آج جب یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں لندن میں اس وقت فجر کی نماز کا وقت ہے باہر ہلکی ہلکی بارش ہو رہی ہے، آسمان پر بادلوں کا بسیرا ہے اور فضاء میں عجیب رومانیت بسی ہوئی ہے لیکن ایسے میں ادھر ایک اپنا دل ہے جو یہاں سے آٹھ ہزار کلو میٹر دور اپنے دیس پاکستان میں اٹکا ہوا ہے اور اس رومانوی موسم میں بجائے لطف اندوز ہونے کہ دل و دماغ عجیب وسوسوں کا ڈیرہ ہے۔ پچھلے کالم کا تسلسل تو اس بات کا متقاضی ہے کہ اس وقت اپنے ملک میں حالات جس تیزی کی ساتھ نظام حکومت میں (سٹرکچرل چینج) برائے مہربانی توجہ میرے ان الفاظ پر مرکوز رہے راقم بات نظام حکومت کی تبدیلی کی نہیں کر رہا بلکہ نظام حکومت میں سٹرکچرل چینج کی کر رہا ہے کی طرف بڑھ رہے ہیں اس موضوع پر ہی لکھا جائے لیکن گزری رات راقم بی بی سی پر ایک پروگرام دیکھ رہا تھا جس میں پروگرام کے شرکاء اس بات پر متفکر نظر آرہے تھے کہ ایک طرف چائنہ ون روڈ ون بیلٹ پر دنیا کے بیشتر ممالک کے قائدین کی ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کر رہا ہے اور ایک طرف برطانیہ ہے جو ابھی تک اس بات کا فیصلہ ہی نہیں کر پا رہا کہ یورپی یونین سے علیحدگی جسے کچھ لوگ Divorce اور کچھ لوگ Brexit کے نام سے پکارتے ہیں کا طریقہ کار کیا ہو گا۔ آجکل یہاں برطانیہ میں ہونے والی کل وقتی بحث کا اگر عمومی جائزہ لیا جائے تو آپکو ایک ہی بات نظر آئیگی کہ مباحثوں کے شرکاء اس بات پر متفکر نظر آتے ہیں کہ اس تناظر میں جو دیری ہو رہی ہے کہیں آگے چل کر وہ اس بات پر یہ مہر نہ ثبت کر دے کہ اس ملک کا پولیٹیکل سسٹم عوامی رائے کے احترام میں ڈلیوری کی صلاحیت سے محروم ہو گیا ہے۔ بس اس پروگرام کو دیکھ کر رات بڑی کرب میں گزری کہ یار ایک یہ قومیں انکی قیادتیں اور انکے تھنک ٹینک ہیں جنھے ہر وقت اپنے ملکوں کے مستقبل اور وہاں کے رائج سسٹم کی فکر کھائے جا رہی ہے اور ایک ہماری قوم ہے جسکا یہ مزاج اور رواج بن گیا ہے کہ انکی فکری سوچیں صرف سیاسی قیادتوں کی ذاتی زندگیوں کے احاطے تک محدود ہو گئی ہیں اور قحط الرجال اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ جہاں برطانوی قوم اپنے پولیٹیکل سسٹم کی ممکنہ نا اہلی پر متفکر دکھائی دیتی ہے وہاں ہم سوشل میڈیا پر تصویریں لگا کر ایک دوسرے کو نیچا ثابت کرنے کی اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ ہمارا الیکٹیڈ لیڈر اگلی صف میں درمیان میں کھڑا ہوتا تھا تمہارا سلیکٹیڈ لیڈر دوسری لائن میں سائڈ پر کھڑا ہے۔ یقین جانیئے شرم اتی ہے اس اخلاقی بدحالی پر اور خوف اتا ہے آنے والے وقت سے کیونکہ ماضی اور تاریخ کچھ اسی طرح کے حالات کی وہ تصویر دکھاتے ہیں جب ہلاکو خان نے بغداد جو دنیا کے کتب خانوں کی ایک تاریخ رکھتا تھا اسکی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ سوچتا ہوں قوم کے اس مزاج کی پستی کا ذمہ دار کون؟ جواب اسی ملک کی سیاسی قیادت کے کردار اور گفتار سے مل جاتا ہے۔ غور کریں جب قیادتیں ایک دوسرے کو مذکر اور مونث کے طعنوں سے نوازنا شروع ہو جائیں کوئی کسی کو شیطان کوئی کسی کو صاحبہ کوئی کسی کو باجی کوئی کسی کو ڈبو کوئی کسی کو ڈیزل کوئی کسی کو جہاز کے القاب سے پکارے گا تو پھر پارٹی ارکان تو اپنے اپنے بابے کی۔۔۔ بات تو کریں گے۔ بس یہی ایک لمحہ فکریہ کہ جب بگاڑ اس نہج پر پہنچ جائے تو پھر سسٹم میں کسی ممکنہ تبدیلی کے متعلق ہم اسٹیبلشمنٹ کی طرف اشارے کریں یا اپنے شکوک کا اظہار کریں تو یہ انکے ساتھ ہی زیادتی نہیں بلکہ قانون قدرت کے خلاف بغاوت کا اظہار بھی ہے کیونکہ یہ قانون قدرت ہے کہ جب کسی بھی سسٹم میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو اس سسٹم میں قدرت کی طرف سے ایک خود ساختہ مدافعاتی نظام موجود ہوتا ہے جو بگاڑ پر خود بخود آپریٹیو ہو جاتا ہے جسکی واضع مثال انسان کا اپنا جسمانی نظام ہے۔ لہذا اخلاقی دیوالیہ پن کے اس مقام پر اگر کہیں سے مداخلت ہو جاتی ہے تو اسے قانون قدرت کی ایک کڑی ہی سمجھنا چاہیئے۔ راقم جانتا ہے کہ بیشتر نقاد اس مقام پر اس دلیل کے ساتھ کہ لولی لنگڑی بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے موجودہ سسٹم کی حمایت میں تنقید کے نشتر برساتے نکل آئینگے۔ راقم انکی اس دلیل سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے بس ایک سوال پوچھنے کی جسارت کرتا ہے کہ ایسی کسی بھی بحث شروع کرنے سے پہلے صرف آمریت کی تعریف کا جائزہ لے لیں اور پولیٹیکل سائنس کے حوالے سے یہ واضع کر دیں کہ آمریت صرف عسکری زرائع کے کسی کردار تک ہی محدود ہے یا پھر کسی سویلین کا ایسا کردار بھی اس زمرے میں اتا ہے جسکا اختیار آئین پاکستان اس سویلین اتھارٹی کو نہیں دیتا یا پھر وہ اتھارٹی اس تجویز کردہ اختیار سے باہر نکل جاتی ہے۔ اگر صرف ان چند سطروں پر محیط آمریت کی تعریف کے زمرے میں ہم ستر سالہ تاریخ کا جائزہ لے لیں تو شاید ہماری بہت سی الجھنوں کی گتھیاں سْلجھ جائیں۔ یاد رہے سماجی بگاڑ اور معاشی بگاڑ کا ہمیشہ چولی دامن کا ساتھ رہتا ہے۔ چلتے چلتے ایک بات محترم عمران صاحب آپکی نیت پر شک نہیں اور کرپشن کے خلاف جنگ میں آپکے اصولی موقف سے اختلاف بھی نہیں لیکن طریقہ کار سے تھوڑا سا اختلاف ہے کہ اپکی گفتار سے قوم کا تاجر طبقہ جس انجانے خوف میں مبتلا ہو چکا ہے اس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ اس جنگ میں ہاتھ نہیں باندھے جا رہے گلہ ہی دبایا جا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم کو آپ اپنی گفتار سے ہی نہیں بلکہ عملی اقدامات سے اعتماد میں لیں کیونکہ یہ یاد رکھیں جب تک معاشی سرگرمیاں زور نہیں پکڑیں گی کسی قسم کی کسی بھی محاذ پر کامیابی نہیں ملے گی۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024