آج یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن ہمارے ان حالات میں منایا جا رہا ہے جب اپنے حقوق کیلئے شاہراہ قائداعظم لاہور پر احتجاجی مظاہرہ کرنیوالے غریب کسانوں کی پولیس کے ہاتھوں دھنائی ہو رہی ہے‘ انکی گرفتاریاں عمل میں آرہی ہیں اور ذخیرہ اندوزوں‘ ناجائز منافع خوروں کو مزید نوازنے کیلئے ملک میں گندم کی بمپر پیداوار ہونے کے باوجود حکمران طبقات گندم درآمد کرنے کی راہ ہوار کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیر احسن اقبال نہ جانے کس بھولپن میں اپنی ہی حکومت سے یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ جس افلاطون نے گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا‘ اسے سزا دی جائے اور دوسرے وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نہ جانے کس زعم میں یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ہم کسی بھی صورت کسانوں‘ زمینداروں اور مزدوروں کا استحصال نہیں ہونے دیں گے۔ اسکے برعکس کسانوں‘ مزدوروں کی حالت تو آج بھی اسی طرح ابتر ہے اور آج بھی ان کا اسی طرح استحصال کیا جا رہا ہے جیسا 1884ءمیں ان کا استحصال کیا جارہا تھا اور وہ اپنے اوقات کار آٹھ گھنٹے تک مختص کرانے کیلئے شکاگو کی سڑکوں پر آکر سراپا احتجاج بن گئے تھے مگر سرمایہ دار طبقے کیخلاف اٹھنے والی اس آواز کو دبانے کیلئے اور اپنا پسینہ بہانے والی اس طاقت کے آگے بند باندھنے کیلئے احتجاجی مزدوروں پر بے دریغ فائر کھول کر انہیں خون میں نہلا دیا گیا۔ ان جانثاروں کی قربانیوں نے محنت کشوں کی توانائیوں کو ایسی قوت بخشی کہ آج بھی انکی جدوجہد کو ہر سال عالمی سطح پر یاد کیا جاتا ہے اور یکم مئی کا دن یوم مئی کے طور پر قربانیوں سے لبریز مزدوروں کی اس جدوجہد کے ساتھ منسوب ہو چکا ہے۔ یہ دن کارخانوں‘ کھیتوں‘ کھلیانوں‘ کانوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں سرمائے کی بھٹی میں جلنے والے لاتعداد محنت کشوں کا دن ہے اور حقیقت یہی ہے کہ آج بھی یہ طبقہ سرمایہ داری نظام کے زیرتسلط بری طرح پس رہا ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ موجودہ جان لیوا مہنگائی اور حکومتی ناقص پالیسیوں کے باعث بڑھنے والی بے روزگاری کے نتیجہ میں مزدور طبقات آج عملاً زندہ درگور ہو چکے ہیں جنہیں ملازمت کا کوئی تحفظ بھی حاصل نہیں۔ آج روزانہ 12 سے 14 گھنٹے کام کرنے اور ڈبل شفٹیں لگانے والے مزدور کو اتنی اجرت بھی نہیں ملتی کہ وہ اپنے اہل خانہ کی ضروریات زندگی کے مطابق کفالت کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طبقے میں خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس صورتحال میں یوم مئی کا عالمی دن محض منا کر مزدوروں‘ کسانوں کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ ان طبقات کے حقوق کے تحفظ کیلئے قوانین تو پہلے بھی موجود ہیں اور آئین پاکستان کے انسانی حقوق کے چیپٹر میں بھی شہریوں کو صحت‘ تعلیم‘ روزگار کی سہولت فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ٹھہرائی گئی ہے مگر عملاً یہی طبقات آج بھی سب سے زیادہ غیرمحفوظ ہیں۔ بلاشبہ مزدور ایک قابل رحم طبقہ ہے‘ انکی اجرت کا تعین مہنگائی کی مناسبت سے ہی کیا جانا چاہیے اور متعلقہ قوانین پر موثر عملدرآمد کے ذریعے ان کا استحصال روکا جانا چاہیے۔ اگر مزدور طبقہ اپنے حالات سے غیرمطمئن اور مایوس ہوگا تو حکومتی گورننس بھی چیلنج ہوتی رہے گی۔
ذاتی پریشانی کا سبب بننے والا ایک واقعہ
May 20, 2024