مزدور تحریک کا آغاز یکم مئی 1886ء سے ہوا۔آج سے ایک سو تیس سال(130سال ) قبل شگاگوجیسے مشہور صنعتی شہر میں مزدور کے ساتھ سرمایہ دار انتہائی امتیازی سلوک روا رکے ہوئے تھے اُنھیں تیسرے درجے کا شہری بھی نہیں مانا جاتا تھا۔ زرعی غلامی سے اب وہ صنعتی غلامی کو بھی برداشت کرنا نہیں چاہتے تھے۔ اس وقت ان مزدوروں سے سولہ تا18گھنٹے کام لیا جاتاتھا اور بعد میں انہیں کارخانوں کے اندر بند کردیا جاتا تھااورمعاوضہ بھی اتنادیاجاتاکہ جس سے وہ صرف زندہ رہ سکتے ۔ اُس وقت اس ظلم کے خلاف مزدوروں نے ایک پرُامن تحریک کا آغاز کیا جس کو دبانے کے لیے اُس وقت کے سرمایہ داروں نے طاقت کے بل بوتے پر خون کی حولی کھیلی لیکن خون میں لتھڑے اور پھانسی کے پھندے پر بہادری سے جھولتے ہوئے محنت کشوں نے ہمت نہیں ہاری اور ثابت قدم رہے، یکم مئی886 1کوشروع ہونے والی مزدور تحریک بالآخرکامیاب ہوئی اور سرمایہ داروں کو مزدوروں کی تحریک کے سامنے جھکنا پڑا اور آٹھ گھنٹے اوقات کار کے علاوہ دیگر مطالبات کو ماناپڑا آج دنیا بھر کے محنت کش کے آٹھ گھنٹے اوقات کار مقر ر ہیں جو یکم مئی 1886مزدورتحریک کی عظیم فتح ہے ۔ یہ کہنا ہر گز غلط نہ ہوگا کہ شگاہوں کے مزدوروں کی اس غیر مصالحانہ جدوجہد نے بعد میں ساری دنیا کے محنت کشوں اور مزدوروں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کے ساتھ ساتھ تیز رفتاری سے اگے بڑھنے میں ایک تاریخی کردار ادا کیا ۔اگر پاکستان میں مزدورمحنت کشوںکی خوشحالی وترقی کے لحاظ سے سیاسی لیڈروں کا رول دیکھیں تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگا کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید پاکستان کی تاریخ میں وہ واحد سیاسی لیڈر تھے۔ جنہوں نے اپنی پارٹی کے منشورمیں پاکستان کے مزدوروں ،کسانوں کی ترقی وخوشحالی کے لیے اہم نکات شامل کیے اور جب وہ پاکستان کے پہلے جمہوری وزیراعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے اپنی پارٹی کے منشور کے مطابق جن نکات پر عمل کیا وہ مزدورں کی خوشحالی ،ترقی کے اقدامات تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے پاکستان بھر سے تمام بڑے بڑے کارخانوں ملوں،فیکٹریوں کوقومی ملکیت میں لے کر مزدورں، کسانوں کوان کی محنت کے مطابق حصے دار بنایا۔ پاکستان کی تاریخ میں آج تک مزدور طبقہ اتنی تعداد میں کبھی بیرون ملک نہیں گیا جتنی تعداد میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں بیرون ملک گیا۔ یہ ہی وہ عوامی ترقی وخوشحالی کے اقدامات تھے جسکی بناء پر بین الاقومی سرمایہ دار طاقتوں نے پاکستان کے رجعت پسندوں ، مفادپرستوں، سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے ساتھ مل کر ذوالفقار علی بھٹو شہید کے خلاف سازشیں شروع کردیں اور انکی حکومت کے خلاف اسلام کے نام پر تحریک چلائی۔
Documentaryبنانا، ٹاک شوکرانااور آرٹیکل لکھنا آسان ہے مگر ذرا ان محنت کشوں کا تو سوچئے یہ ننھے اور نازک ہاتھوں کے مالک بچے جو پاکستان کا مستقبل تھے مگر بدقسمتی سے حالات کی تلخی کے باعث کھیتوں میںکام کرنے پر مصروف ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم انکے چہروں کو مسکراہٹ سے بھر سکتے ہیں؟ ان کا مستقبل تاریکی سے نکال کر روشن کرسکتے ہیں؟تو جی ہاں! ایسا ممکن ہے مگر ضرورت صرف عملی اقدامات کی ہے نہ کہ باتوں کی مزدور رہنمائوں کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں مزدور کو نہ صرف بیروزگاری ، غربت اور مہنگائی کا سامنا ہے بلکہ گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہزاروں صنعتیں بند اور لاکھوں محنت کش بے روزگار ہوگئے ہیں۔
کارخانوں میں ٹھیکے داری نظام پورے جبر کے ساتھ اب بھی موجود ہے جس نے مزدوروں کو ذہنی طور پر مفلوج اور خوف زدہ کررکھا ہے۔ یعنی اطلاع اور نوٹس کے بغیر برخاست کرنے کے خوف سے پیداواری عمل کو بری طرح نہ صرف متاثر کیا ہے بلکہ نئی ذہنی بیماریوں کو جنم دیاہے۔ فیکٹریاں اور کارخانے عملاً ہر قسم کے لیبرانسیپکشن سے مبرا ہیں۔ جہاں ہیلتھ اور سیفٹی کے ملکی اور بین الاقوامی بنیادی اصولوں کو مجرمانہ حدتک نظر انداز کیا جارہا ہے۔ مختصراً یہ کہ پاکستان کے مزدوروں کو بحیثیت انسان اپنی بقا اور اپنے حقوق کے حصول کیلئے ایک منظم ٹریڈیونین اور مزدور تحریک کی اشد ضرورت ہے جو حالات کا مکمل ادراک رکھتی ہواور وہ مزدوروں پر سرمایہ داروں کی جانب سے مہلک حملوں کا جواب دینے کی ٹھوس حکمت عملی رکھتی ہو۔ محنت کش طبقوں کیلئے میں پاکستان کے وزیراعظم سے مطالبہ کرتی ہوں کہ لیبر کلاس کے لیے ایسی خصوصی پالیسیاں بنائی جائیں جنہیں مکمل طور پر نافذکیا جاسکے ۔کیونکہ یہی محنت کش لوگ دوسروں کے تو گھر بنا کر اُنکے خواب کی تکمیل کر دیتے ہیں مگر بدقسمتی سے خود گھر کی خواہش سے محروم رہتے ہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024