مینار پاکستان پر تحریک انصاف کا شوبھاری بھر کم تھا، جس میں سیاست کے میدان میں نام کمانے والے سیاست دانوں کی بجائے ”شہزاد رائے“ اور ان کے بینڈ کا بھی کافی کمال تھامگر ایک چیز جس نے مجھے چونکا دیا وہ یہ تھی کہ جمعہ کی رات جب میں پاکستان واپس آیا تو لاہور ایئر پورٹ سے لے کر پورے شہر میں ہر کھمبے پر، درخت پر تحریک انصاف کے جلسہ کے فلیکس سائن لٹک رہے تھے ،جگہ جگہ بہت بڑی فلیکس سائنز آویزاں تھیں، بینروں سے پورا شہر دلہن بنا دیا گیا تھا، جگہ جگہ ڈھول ڈھمکے کے ساتھ ویلم کیمپ استقبالیہ کیمپ لگے ہوئے تھے۔ راتوں کو سینکڑوں شہ زور ٹرکوں پر لائٹوں اور قمقموں کی بارش میں روشن فلیکس سائنز شہر کی سڑکوں پر رواں دواں تھے۔ لگ رہا تھا جیسے دنیا کے کسی امیر ترین ملک میں ایک سیاسی پارٹی اپنی الیکشن کمپین کر رہی ہے یا پھر پاکستان جیسے غریب ملک میں تیل نکل آیا ہے اور کوئی عرب شہزادہ جشن منا رہا ہے۔
ہفتہ کے روز مختلف الخیال لوگوں کے ساتھ اس موضوع پر بات چیت ہوتی رہی۔ ہر شخص اس بات پر متفق تھا کہ اب تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ملک کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں نے عوام کو اپنی اپنی باری پر خوب بے وقوف بنایا تھا۔ اب عوام تبدیلی کی ہوا چلتی دیکھنا چاہتے ہیں مگر انہی لوگوں میں سے کچھ یہ بھی سوال کرتے نظر آئے کہ جناب اسقدر بڑی کمپین کے لیے اتنا بھاری بھر کم سرمایہ کہاں سے آیا؟ یہ کمپین لاکھوں میں نہیں کروڑوں روپے لاگت کی نظر آ رہی تھی جبکہ تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان اپنی ”کفایت شعاری“ کی وجہ سے نہ صرف اپنے حلقہ احباب بلکہ ملک بھر میں بھی پہچانے جاتے ہیں اور یار لوگ تو کہتے ہیں کہ جس نے عمران خان سے چائے کی پیالی پی لی ہو سمجھو اس نے امرت دھارا پی لیا ہے۔ یہ حال تحریک انصاف کو حالیہ دنوں جوائن کرنے والے سابق گورنر پنجاب اور میاں برادران کے سابقہ دیرینہ ساتھی میاں اظہر کے متعلق بھی مشہور ہے ان پر بھی یہی مثال لاگو آتی ہے۔جبکہ لاہور کے انجمن تاجران کی ایک بڑی تعداد اب بھی مسلم لیگ ن کی حمایتی ہے۔ ان حالات میں ڈالڑوں کی بارش کہاں سے ہو رہی ہے سمجھ سے بالاتر ہے؟ کچھ لوگ دبے لفظوں میں کہہ رہے تھے کہ یہ سب ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا کمال ہے، کچھ کہہ رہے تھے بھئی پشاور کا دھرنا ہو یا اسلام آباد کی ریلی یا پھر ڈرون حملوں کے خلاف جمائما خان کی کمپین کے دوران بانٹے گئے کروڑوں روپے مالیت کے وہ کیمرے جو ڈرون حملوں کی تصویریں کھینچنے کے لیے جمائما خان ساتھ لائی تھیں۔ یہ سب پیسہ کہاں سے آیا؟ جتنے منہ اتنی باتیں، لاہور کی سڑکوں پر زبان زدعام تھیں۔ اس جلسہ سے چند روز پہلے خادمِ اعلیٰ نے بھی ایک اعلیٰ قسم کی ریلی نکالی تھی جو میاں نوازشریف کی عدم شمولیت کے باوجود ایک بھرپور کاوش تھی مگر رندوں نے پوچھا کہ یہ سب تو ماسٹر اور استانیاں ہیں جو حاضری لگانے آج بھاٹی گیٹ آئے ہیں۔ چلو میاں شہباز شریف کے اس جلسہ پر الزام اپنی جگہ مگر قصہ ہے کہ ناتمام ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ کچھ جیالوں اور متوالوں کا خیال ہے کہ یہودی لابی نے جمائما خان کو مہرہ بنا کر ایک دفعہ پھر عمران خان کے کندھے پر بندوق رکھ دی ہے۔ مختلف قسم کی چہ مگوئیاں لاہور کی مارکیٹ میں دستیاب ہیں مگر ایک چیز کی سمجھ نہیں آ رہی کہ تحریک انصاف پے در پے کھڑاک کے بعد بھی ابھی تک میاں اظہر کے علاوہ کسی بھی مشہور معروف شخصیت کو پیپلزپارٹی یا پھر ن لیگ سے جدائی پر آمادہ نہیں کر سکی؟ ایک جگہ پرانے دوستوں سے بات چیت ہوئی وہ کہہ رہے تھے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ عمران خان کے ساتھ 2002ءکے الیکشن کا ایکشن ری پلے کھیلا جا رہا ہے؟ اسٹیبشلمنٹ نے ایک طرف عمران خان اور دوسری طرف میاں شہبازشریف کو بھی شیروانی سلوانے کا اشارہ دے رکھا ہے؟ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی چالیں کچھ ایسی جاندار ہوتی ہیں کہ بڑے بڑے پارسا مہ خانوں میں مدہوش پڑے نظر آتے ہیں۔ جبکہ ایک جگہ کچھ جیالوں سے مڈھ بھیڑ ہو گئی جن کا نقطہ نظر بالکل مختلف تھا وہ کہہ رہے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ اب ایک تیر سے تین شکار کرے گی؟ مسلم لیگ ن کو تحریک انصاف کے ہاتھوں ادھ موا کروا کر پیپلزپارٹی شاید اپنی جیت تصور کر رہی ہے جبکہ اگر اس سارے ڈرامے میں اگر عمران خان کو کُھل کر کھیلنے کا موقع دیا گیا تو وہ ”اچانک لیڈر“ بھی بن سکتے ہیں؟ جو کہ مستقبل میں پیپلزپارٹی کے لیے خطرے کی گھنٹی سے کم نہ ہوگا۔ ایک دفعہ پیپلزپارٹی نے اپنی حکومت کے دوران میاں نوازشریف فیملی کی ریلولے کارگو کی بوگیاں روک کر میاں نوازشریف کو لیڈر بنا دیا تھا۔ اب عمران خان کے لیے راستہ ہموار کرکے ن لیگ کو سبق سیکھانے کے چکر میں کہیں عمران خان کو کھڑا ہونے کی جگہ مل گئی تو بیٹھنے کو جگہ نہ بھی ملی تو وہ لیٹ ضرور جائے گا مگر کچھ حقیقت پسند احباب کو یہ گفتگو بھی کرتے سنا گیا کہ کہیں ایسا تو نہیں اسٹیبلشمنٹ مختلف سیاسی دھڑوں کو آپس میں لڑا کر ان کا زور دیکھ اور توڑ رہی ہے تاکہ بوقت ضرورت ان کا ”ڈنک“ نکالا جا سکے اور پھر الیکشن ابھی دور تک ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے وہ چاہے آنے والے جنرل الیکشن ہوں یا پھرمارچ 2012ءکے سینٹ الیکشن ہوں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ تمام مہروں کو استعمال کرکے خراب ملکی حالات ،نقص امن و امان، ملکی سلامتی اور استحکام کو بہانہ بنا کر ایک دفعہ پھروہی کھیل کھیلنے جا رہی ہے جس کو کھیلنے کے لیے آرٹیکل 6جیسی چیزیں کبھی بھی راستے میں حائل ہوئی ہیں نہ ہو سکیں گی۔ پاکستان کے عوام کی یادداشت اگر کمزور نہیں ہے تو انہیںیاد ہوگا ہر دفعہ ”میرے پیارے ہموطنو“ کہنے سے پہلے کچھ ایسے ہی اندرونی حالات پیدا کر لیے جاتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے کبھی کرپشن کو جمہوریت کہتے ہیں ،کبھی اقرباپروری کو انصاف قرار دیتے ہیں۔ ملکی استحکام کا ڈھانچہ اتنے شدید خطرات کا شکار کبھی تھانہ کبھی ہوگا۔ اس وقت یہودی اور بھارتی لابیوں نے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے اپنے خزانے کے منہ کھول دیئے ہیں اور اس وقت ہمارے دانشور،ہمارے اینکر پرسن ، ہمارے رائٹر، ہمارے سیاست دان ، ہمارے پالیسی ساز سب اپنا اپنا حصہ اس بہتی گنگا سے وصول کر رہے ہیں مگر جب تک ان کو احساس ہوگا کہ وہ کن ہاتھوں میں کھیل رہے تھے تب تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ کیا ہم نے یہود و ہنود لابی کو پاکستان میں کھیلنے کے لیے پچ فراہم نہیں کر دی؟ یاد رکھیئے اگر ہم اپنی تماشائی کیفیت سے باہر نہ نکلے تو ہمارا دشمن ہمیں ہماری صفوں میں گھس کر نشانِ عبرت بنا دے گا۔ آخر کسی کو تو ہزاروں امریکی و نیٹو فوجیوں کی ہلاکتوں کا حساب دینا ہوگا؟ اور پھر ایک مضبوط پاکستان کی موجودگی میں بھارت کو خطے کا چیمپئن کس طرح بنایا جا سکتا ہے؟ یہودیوں کی ان سازشوں کا پردہ چاک کرنا شاید میاں شہباز شریف صاحب اپنے خطاب میں بھول گئے ہیں کہ وہ تیسری قوت کون سی ہے جو یہ پیسہ لگا رہی ہے؟
میں قارئین ”نوائے وقت “کو یہ بتاتا چلوں کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ غیرمتوقع لوگوں کو اچانک کیئر ٹیکر وزیراعظم بنایا جن میں غلام مصطفی جتوئی، بلخ شیرمزاری، ملک معراج خالد، معین قریشی، محمد میاں سومروجیسے لوگ شامل ہیں۔اگر اسٹیبلشمنٹ کا ارادہ عمران خان کو کسی بھی طرز کا وزیراعظم بنانا مقصود ہوتا تو وہ فائنل کارڈ کو ”کوارٹر فائنل“ میں نہ شو کراتے؟میں تو اس پر ابھی یہی کہہ سکتا ہوں :
کل رات چودہویں کا چاند تھا شب بھر رہا چرچا تیرا۔۔۔۔ کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ تیرا
ہم بھی وہاں موجود تھے ہم سے بھی پوچھا کہ یہ ۔۔۔۔ ہم ہنس دیکھئے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ تیرا
ہفتہ کے روز مختلف الخیال لوگوں کے ساتھ اس موضوع پر بات چیت ہوتی رہی۔ ہر شخص اس بات پر متفق تھا کہ اب تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ملک کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں نے عوام کو اپنی اپنی باری پر خوب بے وقوف بنایا تھا۔ اب عوام تبدیلی کی ہوا چلتی دیکھنا چاہتے ہیں مگر انہی لوگوں میں سے کچھ یہ بھی سوال کرتے نظر آئے کہ جناب اسقدر بڑی کمپین کے لیے اتنا بھاری بھر کم سرمایہ کہاں سے آیا؟ یہ کمپین لاکھوں میں نہیں کروڑوں روپے لاگت کی نظر آ رہی تھی جبکہ تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان اپنی ”کفایت شعاری“ کی وجہ سے نہ صرف اپنے حلقہ احباب بلکہ ملک بھر میں بھی پہچانے جاتے ہیں اور یار لوگ تو کہتے ہیں کہ جس نے عمران خان سے چائے کی پیالی پی لی ہو سمجھو اس نے امرت دھارا پی لیا ہے۔ یہ حال تحریک انصاف کو حالیہ دنوں جوائن کرنے والے سابق گورنر پنجاب اور میاں برادران کے سابقہ دیرینہ ساتھی میاں اظہر کے متعلق بھی مشہور ہے ان پر بھی یہی مثال لاگو آتی ہے۔جبکہ لاہور کے انجمن تاجران کی ایک بڑی تعداد اب بھی مسلم لیگ ن کی حمایتی ہے۔ ان حالات میں ڈالڑوں کی بارش کہاں سے ہو رہی ہے سمجھ سے بالاتر ہے؟ کچھ لوگ دبے لفظوں میں کہہ رہے تھے کہ یہ سب ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا کمال ہے، کچھ کہہ رہے تھے بھئی پشاور کا دھرنا ہو یا اسلام آباد کی ریلی یا پھر ڈرون حملوں کے خلاف جمائما خان کی کمپین کے دوران بانٹے گئے کروڑوں روپے مالیت کے وہ کیمرے جو ڈرون حملوں کی تصویریں کھینچنے کے لیے جمائما خان ساتھ لائی تھیں۔ یہ سب پیسہ کہاں سے آیا؟ جتنے منہ اتنی باتیں، لاہور کی سڑکوں پر زبان زدعام تھیں۔ اس جلسہ سے چند روز پہلے خادمِ اعلیٰ نے بھی ایک اعلیٰ قسم کی ریلی نکالی تھی جو میاں نوازشریف کی عدم شمولیت کے باوجود ایک بھرپور کاوش تھی مگر رندوں نے پوچھا کہ یہ سب تو ماسٹر اور استانیاں ہیں جو حاضری لگانے آج بھاٹی گیٹ آئے ہیں۔ چلو میاں شہباز شریف کے اس جلسہ پر الزام اپنی جگہ مگر قصہ ہے کہ ناتمام ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ کچھ جیالوں اور متوالوں کا خیال ہے کہ یہودی لابی نے جمائما خان کو مہرہ بنا کر ایک دفعہ پھر عمران خان کے کندھے پر بندوق رکھ دی ہے۔ مختلف قسم کی چہ مگوئیاں لاہور کی مارکیٹ میں دستیاب ہیں مگر ایک چیز کی سمجھ نہیں آ رہی کہ تحریک انصاف پے در پے کھڑاک کے بعد بھی ابھی تک میاں اظہر کے علاوہ کسی بھی مشہور معروف شخصیت کو پیپلزپارٹی یا پھر ن لیگ سے جدائی پر آمادہ نہیں کر سکی؟ ایک جگہ پرانے دوستوں سے بات چیت ہوئی وہ کہہ رہے تھے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ عمران خان کے ساتھ 2002ءکے الیکشن کا ایکشن ری پلے کھیلا جا رہا ہے؟ اسٹیبشلمنٹ نے ایک طرف عمران خان اور دوسری طرف میاں شہبازشریف کو بھی شیروانی سلوانے کا اشارہ دے رکھا ہے؟ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی چالیں کچھ ایسی جاندار ہوتی ہیں کہ بڑے بڑے پارسا مہ خانوں میں مدہوش پڑے نظر آتے ہیں۔ جبکہ ایک جگہ کچھ جیالوں سے مڈھ بھیڑ ہو گئی جن کا نقطہ نظر بالکل مختلف تھا وہ کہہ رہے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ اب ایک تیر سے تین شکار کرے گی؟ مسلم لیگ ن کو تحریک انصاف کے ہاتھوں ادھ موا کروا کر پیپلزپارٹی شاید اپنی جیت تصور کر رہی ہے جبکہ اگر اس سارے ڈرامے میں اگر عمران خان کو کُھل کر کھیلنے کا موقع دیا گیا تو وہ ”اچانک لیڈر“ بھی بن سکتے ہیں؟ جو کہ مستقبل میں پیپلزپارٹی کے لیے خطرے کی گھنٹی سے کم نہ ہوگا۔ ایک دفعہ پیپلزپارٹی نے اپنی حکومت کے دوران میاں نوازشریف فیملی کی ریلولے کارگو کی بوگیاں روک کر میاں نوازشریف کو لیڈر بنا دیا تھا۔ اب عمران خان کے لیے راستہ ہموار کرکے ن لیگ کو سبق سیکھانے کے چکر میں کہیں عمران خان کو کھڑا ہونے کی جگہ مل گئی تو بیٹھنے کو جگہ نہ بھی ملی تو وہ لیٹ ضرور جائے گا مگر کچھ حقیقت پسند احباب کو یہ گفتگو بھی کرتے سنا گیا کہ کہیں ایسا تو نہیں اسٹیبلشمنٹ مختلف سیاسی دھڑوں کو آپس میں لڑا کر ان کا زور دیکھ اور توڑ رہی ہے تاکہ بوقت ضرورت ان کا ”ڈنک“ نکالا جا سکے اور پھر الیکشن ابھی دور تک ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے وہ چاہے آنے والے جنرل الیکشن ہوں یا پھرمارچ 2012ءکے سینٹ الیکشن ہوں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ تمام مہروں کو استعمال کرکے خراب ملکی حالات ،نقص امن و امان، ملکی سلامتی اور استحکام کو بہانہ بنا کر ایک دفعہ پھروہی کھیل کھیلنے جا رہی ہے جس کو کھیلنے کے لیے آرٹیکل 6جیسی چیزیں کبھی بھی راستے میں حائل ہوئی ہیں نہ ہو سکیں گی۔ پاکستان کے عوام کی یادداشت اگر کمزور نہیں ہے تو انہیںیاد ہوگا ہر دفعہ ”میرے پیارے ہموطنو“ کہنے سے پہلے کچھ ایسے ہی اندرونی حالات پیدا کر لیے جاتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے کبھی کرپشن کو جمہوریت کہتے ہیں ،کبھی اقرباپروری کو انصاف قرار دیتے ہیں۔ ملکی استحکام کا ڈھانچہ اتنے شدید خطرات کا شکار کبھی تھانہ کبھی ہوگا۔ اس وقت یہودی اور بھارتی لابیوں نے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے اپنے خزانے کے منہ کھول دیئے ہیں اور اس وقت ہمارے دانشور،ہمارے اینکر پرسن ، ہمارے رائٹر، ہمارے سیاست دان ، ہمارے پالیسی ساز سب اپنا اپنا حصہ اس بہتی گنگا سے وصول کر رہے ہیں مگر جب تک ان کو احساس ہوگا کہ وہ کن ہاتھوں میں کھیل رہے تھے تب تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ کیا ہم نے یہود و ہنود لابی کو پاکستان میں کھیلنے کے لیے پچ فراہم نہیں کر دی؟ یاد رکھیئے اگر ہم اپنی تماشائی کیفیت سے باہر نہ نکلے تو ہمارا دشمن ہمیں ہماری صفوں میں گھس کر نشانِ عبرت بنا دے گا۔ آخر کسی کو تو ہزاروں امریکی و نیٹو فوجیوں کی ہلاکتوں کا حساب دینا ہوگا؟ اور پھر ایک مضبوط پاکستان کی موجودگی میں بھارت کو خطے کا چیمپئن کس طرح بنایا جا سکتا ہے؟ یہودیوں کی ان سازشوں کا پردہ چاک کرنا شاید میاں شہباز شریف صاحب اپنے خطاب میں بھول گئے ہیں کہ وہ تیسری قوت کون سی ہے جو یہ پیسہ لگا رہی ہے؟
میں قارئین ”نوائے وقت “کو یہ بتاتا چلوں کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ غیرمتوقع لوگوں کو اچانک کیئر ٹیکر وزیراعظم بنایا جن میں غلام مصطفی جتوئی، بلخ شیرمزاری، ملک معراج خالد، معین قریشی، محمد میاں سومروجیسے لوگ شامل ہیں۔اگر اسٹیبلشمنٹ کا ارادہ عمران خان کو کسی بھی طرز کا وزیراعظم بنانا مقصود ہوتا تو وہ فائنل کارڈ کو ”کوارٹر فائنل“ میں نہ شو کراتے؟میں تو اس پر ابھی یہی کہہ سکتا ہوں :
کل رات چودہویں کا چاند تھا شب بھر رہا چرچا تیرا۔۔۔۔ کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ تیرا
ہم بھی وہاں موجود تھے ہم سے بھی پوچھا کہ یہ ۔۔۔۔ ہم ہنس دیکھئے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ تیرا