خواجہ ثاقب غفور ۔۔
انسانی حقوق کے ایک معتبر ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2011ءکے دس مہینوں میں 1600 افراد نے غربت، بے روزگاری، تنگدستی اور گھریلو مسائل کی وجہ سے خودکشیاں کر لیں!! ہم پاکستانیوں کےلئے یہ شرم کا مقام ہونا چاہئے خصوصاً وفاقی حکومت اور اُس کے اتحادیوں کےلئے! مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ اس کی بڑی ذمہ داری پیپلزپارٹی اور اتحادی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔ جس نے 2008ءسے لے کر آج تک غریب عوام کو زندہ درگو کر دیا۔ مہنگائی میں 60 فیصد سے زائد اضافہ ہوا، بجلی کے نرخ تقریباً 80 فیصد بڑھے، پٹرول کے نرخ بھی تقریباً 85 فیصد سے زیادہ بڑھا دیئے گئے۔ قدرتی گیس کے ریٹ بھی بڑھا دیئے گئے۔ نئے بالواسطہ ٹیکس نافذ کئے گئے اور ابھی مزید نافذ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ واپڈا، پیپکو نے ہر تین ماہ بعد مختلف پالیسی تبدیلیوں کے تحت ہر بل میں سینکڑوں بقایاجات ڈال کر اربوں روپے کمائے۔ بجلی کے نئے نرخوں میں اضافہ سابقہ 2 یا 3 ماہ سے نافذ کیاگیا یہ وطیرہ آج بھی جاری ہے۔ روزگار کے مواقع بھی کم سے کم کرنے کی ذمہ دار پیپلزپارٹی کی حکومت ہے جس نے بجلی کی کمی ختم کرنے میں تقریباً 4 سالوں میں ٹھوس اقدامات نہیں اُٹھائے جس کا نتیجہ فیصل آباد، کراچی، سیالکوٹ، فیصل آباد، ملتان میں قائم ہزاروں مل مزدوروں کی بے روزگاری کی شکل میں نکلا۔ میرٹ کے خلاف سیاسی بنیادوں پر اقرباءپروری کے تحت ہزاروں عازمین ملازمین وفاقی و صوبائی سطح پر بھرتی کئے جس سے حقدار کی حق تلفی ہوئی اور نوجوانوں میں مایوسی بڑھی۔ میرٹ کے ”قتل“ نے پڑھے لکھے طبقے کو ذہنی و نفسیاتی مریض بنا دیا۔ حکومت نے اربوں روپے کی کرپشن چھپانے کےلئے نااہل، غیرٹیکنیکل افراد کو بِڑے اداروں کا سربراہ بنایا۔ مثلاً سٹیل مل، پی آئی اے، ریلوے، احتساب بیورو وغیرہ ہر سال تقریباً 700 ارب روپے کی لوٹ مار، ان اداروں اور ایف بی آر F.B.R میں ہوتی ہے، نتیجہ ادارے مفلوج، عوام رسوا، مسائل اندوہناک، غریب عوام غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیئے گئے یہ تعداد تین سالوں میں کروڑوں میں بڑھی۔ گھر کا بجٹ تہس نہس، کاروباری مواقع و ترقی ختم، گھر کیسے چلایا جائے؟ چولہا کیسے جلے؟ روٹی، دوائی، بل کےلئے کہاں سے رقم آئے، مہنگائی 50 فیصد بڑھی تو 10 تا 15 فیصد۔ اضافہ تنخواہوں میں کر دیا باقی کروڑوں عوام جائیں جہنم میں!! صرف سرکاری ملازمین ہی عوام ہوتے ہیں (چند لاکھ) چھوٹی سی تندوری روٹی 4 روپے کی!! شرم نہیں آتی حکمرانوں کو! نان 6 تا 7 روپے، دودھ 60 روپے کلو یا زائد (کراچی)! دالیں 76 روپے تا 145 روپے کلو، چینی 72 روپے، سبزیاں 50 سے 80 روپے کلو؟ گھی 160 روپے! غریب بچوں کو کیسے پالے، کھلائے، پڑھائے؟ سارے سال کا سر درد کروڑوں غریب اور متوسط طبقے کےلئے .... حلال کمائی سے گھر کا نظام نہیں چلتا؟ گھر کا سربراہ قرضوں،حرام پر مجبور! حکومت عوام کی پیٹھ پر مہنگائی کے کوڑے برسانے والے اقدامات میں مصروف؟ عوام دشمن جمہوریت جو ”غریب مکاﺅ“ پروگرام پر عمل پیرا، حکمرانوں کا ماٹو ”بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست“! کروڑوں اربوں روپے مبینہ کرپشن کے ذریعے حاصل کرو .... کہ شائد یہ اقتدار پھر نہ ملے، کروڑوں اربوں روپے نہ ہوں تو دنیا میں اقتدار کا فائدہ؟ نہ دنیا میں دوبارہ آنا ہے اس لئے غریب عوام خودکشیاں کرتے رہیں وہ اپنی ”عادت“ نہیں چھوڑیں گے!! خودکشیاں کرتے عوام میں سے اگر کسی خصوصی کیس کو قومی میڈیا بہت اُچھال دے تو چند لاکھ دے کر ”مٹی پاﺅ“! کا حکومتی مداوا ہو جاتا! لیکن خودکشی کرنے والے غریب کا خاندان، خاوند یا بیوی بچے؟ بوڑھے والدین کا 40-30 سال کا دنیاوی سہارا؟؟ وہ نقصان کیسے پورا ہوگا؟ تازہ واقعہ پیپلزپارٹی کی حکومت کے منہ پر کالک مل گیا، سندھی بے روزوگار راجہ رند نے پارلیمنٹ کے سامنے خودکشی کر لی۔ نہ کوئی ایم این اے آگے آیا نہ وزیر نہ مشیر! اور پولیس نااہل، نکمی، غیرذمہ دار، بے حس جو جوان لڑکے کو تیل چھڑک کر آگ لگانے سے نہ روک سکی! غریب کے ووٹ لے کر جھنڈے لگانے والے کسی وزیر، مشیر نہ غریب عوام کے دکھ جاننے کےلئے تین منٹ گاڑی روک کر ”سنجیدہ کیس“ سننے کو اہمیت نہ دی! لیکن یہ ناحق خون جو ہماری حکومت اور معاشرے کےلئے ڈوبنے کا مقام ہے آخر رنگ لائے گا .... عوام کے اندر کھولتا لاوا، آخر پھٹے گا! پھر وہ حکمران جو آج عوام کو قبر تک پہنچانے کےلئے ”اقدامات“ کر رہے ہیں ان سے زندگی کی بھیک مانگتے نظر آئیں گے!! میاں شہباز شریف نے لاہور میں وفاقی حکومت کے خلاف طبلِ جنگ بجا دیا ہے یہ بھی لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن کے خلاف عوامی ردعمل کی تحریک ہے اِس کا نتیجہ بھی وفاقی حکومت کےلئے تباہ کن ہوگا!خودکشیاں کرنے کی طرف دھکیلے جانے والے عوام کو کچھ جینے کا سامان و موقع مہیا کرنے کےلئے زرداری، گیلانی حکومت کو نئے ٹیکس، بجلی پٹرول گیس کے نرخ کنٹرول میں رکھنا ہوں گے اگر اِن سہولتوں کے نرخوں میں 12 تا 15 فیصد اضافہ وفاقی حکومت نے کرنے کی حتمی منظوری دے دی تو وہ خود اپنے پاﺅں پر کلہاڑی مارے گی۔ تحریک انصاف کے عمران خان اور جماعتِ اسلامی بھی سیاسی میدان میں حکومت مخالف ریلیوں کےلئے میدان میں نکل آئیں گے۔ بڑی ریلیاں اور جلوس حکومتی ایوان کے درودیوار ہلا سکتے ہیں! خودکُشیاں کرنے پر مجبور عوام اور زندگی کی خوشیوں سے محروم عوام ووٹ کی طاقت سے بھی اقتدار سے اُٹھا کر باہر پھینک سکتے ہیں! حکمران اونٹ کی کمر پر آخری ”تنکا“ رکھنے سے گریز کریں۔ نتیجہ صاف نظر آرہا ہے!!
انسانی حقوق کے ایک معتبر ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2011ءکے دس مہینوں میں 1600 افراد نے غربت، بے روزگاری، تنگدستی اور گھریلو مسائل کی وجہ سے خودکشیاں کر لیں!! ہم پاکستانیوں کےلئے یہ شرم کا مقام ہونا چاہئے خصوصاً وفاقی حکومت اور اُس کے اتحادیوں کےلئے! مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ اس کی بڑی ذمہ داری پیپلزپارٹی اور اتحادی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔ جس نے 2008ءسے لے کر آج تک غریب عوام کو زندہ درگو کر دیا۔ مہنگائی میں 60 فیصد سے زائد اضافہ ہوا، بجلی کے نرخ تقریباً 80 فیصد بڑھے، پٹرول کے نرخ بھی تقریباً 85 فیصد سے زیادہ بڑھا دیئے گئے۔ قدرتی گیس کے ریٹ بھی بڑھا دیئے گئے۔ نئے بالواسطہ ٹیکس نافذ کئے گئے اور ابھی مزید نافذ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ واپڈا، پیپکو نے ہر تین ماہ بعد مختلف پالیسی تبدیلیوں کے تحت ہر بل میں سینکڑوں بقایاجات ڈال کر اربوں روپے کمائے۔ بجلی کے نئے نرخوں میں اضافہ سابقہ 2 یا 3 ماہ سے نافذ کیاگیا یہ وطیرہ آج بھی جاری ہے۔ روزگار کے مواقع بھی کم سے کم کرنے کی ذمہ دار پیپلزپارٹی کی حکومت ہے جس نے بجلی کی کمی ختم کرنے میں تقریباً 4 سالوں میں ٹھوس اقدامات نہیں اُٹھائے جس کا نتیجہ فیصل آباد، کراچی، سیالکوٹ، فیصل آباد، ملتان میں قائم ہزاروں مل مزدوروں کی بے روزگاری کی شکل میں نکلا۔ میرٹ کے خلاف سیاسی بنیادوں پر اقرباءپروری کے تحت ہزاروں عازمین ملازمین وفاقی و صوبائی سطح پر بھرتی کئے جس سے حقدار کی حق تلفی ہوئی اور نوجوانوں میں مایوسی بڑھی۔ میرٹ کے ”قتل“ نے پڑھے لکھے طبقے کو ذہنی و نفسیاتی مریض بنا دیا۔ حکومت نے اربوں روپے کی کرپشن چھپانے کےلئے نااہل، غیرٹیکنیکل افراد کو بِڑے اداروں کا سربراہ بنایا۔ مثلاً سٹیل مل، پی آئی اے، ریلوے، احتساب بیورو وغیرہ ہر سال تقریباً 700 ارب روپے کی لوٹ مار، ان اداروں اور ایف بی آر F.B.R میں ہوتی ہے، نتیجہ ادارے مفلوج، عوام رسوا، مسائل اندوہناک، غریب عوام غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیئے گئے یہ تعداد تین سالوں میں کروڑوں میں بڑھی۔ گھر کا بجٹ تہس نہس، کاروباری مواقع و ترقی ختم، گھر کیسے چلایا جائے؟ چولہا کیسے جلے؟ روٹی، دوائی، بل کےلئے کہاں سے رقم آئے، مہنگائی 50 فیصد بڑھی تو 10 تا 15 فیصد۔ اضافہ تنخواہوں میں کر دیا باقی کروڑوں عوام جائیں جہنم میں!! صرف سرکاری ملازمین ہی عوام ہوتے ہیں (چند لاکھ) چھوٹی سی تندوری روٹی 4 روپے کی!! شرم نہیں آتی حکمرانوں کو! نان 6 تا 7 روپے، دودھ 60 روپے کلو یا زائد (کراچی)! دالیں 76 روپے تا 145 روپے کلو، چینی 72 روپے، سبزیاں 50 سے 80 روپے کلو؟ گھی 160 روپے! غریب بچوں کو کیسے پالے، کھلائے، پڑھائے؟ سارے سال کا سر درد کروڑوں غریب اور متوسط طبقے کےلئے .... حلال کمائی سے گھر کا نظام نہیں چلتا؟ گھر کا سربراہ قرضوں،حرام پر مجبور! حکومت عوام کی پیٹھ پر مہنگائی کے کوڑے برسانے والے اقدامات میں مصروف؟ عوام دشمن جمہوریت جو ”غریب مکاﺅ“ پروگرام پر عمل پیرا، حکمرانوں کا ماٹو ”بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست“! کروڑوں اربوں روپے مبینہ کرپشن کے ذریعے حاصل کرو .... کہ شائد یہ اقتدار پھر نہ ملے، کروڑوں اربوں روپے نہ ہوں تو دنیا میں اقتدار کا فائدہ؟ نہ دنیا میں دوبارہ آنا ہے اس لئے غریب عوام خودکشیاں کرتے رہیں وہ اپنی ”عادت“ نہیں چھوڑیں گے!! خودکشیاں کرتے عوام میں سے اگر کسی خصوصی کیس کو قومی میڈیا بہت اُچھال دے تو چند لاکھ دے کر ”مٹی پاﺅ“! کا حکومتی مداوا ہو جاتا! لیکن خودکشی کرنے والے غریب کا خاندان، خاوند یا بیوی بچے؟ بوڑھے والدین کا 40-30 سال کا دنیاوی سہارا؟؟ وہ نقصان کیسے پورا ہوگا؟ تازہ واقعہ پیپلزپارٹی کی حکومت کے منہ پر کالک مل گیا، سندھی بے روزوگار راجہ رند نے پارلیمنٹ کے سامنے خودکشی کر لی۔ نہ کوئی ایم این اے آگے آیا نہ وزیر نہ مشیر! اور پولیس نااہل، نکمی، غیرذمہ دار، بے حس جو جوان لڑکے کو تیل چھڑک کر آگ لگانے سے نہ روک سکی! غریب کے ووٹ لے کر جھنڈے لگانے والے کسی وزیر، مشیر نہ غریب عوام کے دکھ جاننے کےلئے تین منٹ گاڑی روک کر ”سنجیدہ کیس“ سننے کو اہمیت نہ دی! لیکن یہ ناحق خون جو ہماری حکومت اور معاشرے کےلئے ڈوبنے کا مقام ہے آخر رنگ لائے گا .... عوام کے اندر کھولتا لاوا، آخر پھٹے گا! پھر وہ حکمران جو آج عوام کو قبر تک پہنچانے کےلئے ”اقدامات“ کر رہے ہیں ان سے زندگی کی بھیک مانگتے نظر آئیں گے!! میاں شہباز شریف نے لاہور میں وفاقی حکومت کے خلاف طبلِ جنگ بجا دیا ہے یہ بھی لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن کے خلاف عوامی ردعمل کی تحریک ہے اِس کا نتیجہ بھی وفاقی حکومت کےلئے تباہ کن ہوگا!خودکشیاں کرنے کی طرف دھکیلے جانے والے عوام کو کچھ جینے کا سامان و موقع مہیا کرنے کےلئے زرداری، گیلانی حکومت کو نئے ٹیکس، بجلی پٹرول گیس کے نرخ کنٹرول میں رکھنا ہوں گے اگر اِن سہولتوں کے نرخوں میں 12 تا 15 فیصد اضافہ وفاقی حکومت نے کرنے کی حتمی منظوری دے دی تو وہ خود اپنے پاﺅں پر کلہاڑی مارے گی۔ تحریک انصاف کے عمران خان اور جماعتِ اسلامی بھی سیاسی میدان میں حکومت مخالف ریلیوں کےلئے میدان میں نکل آئیں گے۔ بڑی ریلیاں اور جلوس حکومتی ایوان کے درودیوار ہلا سکتے ہیں! خودکُشیاں کرنے پر مجبور عوام اور زندگی کی خوشیوں سے محروم عوام ووٹ کی طاقت سے بھی اقتدار سے اُٹھا کر باہر پھینک سکتے ہیں! حکمران اونٹ کی کمر پر آخری ”تنکا“ رکھنے سے گریز کریں۔ نتیجہ صاف نظر آرہا ہے!!