وطن عزیز کے سیاسی منظر نامے میں اور ہمارے اوپر ووٹو ںکے پردے میںمسلط ہونے والے تمام سیاستدانوںمیں صرف موجودہ وزیر اعظم عمران خان ہی نظر آتے ہیں جو تعلیم میں سب سے زیادہ ، مغربی طرز حکومتوںکو اقتدار میں آنے سے قبل انتخابی نعروں میں رول ماڈل بنانے والے ، انتخابات کے قریب اور اپنی کامیابی کے بعد اپنا رول مڈل ریاست مدینہ کا بنایا ۔ ان تمام باتوں کے باوجود گزشتہ کچھ عرصے سے الیکٹرانک میڈیا کی موجودگی نے تمام سیاست دانوں کا کچا چھٹا اور انکا اندر کا آدمی اس میڈیا نے کھول کر رکھ دیا ، یہ اور بات ہے کچھ الیکڑانک چینلز روٹی حلال کرنے کیلئے کچھ باتوں پر اپنی آنکھیں اور کان بند کرلیتے ہیں ، وہ جسکی پگڑی اچھالنا چاہئیں انکے archive شعبے میں ان لیڈران کی پرانی تقریریںہوتی ہیں جنہیں دکھانے میں نہائت ایمانداری سے بے ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ میڈیا کی فراوانی سے قبل پاکستان کے عوام کو اپنے محبوب لیڈران کی زبان درازیوں اور انکی تربیت سے واقفیت نہیں تھی، مگر اب کچھ بھی میڈیا سے پوشیدہ نہیں خصوصی طور پر انکی قلابازیاں۔ آج کی سیاست میںU. TURN, / SLIP OF TONGUE ٰٓ ٰٰٓٓٓایک عام بات ہوگئی ہے اور پاکستان کے عوام اب اپنے کسی لیڈر کی بات کو صحیح ماننے کو تیار نہیں کہ کل یہ کیا کہہ دے گا پتہ نہیں ۔الیکٹرانک میڈیا کے مزے لگے ہیں انکے archive شعبے سرگرم ہوگئے ہیں ، میاںنواز شریف ، شہباز شریف ، اور مسلم لیگ ن کی لیڈ ر شپ نے پی پی پی یا سابق صدر آصف علی ذرداری کے متعلق کیا کہا تھا ، اور اب کیا۔ کہہ رہے ہیں ، پی پی پی کی لیڈر شپ آصف علی ذرداری ، بلاول بھٹو کے مسلم لیگ ن ،بلکہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے کیا ارشادات تھے میاں نواز شریف اورشہباز شریف کے متعلق ، یہ سلسلہ چل نکلا ہے ، حالیہ وزیر اعظم عمران خان کے کیا خیالات تھے شیخ رشید، اور پرویز الہی کے متعلق ، اور جب یہ لوگ کسی کی تعریف کرنے پر آجاتے ہیں نہائت ڈھٹائی سے اپنے ماضی کے الفاظوں اور بیانا ت ضرورت وقت کے کی وجہ سے بھول جاتے ہیں۔ یہاں تک ٹھیک تھا عوام سمجھ بیٹھے تھے کہ ان لیڈران کا زبان کا کوئی ٹھکانہ نہیں ، انہیں سیاست دانوں نے ایک سوچ پھیلانے کی کوشش کی جو بھر پور منافقت کی آئینہ دار تھی کہ ’’ سیاست میں کچھ حرف آخر نہیں ہوتا ‘‘ یہ نہیں کہتے تھے کہ ہماری منافقت ہے کہ جو پہلے کہا تھا اب ہماری ضرورت ہے کہ اپنے پہلے بیان پر شرمندہ تو نہیں کم از کم اب ہمارا خیال انکے ’’نیک نامی ‘‘ کی بناء پر تبدیل ہوچکا ہے ۔ یہ زبان کی پھسلن کی گونج بھارت بھی جاپہنچی ہے ، ہندوستانی اداکار شتروگن سنہاء جو ہمارے سابقہ آرمی چیف اور صدر ضیاء الحق مرحوم کا قریبی دوست تھا انتخابی جلسے میں حال ہی میں سچ بول بیٹھا اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو آزادی کے عظیم لیڈران میں شمار کیا ، جب ہندوستانی قیادت نے اسکے کان مروڑے تو اس نے بھی کہہ دیا ہے کہ slip of tongue تھی۔ اس حد تک تومعاملے برادشت ہوسکتے تھے کہ یہ ہی سیاست رہی ہے ہمارے ہاں گنے چنے سو سے ڈیڑھ سو لوگ ہیں جو اقتدار کی تبدیلی کے ساتھ ادھر سے ادھر چھلانگ لگا لیتے ہیں جہاں سودا اچھے داموں بکے جہاں انکی قیمت اچھی لگے وہاں چلے جاتے ہیں مگر اب یہ جو ’’شیدہ ٹلی، صاحبہ، صاحب، انگلی ، بے بی، tehcnical fault جیسے الفاظ کا استعمال ہوچلا ہے اسکا کیا کیاجائے ؟؟ جبکہ شیخ رشید کو تو کسی اور کو technical fault نہیں کہنا چاہئے بات خود اپنی ذات تک آسکتی ہے ۔یہ الفاظ slip of thongue ہر گز نہیں بلکہ لگتا ہے slip of syestem کی طرف جارہے ہیں ، گھر پر اہل خانہ کے ہمراہ بیٹھ کر ان عظیم رہنمائوں کی بازاری زبانوںکامطلب شائد ان لیڈران کے اہل خانہ کو تو پتہ ہوگا عام عوام کے اہل خانہ کو نہیں پتہ ، اپنے بچوںجنہیں کل کا معمار کہاجاتا ہے انہیں اس اعلی قسم کی Vocabulary / terminolgies کاکیا مطلب بتائیں؟ ان رہنمائوںکے منہ سے نکلے ہوئے ان الفاظوں کو سینکڑوں مرتبہ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر دہرایا جاتا ہے اور مزے لے لے کر شرکاء مزید تباہ کن الفاظ میں اسکی تشریح کرتے ہیں۔ان الفاظوںمیں میں وہ الفاظ وہ تحریر نہیں کرسکتا جو وزیر اعظم کی نئی مشیر وزیر اطلاعات محترمہ ڈاکٹر فردوس اعوان کے الفاظ اعلی ہوتے ہیں پھر الیکٹرانک میڈیا سے زیادہ مادر پدر آزاد ہمار ا سوشل میڈیا پر ان باتوں کے متعلق جو کچھ لکھا جاتا ہے تو سوشل میڈیا کو بھی دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی ،اگر گھر میں سیاست سے قطعی عدم دلچسپی کی بنا پر نوجوان نسل ٹیلی ویژن یا ان لیڈران کے ارشادات اعلی نہ سننا چاہے تو سوشل میڈیا تو ایک عدد ٹیلفون کی شکل میںہر ایک کے ہاتھ میں ہے۔ مجبوری میں ہمیں حاضر اسٹاک سیاست دانوںسے یہ درخواست ہے کہ اللہ کے واسطے غیر پارلیمانی، غیرمہذب لفظوں سے پرہیز کر لیں چونکہ یہ لگتا ہے کہ ہم زبان کی پھسلن کے نام پر نظام کی پھسلن کی طرف جارہے ہیں ۔ عوام اور ملک کے نوجوان چور، ڈاکو ، لیٹروںکا مطلب بخوبی سمجھ چکے ہیں بقول عوام کے اسکا مطلب ہے جن سے لوٹی ہوئی رقم واپس نہیں لی جاسکتی ۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38