ڈاکٹر علی اکبر الازہری
(آخری قسط)
آج جب میں موجودہ حالا ت کو دیکھتا ہوں تو پنڈت کی باتیں سچ ہوتی لگ رہی ہیں۔ ہماری قوم انڈیا کی دیوانی ہے ۔ انکے فحش کلچر کو اپنا نے میں ہمارا اشرافیہ ایک منٹ کی دیر نہیں لگاتا۔ انکے اداکا ر یا ایکٹرسیں آ جائیں تو ہمارے لوگ پاگل ہو جاتے ہیں۔ ہمارا میڈیا ہے کہ وہ بھی بلا قیمت بھارتی کلچر عام کر رہا ہے۔
اسکے باوجود ہندو ہمارے کسی آدمی کو بے عزت کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اب حکومت پاکستان بھارت کو Most favourite nation کا درجہ دینے کےلئے بے تاب ہے تاکہ بھارت کے ساتھ تجارت کی جائے اور بھارت ہر سال پاکستان کو خسارے کی تجارت کے زریعے اپنا مقروض بنا کر اپنی مرضی مسلط کر سکے ۔میرے خیال میں یہ ان کا احسان ہے کہ ہندو ہمیں ہر جگہ جوتے مار مار کر یا د دلاتا رہتا ہے کہ وہ ہمیں اپنا دشمن سمجھتا ہے۔
امریکہ اور ہندو نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت 1984سے پاکستان پر معاشی کنٹرول کےلئے دریاﺅ ں کا پانی بند کرنا شروع کر دیا ہے ۔ خود درجنوں ڈیم بنا رہاہے اور ادھر ایک کالاباغ ڈیم اسے گوارہ نہیں۔ اس نے بجلی پیدا کرنے کے تمام مواقع ہمارے اپنے لوگوں کو خرید کر بند کروا دئیے ہیں تا کہ انڈسٹری مقابلہ کرنے کی حالت میں نہ رہے۔
پٹرول کی قیمتیں بڑھانے سے مہنگائی بڑھے گی تو ہماری چیزیں مہنگی ہونے سے نہ صرف برآمد نہیں ہو سکیں گی بلکہ اپنی ضرورت کی اشیاءبھی ان سے منگوانا پڑیں گی۔ غرضیکہ اس چکر میں ہم خود ہی اپنے آپ کو تباہ کرینگے ۔ انہیں فوجی حملہ کرنےکی ضرورت نہیں رہے گی ۔ میرے اندازے کے مطابق دین دشمن طاقتوں کا سب سے بڑا ٹارگٹ پاکستان کی آرمڈ فورسز ہیں۔اکانومی تباہ ہوئی تو ہم روس کی طرح خدانخواستہ بیٹھ سکتے ہیں۔ ان حالات میں فوج کو بھی قائم رکھنا مشکل ہوگا جو ہماری قومی سرحدوں اور نیوکلیر پروگرام کی حفاظت کی آخری امید ہے۔
قومی راہنماوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ دشمن کی اس گھناونی سازش کو سمجھیں اور اپنی اصلاح کریں۔معاش اورمال کی حفاظت اور صحیح استعمال سیکھیں۔ چاہے ایک آدمی ہو یا قوم سب کی عزت غیرت اور زندگی کا انحصار اچھی معاش پر ہوتا ہے۔ پنڈت نے سچ کہا تھا ۔ وہاں کے اچھے اچھے مسلمان خاندان مالی طور پر ہندوں کے دستِ نگر بن چکے ہیں۔ پاکستان کے متعلق بھی ہندوستان اُسی پالیسی پر گامزن ہے۔ ہم ہی نہ سمجھیں تو ان کا کیا قصور؟
دشمن تو دشمن ہوتا ہے مگر حیرت تو یہ ہے کہ آج ہم خود اپنے دشمن ہو گئے ہیں ۔ شاید اللہ نے ہمارے اعمال کی وجہ سے ہماری مت مار دی ہے اور نوشتہ دیوار ہمیں نظر ہی نہیں آرہا۔
قومی سلامتی اور مسئلہ کشمیر کی نزاکت سے نظریں چرا کر ہم بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دے کر اس کی مکارانہ چال کے جال میں پھنس رہے ہیں، ٹماٹر، آلو ، پیاز ، چینی یا سیمنٹ وغیرہ کی تجارت میں جو خطرات چھپے ہوئے ہیں وہ میں ایک اور ذاتی واقعہ سے واضح کرنا چاہوں گا۔ 1947سے پہلے ہمارے آبائی علاقہ ڈنگہ میں ایک بھی مسلمان دکاندار نہ تھا۔ حالانکہ غالب اکثریت مسلمان آبادی پر مشتمل تھی۔ موضع کولیاں کے ایک مسلمان چوہدری میاں حیات صاحب نے ایک مسلمان کو تیار کر کے اسے ڈنگہ بازار میں دکان کھلوا دی۔ اس کو ناکام کرنے کےلئے تمام ہندو اور سکھ دکانداروں نے ایکا کر کے قیمت خرید سے کم پر مال بیچنا شروع کر دیا۔ نتیجہ وہی ہوا جو ہونا تھا چند ماہ بعد اس مسلمان کی اکلوتی دوکان بند ہو گئی۔
یہ سچا واقعہ ہے ہمارے بزرگ پاکستان بننے کے بعد ہمیں سنایا کرتے تھے اور پاکستان بنانے والوں کا شکریہ ادا کرتے تھے۔ ہندوﺅں نے مسلمانوں کا بنیادی طور پر معاشی اور مالی استحصال کیا تھا۔ یہی دونوں عوامل پھر سیاسی، سماجی، علمی اور فکری استحصال کا باعث بن گئے اور مجبوراً مسلمانوں نے الگ وطن کا مطالبہ شروع کردیا۔ پاکستان جیسے تیسے بن گیا مگر بھارتی ہندووں نے اسے آج تک دل سے قبول نہیں کیا اب وہ تین چار جنگوں کے بعد بقیہ پاکستان کے بھی درپے ہے اور مکار عورت کی چالوں کو کام میں لاتے ہوئے ہمیں دوبارہ اپنا غلام بنانا چاہتا ہے۔ ہم انجانے میں پھنستے جا رہے ہیں اور حکومت کی نااہلیت کی وجہ سے ہمارے فیکٹری مالکان اور تجارت سے وابستہ افراد اپنی بدنیتی اور ہوس زر کی وجہ سے ہمیں ہندوﺅں کی غلامی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اب یہ سوچنا ہمارا کام ہے کہ اس تجارت کو ہمیں کس حد تک جاری رکھنا ہے۔ لیکن یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ہندو عالمی سامراج کی سرپرستی میں پاکستان سے پرانے بدلے لینا چاہتا ہے۔ “
(آخری قسط)
آج جب میں موجودہ حالا ت کو دیکھتا ہوں تو پنڈت کی باتیں سچ ہوتی لگ رہی ہیں۔ ہماری قوم انڈیا کی دیوانی ہے ۔ انکے فحش کلچر کو اپنا نے میں ہمارا اشرافیہ ایک منٹ کی دیر نہیں لگاتا۔ انکے اداکا ر یا ایکٹرسیں آ جائیں تو ہمارے لوگ پاگل ہو جاتے ہیں۔ ہمارا میڈیا ہے کہ وہ بھی بلا قیمت بھارتی کلچر عام کر رہا ہے۔
اسکے باوجود ہندو ہمارے کسی آدمی کو بے عزت کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اب حکومت پاکستان بھارت کو Most favourite nation کا درجہ دینے کےلئے بے تاب ہے تاکہ بھارت کے ساتھ تجارت کی جائے اور بھارت ہر سال پاکستان کو خسارے کی تجارت کے زریعے اپنا مقروض بنا کر اپنی مرضی مسلط کر سکے ۔میرے خیال میں یہ ان کا احسان ہے کہ ہندو ہمیں ہر جگہ جوتے مار مار کر یا د دلاتا رہتا ہے کہ وہ ہمیں اپنا دشمن سمجھتا ہے۔
امریکہ اور ہندو نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت 1984سے پاکستان پر معاشی کنٹرول کےلئے دریاﺅ ں کا پانی بند کرنا شروع کر دیا ہے ۔ خود درجنوں ڈیم بنا رہاہے اور ادھر ایک کالاباغ ڈیم اسے گوارہ نہیں۔ اس نے بجلی پیدا کرنے کے تمام مواقع ہمارے اپنے لوگوں کو خرید کر بند کروا دئیے ہیں تا کہ انڈسٹری مقابلہ کرنے کی حالت میں نہ رہے۔
پٹرول کی قیمتیں بڑھانے سے مہنگائی بڑھے گی تو ہماری چیزیں مہنگی ہونے سے نہ صرف برآمد نہیں ہو سکیں گی بلکہ اپنی ضرورت کی اشیاءبھی ان سے منگوانا پڑیں گی۔ غرضیکہ اس چکر میں ہم خود ہی اپنے آپ کو تباہ کرینگے ۔ انہیں فوجی حملہ کرنےکی ضرورت نہیں رہے گی ۔ میرے اندازے کے مطابق دین دشمن طاقتوں کا سب سے بڑا ٹارگٹ پاکستان کی آرمڈ فورسز ہیں۔اکانومی تباہ ہوئی تو ہم روس کی طرح خدانخواستہ بیٹھ سکتے ہیں۔ ان حالات میں فوج کو بھی قائم رکھنا مشکل ہوگا جو ہماری قومی سرحدوں اور نیوکلیر پروگرام کی حفاظت کی آخری امید ہے۔
قومی راہنماوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ دشمن کی اس گھناونی سازش کو سمجھیں اور اپنی اصلاح کریں۔معاش اورمال کی حفاظت اور صحیح استعمال سیکھیں۔ چاہے ایک آدمی ہو یا قوم سب کی عزت غیرت اور زندگی کا انحصار اچھی معاش پر ہوتا ہے۔ پنڈت نے سچ کہا تھا ۔ وہاں کے اچھے اچھے مسلمان خاندان مالی طور پر ہندوں کے دستِ نگر بن چکے ہیں۔ پاکستان کے متعلق بھی ہندوستان اُسی پالیسی پر گامزن ہے۔ ہم ہی نہ سمجھیں تو ان کا کیا قصور؟
دشمن تو دشمن ہوتا ہے مگر حیرت تو یہ ہے کہ آج ہم خود اپنے دشمن ہو گئے ہیں ۔ شاید اللہ نے ہمارے اعمال کی وجہ سے ہماری مت مار دی ہے اور نوشتہ دیوار ہمیں نظر ہی نہیں آرہا۔
قومی سلامتی اور مسئلہ کشمیر کی نزاکت سے نظریں چرا کر ہم بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دے کر اس کی مکارانہ چال کے جال میں پھنس رہے ہیں، ٹماٹر، آلو ، پیاز ، چینی یا سیمنٹ وغیرہ کی تجارت میں جو خطرات چھپے ہوئے ہیں وہ میں ایک اور ذاتی واقعہ سے واضح کرنا چاہوں گا۔ 1947سے پہلے ہمارے آبائی علاقہ ڈنگہ میں ایک بھی مسلمان دکاندار نہ تھا۔ حالانکہ غالب اکثریت مسلمان آبادی پر مشتمل تھی۔ موضع کولیاں کے ایک مسلمان چوہدری میاں حیات صاحب نے ایک مسلمان کو تیار کر کے اسے ڈنگہ بازار میں دکان کھلوا دی۔ اس کو ناکام کرنے کےلئے تمام ہندو اور سکھ دکانداروں نے ایکا کر کے قیمت خرید سے کم پر مال بیچنا شروع کر دیا۔ نتیجہ وہی ہوا جو ہونا تھا چند ماہ بعد اس مسلمان کی اکلوتی دوکان بند ہو گئی۔
یہ سچا واقعہ ہے ہمارے بزرگ پاکستان بننے کے بعد ہمیں سنایا کرتے تھے اور پاکستان بنانے والوں کا شکریہ ادا کرتے تھے۔ ہندوﺅں نے مسلمانوں کا بنیادی طور پر معاشی اور مالی استحصال کیا تھا۔ یہی دونوں عوامل پھر سیاسی، سماجی، علمی اور فکری استحصال کا باعث بن گئے اور مجبوراً مسلمانوں نے الگ وطن کا مطالبہ شروع کردیا۔ پاکستان جیسے تیسے بن گیا مگر بھارتی ہندووں نے اسے آج تک دل سے قبول نہیں کیا اب وہ تین چار جنگوں کے بعد بقیہ پاکستان کے بھی درپے ہے اور مکار عورت کی چالوں کو کام میں لاتے ہوئے ہمیں دوبارہ اپنا غلام بنانا چاہتا ہے۔ ہم انجانے میں پھنستے جا رہے ہیں اور حکومت کی نااہلیت کی وجہ سے ہمارے فیکٹری مالکان اور تجارت سے وابستہ افراد اپنی بدنیتی اور ہوس زر کی وجہ سے ہمیں ہندوﺅں کی غلامی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اب یہ سوچنا ہمارا کام ہے کہ اس تجارت کو ہمیں کس حد تک جاری رکھنا ہے۔ لیکن یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ہندو عالمی سامراج کی سرپرستی میں پاکستان سے پرانے بدلے لینا چاہتا ہے۔ “