یکم مئی ”ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات “
دوستی....شیخ وامق
Wamiq777@hotmail.com
لیبر ڈے کے تقاضے اور مزدوروں کے حقوق پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی اج مزدوروں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے جس کا بنیادی مقصد انیسویں صدی کے اواخر میں شکاگوں میں مزدوروں کے حقوق کے لیے اواز بلند کرنے کی پاداش میں خون میں نہلا دیے گئے افراد کی یاد تازہ کرنے کے ساتھ معاشرے میں محنت کش طبقے کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرنا بھی ہے_ ماضی میں منائے گئے مزدوروں کے عالمی دنوں کی طرح اج بھی نہ صرف مختلف شہروں میں ریلیاں نکالی جائیں گی اور واکس کا اہتمام بھی کیا جائے گا بلکہ جلسوں اور اجلاسوں کا انعقاد بھی عمل میں لایا جائے گا اور پھر پورے ایک سال کے لیے خاموشی چھا جائے گی یوں محسوس ہوگا جیسے اس ملک اور وسیع تر تناظر میں بات کی جائے تو اس دنیا میں مزدور نام کا کوئی طبقہ کوئی نفس موجود ہی نہیں ہے_ اس ٹھوس حقیقت سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ جسمانی محنت مزدور کرتا ہے اس کے باوجود سب سے کم معاوضہ انہی کو ملتا ہے جس کے باعث وہ کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں_ مزدوروں کے حالات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری حکومت نے کم از کم مختانے کی جو حد مقرر کر رکھی ہے مزدور طبقے کا ایک بڑا حصہ اس سے بھی محروم ہے_ مہنگائی اس تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ متوسط اور متمول طبقات کے لیے بھی اپنے مہینے بھر کے اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں رہا اور لوگوں کو اپنی ایک ضرورت پوری کرنے کے لیے اپنی کسی دوسری ضرورت گلا گھونٹنا پڑ رہا ہے_ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور کے حالات اس سے بھی بدتر ہیں کیونکہ انہیں کبھی کام ملتا ہے اور کبھی پورا دن کہیں سبب نہیں بنتا اور انہیں خالی ہاتھ گھر واپس جانا پڑتا ہے_ ان دیہاڑی دار مزدوروں کو جس روز کام نہیں ملتا اس روز ان کے گھروں پر فاقے ہوتے ہیں کیونکہ چولہا جلانے اور کچھ پکا کر کھانے کے لیے ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا_ ریاست نے عام ادمی کے لیے سہولتوں سے ہاتھ کھینچ لیا ہے_ غریب مزدور بچوں کے لیے تعلیم کا حصول ممکن نہیں وہ علاج بھی اپنی جیب سے کرانے پر مجبور ہے_ اس وقت گلی محلوں میں جو کلینک کام کر رہے ہیں وہاں بیٹھا فزیشن نزلہ زکام اور بخار کہ مریض سے 100 روپے سے کم فیس نہیں لے رہا سوال یہ ہے کہ جو مزدور پورا دن کام کر کے تین یا چار روپے کماتا ہے وہ ایک سو روپیہ دے کر اپنا علاج کرائے گا یا اپنے گھر والوں کے لیے اٹا دال خریدے گا کہنے کو ہمارے ہاں تعلیم مفت ہے اور بچوں کو کتابیں بھی حکومت جانب سے مفت فراہم کی جا رہی ہیں لیکن بچوں کی کاپیوں اور یونیفارم پر جو اخراجات اٹھتے ہیں ایا کوئی محدود امدنی والا عام مزدور یہ بوجھ اٹھانے کے قابل ہے رہی سہی کسر توانائی کے بحران نے پوری کر دی ہے_ بجلی چلی جائے تو سب سے زیادہ متاثر یہی مزدور طبقہ ہوتا ہے جو دیہاڑی پر کام کرتا ہے یا جس نے کسی فیکٹری کارخانے میں بھی اتنا ہی معافہ پانا ہے جتنا اس نے کام کیا ہوگا_ لوڈ شیڈنگ بڑھ جائے تو اس کا اثر بھی عام مزدور پر سب سے زیادہ ہوتا ہے کہ فیکٹری کا مالک اپنا یونٹ بند کر دیتا ہے اور مزدور بے روزگار ہو جاتا ہے_ کہیں ادارے ایسے ہوں گے جہاں لیبر قوانین کا خیال نہیں رکھا جا رہا لیکن کوئی ان پر توجہ نہیں دیتا_ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ مزدوروں کے ساتھ یکجہتی کو محض ایک دن منانے تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ مہنگائی کے ہاتھوں تنگ اور مالی لحاظ سے کمزور ان لوگوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات عمل میں لائے جائیں جس کا بہترین طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ مزدوروں کے حقوق کی پاسداری یقینی بنانے کے لیے نہ صرف اعلی قوانین بنائے جائیں بلکہ ان پر عمل درامد بھی کیا جائے_ قوانین بنائے جاتے رہیں اور ان پر عمل درامد نہ کرایا جائے تو ایسے قوانین کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا_ اس کے ساتھ ساتھ مزدوروں کو بھی اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد ترک نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ بالکل واضح ہے کہ جب تک وہ خود اپنے حقوق کے لیے اواز بلند نہیں کریں گے کوئی ان کو ان کا حقوق دینے کو تیار نہیں ہوگا چنانچہ اج کے دن کا تقاضہ ہے کہ مزدور طبقہ اپنے حقوق کے لیے خود بھی تگ و دور کا اغاز کرے_ شکاگو میں اپنے حقوق کی خاطر مرنے والوں کی یاد تبھی تازہ ہوگی تبھی ان کو ان کی قربانیوں کے مطابق خراج عقیدت پیش کیا جا سکے گا÷ مزدوروں کے حقوق کے لیے عالمی سطح پر بھی اواز بلند کی جانی چاہیے اس سلسلے میں مزدور پیشہ افراد کی بہبود کے لیے کام کرنے والی سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں کافی کردار ادا کر سکتی ہیں_ مزدور طبقہ کسی بھی ملک یا معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے ضروری ہے کہ اس طبقے کی بہبود اور ترقی کو بھی محلوظ رکھا جائے تاکہ معاشرے کی ترقی کا عمل جاری رہے ( صاحب مضمون :انجمن تاجران راوپنڈی کینٹ کے وائس پریزیڈنٹ ہیں )