یکم مئی اور مہذب دنیا
جنید احمد
یکم مئی کا دن ہمیں ان مزدوروں کی یاد تازہ کرانے کا دن ہے جنہوں نے نہ صرف انے حقوق کی جنگ لڑنے بلکہ دوسرے محروم طبقوں کو بھی اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانے اور ظلم و ناانصافی کے خلاف لڑنے کی عظیم تحریک کو جنم دیا۔ آج کا دن جہد مسلسل اور عظیم قربانیوں کی اس لازوال داستان کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہے جو یکم مئی 1886ء کو صنتی دنیا کے ایک بڑے ملک کے ایک صنعتی شہر شکاگو میں رقم ہوئی۔ آج ریاست ہائے متحدہ امریکہ‘ جو عالمی حقوق کی آزادی کا علمبردار چیمپئن بنا پھرتا ہے۔ اس کا اپنا ماضی اتنا ہی داغدار ہے جتنا کہ اس کا موجودہ حال۔ اس رہتی دنیا تک یاد رہنے والی داستان کو رقم کرنے والے وہ سرفروش‘ نڈر‘ پُرعزم محنت کش ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے دنیا کے سامنے یہ مثال قائم کی کہ اپنے جائز حقوق کیلئے آواز اٹھانے والے ہمیشہ کیلئے اپنا نام بنا جاتے ہیں جبکہ ظلم و ناانصافی کرنے والا طبقہ چاہے جتنا بھی ہوشیار ہو‘ تاریخ میں ہمیشہ برے الفاظ میں یاد رکھا جاتا ہے۔
ان مزدوروں کے احتجاج کا بنیادی نکتہ اوقات کار کا دورانیہ آٹھ گھنٹے مقرر کرنے‘ جائز معاوضہ کا حصول اور دیگر معاشی و معاشرتی حقوق کا حصول تھا جوکہ صنعتی کارخانہ داروں اور ریاست باہمی گٹھ جوڑ سے ان کو دینے سے انکاری تھے اور ان کے خون پسینے کی کمائی سے اپنی تجوریاںبھرنے میں مشغول تھے۔ اگر ہم تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالیں تو ہمیں ہمیشہ کسی بھی معاشرے میں تین طبقات بھی نظر آئیںگے جو ریاستی امور کو چلاتے اور نظم و نسق کو قائم رکھتے ہیں۔ اول مذہبی طبقہ‘ 2 کاروباری اور تجارتی طبقہ اور 3 حکومتی اشرافیہ۔ جب تک ان کے باہمی مفادات بغیر کسی ٹکرائو/ اختلافات کے پورے ہوتے ہیں‘ ان کیلئے ہر طرف راوی چین ہی چین لکھ رہا ہوتا ہے اور جب کبھی ان کے باہمی مفادات آپس میں ٹکرا جائیں تو بھی یہ بڑھتے بڑھتے بعض اوقات خونریزی و جنگ و جدل تک بھی پہنچ جاتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں بھی اصل نقصان عوام کا ہی ہوتا ہے اور وہ بلاوجہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ گویا ہاتھیوں کی لڑائی میں نقصان ہمیشہ گھاس کا ہی ہوتا ہے۔ان عظیم محنت کشوں نے سب سے پہلے اوقات کار کا دورانیہ 8 گھنٹے کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے جدوجہد شروع کی اور اپنے احتجاج کو منظم کرتے ہوئے یکم مئی 1886ء کے دن جب شکاگو کے مزدو ہڑتال پر تھے تو حکمران طبقے اور سرمایہ دار صنعتکاروں نے بوکھلا کر ان کے احتجاج کو قوت کے بل بوتے پر کچلنے کا فیصلہ کیا۔ ریاستی دہشت گردی و غنڈہ گردی کا بدترین مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس اور فوج نے ان پر اس وقت شدید فائرنگ شروع کردی جب وہ سفید جھنڈے اٹھا کر پُرامن جلوس نکالے ہوئے تھے جس کی زد میں آکر درجنوں نہتے اور پُرامن مزدور اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ تحریک کے نمایاں و سرگرم رہنمائوں کی گرفتاری عمل میں لائی گئی جن میں سے 6 تختہ دار پر لٹکا دیئے گئے‘ لیکن تمام تر ریاستی جبر کے باوجود مزدوروں کی آواز دبائی نہ جا سکی بلکہ اس کا دائرہ اثر ملک سے نکل کر دنیا کے دیگر کئی ممالک تک پھیل گیا۔ یہ دراصل سرمایہ داری نظام کی زیادتیوں کے خلاف جنگ تھی جس نے بعد میں روس کے اشتراقی انقلاب کو جنم دیا۔یہ مزدوروں کی منظم تحریک تھی جس نے دنیا کے دیگر ممالک کو بھی فلاحی ریاست کے تصور کو اپنانے کی ترغیب دی اور اقوام متحدہ کو مزدوروں کے حقوق کے عالمی سطح پر قوانین بنانے پڑے جن کو اپنانا ہی ہر ملک کیلئے ضروری ہے۔ یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن مقرر کرنے اور اس دن تمام ملکوں میں عام تعطیل ہوتی ہے، اور اس دن ٹریڈ یونین و محنت کشوں کی مختلف تنظیمیں جلسے و جلوس منعقد کرتی ہیں اور یکم مئی 1886ء کے دن مزدوروں کو خراج تحسین پیش کرتی ہیں۔ ILO کے ذریعے کاغذی کارروائیاں تو بہت کی گئیں اور اوقات کارکادورانیہ زیادہ سے زیادہ آٹھ گھنٹے مقرر کرنے مزدوروںکے جائزحقوق کا خیال کرنے کا کام جگہوں پر ماحول صاف رکھنے، جبرو استحصال کا دروازہ بند کرنے وغیرہ جیسے قوانین کاغذی سطح پر تو بہت کئے گئے لیکن اگر عملی دنیا میں اس کاجائزہ لیں تو ہمیں یہ حقیقت واضح نظر آتی ہے کہ آج 129 سال گزرنے کے بعد بھی مزدوروں کی حالت زار میں چنداں فرق نہیں آیا اور وہ بدستور تذلیل، بھوک، بدحالی نامساعد حالات، لاقانونیت کا سامنا کرنے اور ان کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں اس سے تو اقبال بھی کہہ اٹھے تھے،
تو قادر عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تیری منتظر روز مکافات
ستم بالائے ستم،یہ کہ اکثر ممالک میں حکمران طبقات میں وہی افراد شامل ہیں جو صنعتی شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی چالاکی دیکھئے کہ عوام کے وہ حقوق جو بطور صنعتکار و سرمایہ داران کو عوام کودینے چاہئیں، حکومت میں آ کر ان ٹیکسوں کی رقم کو ان پر ہی خرچ کر کے احسان عظیم جتلاتے ہیں کہ انہوں نے عوام کی حالت بہتر کرنے کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کر دیا۔ بقول اقبال
کتنی عیاری سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
وطن عزیز پاکستان میں بھی مزدور کی حالت چنداں مختلف نہیں بلکہ بدترین استحصال کی صورت پیش کرتی ہے ۔کم از کم ماہانہ اجرت میں کسی بھی خاندان، گھرانہ کا ماہانہ بجٹ بنانے کے متعلق تو عدالت عالیہ بھی کہہ چکی ہے کہ ذمہ داران اس ماہانہ اجرت میں ایک گھرانہ کا ایک مہینہ کا بجٹ بنا کر دکھا دیں۔