیں کر سکتے۔ متحدہ کی یہ پہیلی خوش رنگ ہے، البتہ زرداری صاحب اس احسان تلے دب گئے ہوں گے، بہرحال جلسے کی حد تک یہ تحریک انصاف کا اجتماع بھٹو، بے نظیر کے جلسوں کو کراس کر گیا اور مسلم لیگ کے ایک معزز رکن تو کرسیوں ہی میں گم ہو گئے، گویا اُن کے نزدیک جمہوریت ایک طرز ہے جس میں کرسیوں کو گنا کرتے ہیں سروں کو نہیں، اب اس معزز رجل رشید کو نون سے یا سینٹ سے استعفی دے کر گھر میں آرام کرنا چاہئے۔ خدا کا شکر ہے کہ ایک تو ایسا لیڈر سامنے آیا کہ جس کا دامن بے داغ اور ہاتھ حکومتی مشینری سے خالی ہیں، اُس کے جلسے میں لوگ آئے لائے نہیں گئے۔ جلسے میں عمران خان نے اذانوں کے وقفے کئے اور نماز بھی پڑھی اور اس جلسے میں سٹرنگز شہزاد رائے، فیصل کمبوڈیا نے قومی ترانے گا کر جوانوں کی دھڑکنیں تیز کر دیں۔ ہجوم اتنا بھاری تھا کہ بعض لوگ بھائی گیٹ میں پھنسے رہے اور جلسہ گاہ تک نہیں پہنچ سکے۔ ایک جلوس تو فیصل آباد سے پیدل چل کر جلسے میں شریک ہوا۔ یہ مثالیں اب کون دہرا سکے گا۔ یہ بھی ایک سیاسی پہیلی ہے جو دونوں بڑی پارٹیوں کے لئے خاص طور پر قابل غور ہیں۔ عمران خان کو چاہئے تھا کہ میاں شہباز شریف کو ڈینگی کے خلاف لڑنے کا طعنہ نہیں، داد دیتے۔ اب میاں صاحبان سے لاہور کھسکتا جا رہا ہے یا تو وہ کچھ اپنی جگہ سے خان صاحب کی طرف کھسکیں، وگرنہ کہیں پنجاب ہی سے کھسک نہ جائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعد میں تجزیہ کاروں نے جو تجزیے پیش کئے ان میں ماسوا چند کے عذر لنگ تھے۔ سنجیدگی سے سوچا جائے تو اس بے سرور سامان لیڈر کے گرد لاکھوں لوگوں کا اکٹھا ہونا 63 سالہ سیاہ ادوار پر سیاہی پھیرنا ہے۔ ملک واقعتاً بجلی سے بتکلف محروم کیا گیا ہے اور ملک کے امیر ہونے اور لوگوں کے غریب ہونے کا تذکرہ بھی خوب تھا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عمران خان نے جو کچھ کہا وہ کر دکھائیں کہ لوہا گرم ہے، اُن کا یہ کہنا کہ اقبال اُن کے نظریاتی اور قائداعظم سیاسی مرشد ہیں، نظریہ پاکستان کے علم کو بلند رکھنے کا کھلا اظہار ہے، یوں لگتا ہے کہ پاکستان کے ناکوں ناک آئے ہوئے لوگوں کو ایک قائد کی ضرورت تھی وہ انہیں مل گیا، اب یہ ان کا فرض ہے کہ بہتری لانے کے لئے غیر آزمودہ کو آزمائیں کیونکہ آزمودہ را آزمودن خطا است، آزمائے ہوے کو آزمانا غلطی ہے، اب کیا ہو گا یہ عوام کے ہاتھ ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں، وگرنہ یہ ہجوم بیکراں بھی کہیں رائیگاں نہ چلا جائے، ویسے تو پرانے بھی اپنے قبلے راست کر سکتے ہیں مگر انہوں نے اپنا اعتبار کھو دیا ہے، اس لئے تحریک انصاف کے قائد ہی ایک ایسی کرن ہے جو آفتاب بنائی جا سکتی ہے مگر اس کا دار و مدار عوام پر ہے، عین امکان ہے کہ یہی ٹمپو پورے ملک میں جاری رہے اور وہ جو یہ کہتے ہیں کہ باتیں ہیں، باتوں کا کیا، حالانکہ لاکھوں انسانوں کو باتیں قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اللہ وہ کرے جس میں اس ملک و قوم کی بہتری ہو۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024