عہد ِ حاضر کے مزدوروں سے تجدید عہد کا تقاضہ
یوم مئی مزدور طبقہ اور مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کو شہداء شکاگو اور ان کی دنیا بھرکے مظلوم ومحکوم مزدوروں کیلئے دی گئی قربانیوں کی ناصرف یاد دلاتا ہے بلکہ ان کی تقلید کا پیغام لاتا ہے۔یہ سال دوسال کا قصہ نہیں بلکہ ڈیڑھ صدی پرانی دکھ ودرد بھری مگر حوصلہ افزاء اور قربانیوں کی لازوال داستان ہے۔جب دنیا بھر میں محنت کشوں کا استحصال جاری تھا اور مزدور طبقہ کوحقیر ،اچھوت سمجھ کر ان سے بدتر سلوک روا رکھا جاتا تھا۔انہیں محض مشینری کا بے جان پرزہ سمجھ کر جب تک کام کے قابل رہتا استعمال کیاجاتا ،جب بے کار ہوتا اسے نکال باہر پھینکا جاتا تھا۔ڈیوٹی کاکوئی مقررہ وقت نہ تھا، نہ ہی ہائر اینڈ فائر کے کوئی قوائدوضوابط تھے۔چاروں طرف ظلم،ناانصافی اور استحصال ہی استحصال تھا۔ان حالات میں امریکہ کے صنعتی شہر شکاگو کے مزدوروں نے اس زیادتی اور ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ آواز محنت کشوں کی تحریک بن گئی ۔جب صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کو پتہ چلا تو انہوںنے طرح طرح کے حربے استعمال کئے ،مگر مزدوروں میں شعور بیدار ہوچکاتھا ۔وہ متحد ہوتے گئے ،مالکان نے اپنے تئیں لاکھ جتن کئے جوناکام رہے ۔بالآخر ریاستی اداروں سے ملکر ظلم وستم ڈھائے گئے ۔جب پوری طرح ناکام ہوگئے تو یکم مئی 1886ء کے ہی دن ریاستی اداروں نے نہتے مزدوروں پرگولیاں چلائیں ۔مزدوروں کا اس قدر خون بہایا کہ شکاگو کی گلیاں ندی نالوں کا روپ اختیار کر گئیں۔کئی مزدوررہنما ئوں کو تختہ دار پرچڑھایا گیا۔مزدور رہنمائوں نے پھانسی کے پھندے پھولوں کے ہار سمجھ کر قبول کئے اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کررہتی ۔دنیا تک کے مزدوروں کے حقوق کی خاطر تختہ دار پر جھول گئے ۔اس موقع پر مزدور راہنمائوں نے کہاکہ تم ہماری جانیں لے سکتے ہو،مگر ہماری اس حق کی آواز کو کبھی نہیں دبا سکو گے۔یہ ہمیشہ تمہارا تعاقب کرتی رہیں گی۔ریاستی اداروں کے مظالم مزدوروں کے حوصلے پست نہ کرسکے۔بالآخر مزدوروں کے عزم وحوصلے ،جوانمردی کے سامنے سرمایہ داروں ،صنعت کاروں اورریاستی اداروں نے گھٹنے ٹیک دیئے اور مذاکرات کے ذریعے محنت کشوں کے حقوق تسلیم کئے گئے ،ڈیوٹی ٹائم 8گھنٹے طے ہوا،ہائراینڈ فائر کے اصول طے ہوئے،حقوق ومراعات کا تعین ہوا، مزدوروں کیلئے سہولیات تسلیم کی گئیں۔جن میں سالانہ ،ماہانہ تعطیلات ،طبی ،تعلیمی ،رہائشی ،یونین سازی پر بات چیت طے ہوئیں اور نتیجے میں محکمہ لیبر ،سوشل سیکورٹی جیسے ادارے قائم ہوئے ۔لیبرعدالتیں قائم ہوئیں اور دنیابھر میں مزدوروں کے حقوق نہ صرف تسلیم کئے گئے بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں مزدور کوپرکشش حقوق ومراعات کے ساتھ ساتھ سیاسی ،سماجی حقوق بھی حاصل ہیں۔عالمی ادارہ محنت(ILO)کی قراردادوں کے مطابق یورپ،امریکہ ،برطانیہ ،کینیڈا،آسٹریلیا اورجاپان سمیت دنیا بھرکے بیشتر ممالک میں مزدوروں کو حقوق ومراعات حاصل ہیں ۔مگر ترقی پذیرممالک جن میں پاکستان بھی تاحال شامل ہے ،کی حالت اس حوالے سے قابل رحم ہے۔پاکستان میں محکمہ محنت کی وزارتیں ،سوشل سیکورٹی کے ادارے اور لیبر عدالتیں توموجود ہیں مگر یہ’’باز کے سامنے فاختہ ‘‘ کے مترادف ہے ۔ان اداروں کو کمزور ،بے بس ،لاچار کرکے رکھا ہوا ہے اور مزدور جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ ہر طرح کا ظلم روا رکھا جاتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ خود سیاستدان کی شکل میں اقتدار پرقابض ہوجاتا ہے اور خود ہی قانون سازی اپنے حق میں کرکے مزدوروں کا نہ صرف استحصال کرتا ہے بلکہ اداروں کو کمزور کرکے اپنے مفادات کی خاطر مزدوروں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرکے ناکردہ گناہوں کی سزائیں دلواتا ہے۔قیام پاکستان سے اب تک مزدور تحریک کے حقوق تسلیم کرنے کی بجائے مسلسل تادیبی ،غیرقانونی رویے اپناکر عملاً ٹریڈ یونینز کا خاتمہ کرچکاہے ۔نام نہاد جمہوری دور ہو یا مارشل لاء ،یہی جاگیردار ،سرمایہ دار ہی حکومتوں میں شامل ہوکر محنت کش طبقہ کے خلاف ہی قانون سازی کرواتے چلے آرہے ہیں۔اس وقت محکمہ لیبر ہو یا لیبرکورٹس ان میں مزدور اور مزدور نمائندوں کی تذلیل ہی ہوتی ہے ۔ان اداروں کو جرات نہیں کہ کسی سرمایہ دار یاصنعت کار کے مقابلے میں کسی مزدور کا حق تسلیم کیاجائے ۔لیبرعدالتوں میں عدلیہ سے پریذائیڈنگ آفیسر ز،ممبرز صنعتی تعلقات کمیشن ( NIRC)،لیبر ٹربیونلز کے چیئرمین تعینات ہوتے ہیں جو مزدوروں اور مزدور لیڈروں کو چور،ڈاکو،بدمعاش ،تخریب کار ،دہشت گرد ،قرضہ خور ،کرپٹ ،رشوت خور،کمیشن خوروں سے بھی بڑا مجرم تصور کرتے ہوئے ان جیسا سلوک کرتے ہیں ۔ان کی طرف سے دادرسی کی اپیل کوملک توڑنے اور لوٹنے سے بھی بڑا جرم سمجھ کر سلوک کیاجاتا ہے۔