ملک حبیب اللہ بھٹہ (بہاولپور)
malikhabibullahbhutta@gmail.com
آجکل امریکہ اور یورپ میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں ۔دراصل پیپر کرنسی کا گرتے رہنا ہی اسکا مقدر ہے۔یہ تو گھاس پھونس اورمٹی کے مقابلے میں بھی گر رہی ہے۔حصص کی خرید و فروخت اور پیپر کرنسی کی گراوٹ سے یہودی دنیا کی معیشت کنٹرول کررہے ہیں۔اس نظام معیشت نے امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر بنا دیا ہے۔دنیا کی اکثریت کو مہنگائی کے ذریعے کنگال کردیا گیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام جو در حقیقت یہودی نظام معیشت ہے کےخلاف مظاہرین کا وال سٹریٹ پر قبضے کرنے کی کوشش ثابت کررہی ہے کہ یہودی نظام معیشت دم توڑ رہا ہے۔دنیا کسی ایسے نظام معیشت کی متلاشی ہے جس میں مزدور کو مزدور کا جائز حق اسکے پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا ہو‘ خاندان کی رہائش اورخوراک کے علاوہ اسکے بچوں کی تعلیم اور صحت کے اخراجات باآسانی پورے ہو سکیں ،تاجر اور صنعت کارصرف جائز منافع کو اپناحق سمجھیں۔ ڈالر بظاہر امریکن کرنسی ہے لیکن اسکا کنٹرول یہودیوں کے پاس ہے ۔چاہے کوئی امپورٹ کرے یا ایکسپورٹ ڈیل اسوقت تک مکمل نہیں ہو پاتی جب تک بینک آف امریکہ اپنا کمیشن دونوں پارٹیوں سے وصول نہیں کر لیتا۔ڈالر سے جان چھڑانے کیلئے 1998ءمیں یوروپین کامن مارکیٹ کا تصور یورپ میں آچکا تھا۔یورو کو بطور یوروپین کرنسی لانے کا فیصلہ بھی ہو چکا تھا۔ جہاں تک اشیاءکی قیمتوں میں استحکام کا تعلق ہے وہ صرف سونے کی کرنسی ہی پیدا کر سکتی ہے کیونکہ یہ اشیاءکے مقابلے میں گر نہیں سکتی ۔یہودی معیشت کی سازشوں کو صرف سونے کی کرنسی ہی روک سکتی ہے ۔
سونے کی کرنسی کے اجرا سے سب سے زیادہ مسلمانوں کا فائدہ ہوگا انکے عیاش اور کرپٹ حکمران نوٹ چھاپنے کی پوزیشن میں نہیں رہینگے انہیں ملکی وسائل پر انحصار کرنا پڑیگا۔چالیس فیصد دنیا کے وسائل مسلمان ممالک کے پاس ہیں۔ تجارت کے ذریعے مسلمان ممالک دنیا کے چالیس فیصد سونے کے مالک بن سکتے ہیں۔صرف تیل کی تجارت سے باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ملائشیا کے سابق وزیر اعظم نے 2003ءمیں بطور وزیراعظم اپنی آخری تقریر میں او ائی سی کو خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ پیپر کرنسی کے بجائے سونے کی کرنسی ہونی چاہیے انہوں نے یہودیوں پر وہی الزامات لگائے جو میں نے اپنے ایک کالم کے ذریعے لگائے تھے۔اسپر صدر امریکہ جارج بش نے ملائشیا کے وزیر اعظم سے ناراضگی کا اظہار کیاتھا۔اس سے پہلے حصص بازار میںخریدوفروخت اور پیپر کرنسی کی گراوٹ سے جاپان ، کوریا ، ملائشیا اور انڈونیشیا کی حصص مارکیٹس کریش کرانے پر مہاتیر محمد نے جاپانی وزیر اعظم سے اپنا مرکزی کردار ادا کرنے کی استدعا بھی کی تھی۔
جنگ عظیم دوئم کے خاتمے پر جب ایک ایک کر کے محکوم ممالک انگریز کے تسلط سے آزاد ہوگئے تو امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک نے آزاد ہونے والے ممالک کواپنے زیر اثر لانے کیلئے کئی ایک سازشی چالیں چلیں ۔سب سے پہلے ان ممالک کو امداد دینے کا جھانسہ دیکر انہیں اپنے دائرہ اختیار میں لانے کی ابتداکی ۔عیاری کی انتہا یہ تھی کہ ان ممالک کیلئے ایسے منصوبے بنائے گئے تھے جس سے انہیں معاشی فائدہ نہ پہنچ سکے۔زیادہ تر امدادی رقوم ان ممالک سے آئے ہوئے ماہرین کی تنخواہوں کی صورت میں واپس لے لی گئیں۔ دوسرے مرحلے میں اسان شرائط پر قرضوں کا اجرا ءکر کے ان ممالک کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا گیا۔جب مقروض ممالک کی پیپر کرنسی کی گراوٹ خوفناک حدوں کو چھونے لگی تو قرضوں کے سود کی ادائیگی کیلئے مزید قرضے حاصل کرنے پر کڑی شرائط عائد کی گئیں۔
جسکے نتیجے میں مقروض ممالک پر امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک کا پریشر اتنا بڑھا کہ عوام کی مرضی سے حکومتوں کی تبدیلی ممکن نہ رہی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح بتدریج گرنے لگی عوام کو یقین ہونے لگا کہ اقتدار پر لانے والی قوتیں جسے چاہتی ہیں اقتدار انکے حوالے کردیا جاتا ہے۔ اسکا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ بد کردار لوگوں کی اکثریت سیاست میں آگئی ۔ جنکی کرپشن سے حاصل کی گئی دولت امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک کے بنکوں میں جمع ہونے لگی ۔ایسے حکمرانوں کی صنعتیں ،کاروبار اور جائیدادیں غیر ممالک میں بڑھتی گئیں۔انکے اپنے ممالک کنگال ہو کر رہ گئے۔ قرض کی شرائط ان ممالک کی آزادی تک کو مشکو ک کر گئیں امریکہ دوستی کی زندہ مثال پاکستان ہے جسکے 400بلین ڈالرز امریکہ اور اسکے دوست ممالک کے بینکوں میں کرپشن کے ذریعے جمع ہو گئے ہیں انکی واپسی کیلئے سپریم کورٹ میں رٹ دائر ہو چکی ہے جسے سماعت کیلئے منظور کر لیا گیا ہے۔
پاکستان امریکہ دوستی کی ابتداءامدادی سامان پر پاکستانی اور امریکی پرچموں کےساتھ امریکیوں اور پاکستانیوں کے ہاتھ ملانے سے ہوئی۔ دوستی کی نوبت اس حد تک جا پہنچی کہ پاکستان کو امریکی مفادات کے تحفظ کیلئے دو جنگیں لڑنی پڑیں۔ دہشتگردی کی نام نہاد جنگ پاکستانی سرحدوں کے اندر لڑی جارہی ہے۔ ڈرون حملے روز کا معمول بن گئے ہیں امریکہ ڈکٹیٹ کررہا ہے کہ فلاں فلاں پاکستانی علاقوں پر پاکستانی فوج اپنے ہی عوام پر حملے کرے ۔ ابتک 35ہزار سویلین اور ساڑھے پانچ ہزار فوجی اس جنگ کی نذر ہو چکے ہیں اس جنگ میں پاکستان کا 69بلین ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے امریکہ نیٹو ممالک اسرائیل اور بھارت کی سازشوں نے پاکستان کی سا لمیت اور آزادی تک کو داﺅ پر لگا دیا ہے۔
این جی اوز کے ذریعے ہمارے تعلیمی نصاب ، مذہبی اور معاشرتی زندگی تک کو تبدیل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔چائلڈ لیبر آزادی نسواں اور پسند کی شادی جیسے کئی دوسرے امور کیلئے انگنت این جی اوز کام کررہی ہیں۔پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے مختاراں مائی کیس کو بغیر کسی تحقیق کے کتنا اچھالا گیا ہے جبکہ پاکستانی عدالتوں میں ابھی تک اس کیس کو جھوٹا قرار دیا جا چکا ہے۔ امریکی معاشرے میں روزانہ کئی عورتیں سچی مچی مختاران مائی بنائی جاتی ہیں۔انہیںنہ توکبھی امریکی صدارتی محل میںبلوایا گیااور نہ ہی انکی تشہیر ہوئی۔امریکہ کا اصل مقصد پاکستانی عورت کے کردار کو بدلنا ہے تاکہ وہ مجاہد پیدا نہ کر سکے۔مجاہدین نے روس جیسی سپر پاور کے ٹکڑے ٹکڑے کراکر امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک کو خوفزدہ کردیا ہے جسکی وجہ سے مجاہدین کو دہشت گرد قرار دیا جانے لگا ہے اسلام آباد کے دینی مدرسے پر فوجی آپریشن اسی سازش کی ایک کڑی ہے سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی امریکہ اور اسکے اتحادی اسرائیل و بھارت کے ایجنٹ کررہے ہیں۔
انسانی بنیادی حقوق کی بحالی کا بہانہ بنا کر مسلم ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنے کیلئے امریکی او رنیٹو افواج حملے کر کے انکی حکومتوں کو تبدیل کرا رہی ہیںاگر امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک نے انسانی بنیادی حقوق کی بحالی کا بیڑہ اٹھانا ہی ہے تو اسکی ابتداءاپنے ہی ملکوں سے کریں مجاہدین کی ماﺅں کے کردار کو بدلنے کی بجائے اپنی ماﺅں میں ممتا کی شفقت واپس لائیں۔ماں بننا ہر عورت کی جبلت ہے اسی طرح ماں کا دودھ پینا بھی ہر نومولود کی جبلت ہے۔
امریکہ میں 22.4%بچے اپنی ماﺅں کا دودھ ایک سال پیتے ہیںکوئی خوش قسمت بچہ ہوگا جو پورے 2سال تک دودھ پیتا ہوگابریسٹ کینسر کا خوف نہ ہوتا تو یہ شرح بھی نہ ہوتی۔ماں صرف اپنا دودھ ہی نہیں پلاتی وہ تو دودھ کے ساتھ انسانی رویوں کو بھی اپنے بچے میں منتقل کرتی ہے۔ماں کی جھولی کی دوسالہ تربیت یونیورسٹیوں کی تعلیم سے افضل ہے اگر آج تعلیم یافتہ قومیں دنیا کو تہس نہس کررہی ہےں تویہ بچوں کوماﺅں کی چھاتی سے دودھ نہ پلانے کا نتیجہ ہے حد تو یہ ہے کہ آج تک نہ تو کسی این جی او نے نو مولود کے بنیادی حق کے تحفظ کا بیڑہ اٹھایا ہے اور نہ ہی دنیا کی کسی عدالت نے ماں کو اپنے نو مولود کو اپنا دودھ پلانے کا پابند کیاہے۔ماں کا دودھ انسان کو حقیقی انسان بناتا ہے اسکے بر عکس جانور کا دودھ انسان کے بچے کو جانور بنا دیتا ہے جسکا ثبوت یہ ہے کہ ان حیوانی عادات کے مالک انسانوں نے کروڑوں انسانوں کو بارود کی نذر کردیا ہے۔جو قومیں اپنے بچوں کو ماں کا دودھ پلانے کا حق نہیں دلا سکتیں وہ کسی اور کے بنیادی حقوق کا کیا تحفظ کریں گی؟ان بچوں سے جو جارحیت اپنا دودھ نہ پلا کر ماﺅں نے کی ہے آج انہی بچوں نے دنیا کو جارحیت کا شکار کردیا ہے۔رہا سوال دنیا میں مہنگائی سے جان چھڑانے کا تو دنیا کو یہودی نظام معیشت سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے پیپر کرنسی کے بجائے سونے کی کرنسی رائج کرنی ہوگی ۔ ماں کا دودھ اور سونے کی کرنسی دنیا کو امن کا گہوارہ بنا سکتی ہے۔ جہا ں تک مذاہب کا تعلق ہے تو دنیا کے تمام مذہب انصاف اور امن کے داعی ہیں۔
malikhabibullahbhutta@gmail.com
آجکل امریکہ اور یورپ میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں ۔دراصل پیپر کرنسی کا گرتے رہنا ہی اسکا مقدر ہے۔یہ تو گھاس پھونس اورمٹی کے مقابلے میں بھی گر رہی ہے۔حصص کی خرید و فروخت اور پیپر کرنسی کی گراوٹ سے یہودی دنیا کی معیشت کنٹرول کررہے ہیں۔اس نظام معیشت نے امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر بنا دیا ہے۔دنیا کی اکثریت کو مہنگائی کے ذریعے کنگال کردیا گیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام جو در حقیقت یہودی نظام معیشت ہے کےخلاف مظاہرین کا وال سٹریٹ پر قبضے کرنے کی کوشش ثابت کررہی ہے کہ یہودی نظام معیشت دم توڑ رہا ہے۔دنیا کسی ایسے نظام معیشت کی متلاشی ہے جس میں مزدور کو مزدور کا جائز حق اسکے پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا ہو‘ خاندان کی رہائش اورخوراک کے علاوہ اسکے بچوں کی تعلیم اور صحت کے اخراجات باآسانی پورے ہو سکیں ،تاجر اور صنعت کارصرف جائز منافع کو اپناحق سمجھیں۔ ڈالر بظاہر امریکن کرنسی ہے لیکن اسکا کنٹرول یہودیوں کے پاس ہے ۔چاہے کوئی امپورٹ کرے یا ایکسپورٹ ڈیل اسوقت تک مکمل نہیں ہو پاتی جب تک بینک آف امریکہ اپنا کمیشن دونوں پارٹیوں سے وصول نہیں کر لیتا۔ڈالر سے جان چھڑانے کیلئے 1998ءمیں یوروپین کامن مارکیٹ کا تصور یورپ میں آچکا تھا۔یورو کو بطور یوروپین کرنسی لانے کا فیصلہ بھی ہو چکا تھا۔ جہاں تک اشیاءکی قیمتوں میں استحکام کا تعلق ہے وہ صرف سونے کی کرنسی ہی پیدا کر سکتی ہے کیونکہ یہ اشیاءکے مقابلے میں گر نہیں سکتی ۔یہودی معیشت کی سازشوں کو صرف سونے کی کرنسی ہی روک سکتی ہے ۔
سونے کی کرنسی کے اجرا سے سب سے زیادہ مسلمانوں کا فائدہ ہوگا انکے عیاش اور کرپٹ حکمران نوٹ چھاپنے کی پوزیشن میں نہیں رہینگے انہیں ملکی وسائل پر انحصار کرنا پڑیگا۔چالیس فیصد دنیا کے وسائل مسلمان ممالک کے پاس ہیں۔ تجارت کے ذریعے مسلمان ممالک دنیا کے چالیس فیصد سونے کے مالک بن سکتے ہیں۔صرف تیل کی تجارت سے باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ملائشیا کے سابق وزیر اعظم نے 2003ءمیں بطور وزیراعظم اپنی آخری تقریر میں او ائی سی کو خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ پیپر کرنسی کے بجائے سونے کی کرنسی ہونی چاہیے انہوں نے یہودیوں پر وہی الزامات لگائے جو میں نے اپنے ایک کالم کے ذریعے لگائے تھے۔اسپر صدر امریکہ جارج بش نے ملائشیا کے وزیر اعظم سے ناراضگی کا اظہار کیاتھا۔اس سے پہلے حصص بازار میںخریدوفروخت اور پیپر کرنسی کی گراوٹ سے جاپان ، کوریا ، ملائشیا اور انڈونیشیا کی حصص مارکیٹس کریش کرانے پر مہاتیر محمد نے جاپانی وزیر اعظم سے اپنا مرکزی کردار ادا کرنے کی استدعا بھی کی تھی۔
جنگ عظیم دوئم کے خاتمے پر جب ایک ایک کر کے محکوم ممالک انگریز کے تسلط سے آزاد ہوگئے تو امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک نے آزاد ہونے والے ممالک کواپنے زیر اثر لانے کیلئے کئی ایک سازشی چالیں چلیں ۔سب سے پہلے ان ممالک کو امداد دینے کا جھانسہ دیکر انہیں اپنے دائرہ اختیار میں لانے کی ابتداکی ۔عیاری کی انتہا یہ تھی کہ ان ممالک کیلئے ایسے منصوبے بنائے گئے تھے جس سے انہیں معاشی فائدہ نہ پہنچ سکے۔زیادہ تر امدادی رقوم ان ممالک سے آئے ہوئے ماہرین کی تنخواہوں کی صورت میں واپس لے لی گئیں۔ دوسرے مرحلے میں اسان شرائط پر قرضوں کا اجرا ءکر کے ان ممالک کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا گیا۔جب مقروض ممالک کی پیپر کرنسی کی گراوٹ خوفناک حدوں کو چھونے لگی تو قرضوں کے سود کی ادائیگی کیلئے مزید قرضے حاصل کرنے پر کڑی شرائط عائد کی گئیں۔
جسکے نتیجے میں مقروض ممالک پر امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک کا پریشر اتنا بڑھا کہ عوام کی مرضی سے حکومتوں کی تبدیلی ممکن نہ رہی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح بتدریج گرنے لگی عوام کو یقین ہونے لگا کہ اقتدار پر لانے والی قوتیں جسے چاہتی ہیں اقتدار انکے حوالے کردیا جاتا ہے۔ اسکا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ بد کردار لوگوں کی اکثریت سیاست میں آگئی ۔ جنکی کرپشن سے حاصل کی گئی دولت امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک کے بنکوں میں جمع ہونے لگی ۔ایسے حکمرانوں کی صنعتیں ،کاروبار اور جائیدادیں غیر ممالک میں بڑھتی گئیں۔انکے اپنے ممالک کنگال ہو کر رہ گئے۔ قرض کی شرائط ان ممالک کی آزادی تک کو مشکو ک کر گئیں امریکہ دوستی کی زندہ مثال پاکستان ہے جسکے 400بلین ڈالرز امریکہ اور اسکے دوست ممالک کے بینکوں میں کرپشن کے ذریعے جمع ہو گئے ہیں انکی واپسی کیلئے سپریم کورٹ میں رٹ دائر ہو چکی ہے جسے سماعت کیلئے منظور کر لیا گیا ہے۔
پاکستان امریکہ دوستی کی ابتداءامدادی سامان پر پاکستانی اور امریکی پرچموں کےساتھ امریکیوں اور پاکستانیوں کے ہاتھ ملانے سے ہوئی۔ دوستی کی نوبت اس حد تک جا پہنچی کہ پاکستان کو امریکی مفادات کے تحفظ کیلئے دو جنگیں لڑنی پڑیں۔ دہشتگردی کی نام نہاد جنگ پاکستانی سرحدوں کے اندر لڑی جارہی ہے۔ ڈرون حملے روز کا معمول بن گئے ہیں امریکہ ڈکٹیٹ کررہا ہے کہ فلاں فلاں پاکستانی علاقوں پر پاکستانی فوج اپنے ہی عوام پر حملے کرے ۔ ابتک 35ہزار سویلین اور ساڑھے پانچ ہزار فوجی اس جنگ کی نذر ہو چکے ہیں اس جنگ میں پاکستان کا 69بلین ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے امریکہ نیٹو ممالک اسرائیل اور بھارت کی سازشوں نے پاکستان کی سا لمیت اور آزادی تک کو داﺅ پر لگا دیا ہے۔
این جی اوز کے ذریعے ہمارے تعلیمی نصاب ، مذہبی اور معاشرتی زندگی تک کو تبدیل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔چائلڈ لیبر آزادی نسواں اور پسند کی شادی جیسے کئی دوسرے امور کیلئے انگنت این جی اوز کام کررہی ہیں۔پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے مختاراں مائی کیس کو بغیر کسی تحقیق کے کتنا اچھالا گیا ہے جبکہ پاکستانی عدالتوں میں ابھی تک اس کیس کو جھوٹا قرار دیا جا چکا ہے۔ امریکی معاشرے میں روزانہ کئی عورتیں سچی مچی مختاران مائی بنائی جاتی ہیں۔انہیںنہ توکبھی امریکی صدارتی محل میںبلوایا گیااور نہ ہی انکی تشہیر ہوئی۔امریکہ کا اصل مقصد پاکستانی عورت کے کردار کو بدلنا ہے تاکہ وہ مجاہد پیدا نہ کر سکے۔مجاہدین نے روس جیسی سپر پاور کے ٹکڑے ٹکڑے کراکر امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک کو خوفزدہ کردیا ہے جسکی وجہ سے مجاہدین کو دہشت گرد قرار دیا جانے لگا ہے اسلام آباد کے دینی مدرسے پر فوجی آپریشن اسی سازش کی ایک کڑی ہے سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی امریکہ اور اسکے اتحادی اسرائیل و بھارت کے ایجنٹ کررہے ہیں۔
انسانی بنیادی حقوق کی بحالی کا بہانہ بنا کر مسلم ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنے کیلئے امریکی او رنیٹو افواج حملے کر کے انکی حکومتوں کو تبدیل کرا رہی ہیںاگر امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک نے انسانی بنیادی حقوق کی بحالی کا بیڑہ اٹھانا ہی ہے تو اسکی ابتداءاپنے ہی ملکوں سے کریں مجاہدین کی ماﺅں کے کردار کو بدلنے کی بجائے اپنی ماﺅں میں ممتا کی شفقت واپس لائیں۔ماں بننا ہر عورت کی جبلت ہے اسی طرح ماں کا دودھ پینا بھی ہر نومولود کی جبلت ہے۔
امریکہ میں 22.4%بچے اپنی ماﺅں کا دودھ ایک سال پیتے ہیںکوئی خوش قسمت بچہ ہوگا جو پورے 2سال تک دودھ پیتا ہوگابریسٹ کینسر کا خوف نہ ہوتا تو یہ شرح بھی نہ ہوتی۔ماں صرف اپنا دودھ ہی نہیں پلاتی وہ تو دودھ کے ساتھ انسانی رویوں کو بھی اپنے بچے میں منتقل کرتی ہے۔ماں کی جھولی کی دوسالہ تربیت یونیورسٹیوں کی تعلیم سے افضل ہے اگر آج تعلیم یافتہ قومیں دنیا کو تہس نہس کررہی ہےں تویہ بچوں کوماﺅں کی چھاتی سے دودھ نہ پلانے کا نتیجہ ہے حد تو یہ ہے کہ آج تک نہ تو کسی این جی او نے نو مولود کے بنیادی حق کے تحفظ کا بیڑہ اٹھایا ہے اور نہ ہی دنیا کی کسی عدالت نے ماں کو اپنے نو مولود کو اپنا دودھ پلانے کا پابند کیاہے۔ماں کا دودھ انسان کو حقیقی انسان بناتا ہے اسکے بر عکس جانور کا دودھ انسان کے بچے کو جانور بنا دیتا ہے جسکا ثبوت یہ ہے کہ ان حیوانی عادات کے مالک انسانوں نے کروڑوں انسانوں کو بارود کی نذر کردیا ہے۔جو قومیں اپنے بچوں کو ماں کا دودھ پلانے کا حق نہیں دلا سکتیں وہ کسی اور کے بنیادی حقوق کا کیا تحفظ کریں گی؟ان بچوں سے جو جارحیت اپنا دودھ نہ پلا کر ماﺅں نے کی ہے آج انہی بچوں نے دنیا کو جارحیت کا شکار کردیا ہے۔رہا سوال دنیا میں مہنگائی سے جان چھڑانے کا تو دنیا کو یہودی نظام معیشت سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے پیپر کرنسی کے بجائے سونے کی کرنسی رائج کرنی ہوگی ۔ ماں کا دودھ اور سونے کی کرنسی دنیا کو امن کا گہوارہ بنا سکتی ہے۔ جہا ں تک مذاہب کا تعلق ہے تو دنیا کے تمام مذہب انصاف اور امن کے داعی ہیں۔