آج دنیا بھر میں شکاگو کے ان سر فروشوں کے ساتھ تجدید عہد وفا کیا جارہا ہے جنہوں نے 1886ء میں اپنی جانوں کی قربانی دیکر تاریخ میں ایک سنہرے باب کا اضافہ کیا تھا۔ یوں تو تاریخ انسانی خون سے رنگیں ہے لیکن شکاگو میں بہنے والا خون اس لئے مختلف اور منفرد ہے کہ یہ اقتدار قوت یازرو جواہر کے حصول کیلئے نہیں بہا بلکہ مجبور و محکوم محنت کش اپنی محنت کا جائز حق مانگ رہے تھے۔ شکاگو کے محنت کشوں نے اپنے خون کا نذرانہ دیکر استحصالی قوتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ آٹھ گھنٹے کام آٹھ گھنٹے آرام اور آٹھ گھنٹے دیگر ذاتی مصروفیات کیلئے مختص کرنے کے مطالبہ کو بالآخر تسلیم کرلیا گیا اور اس طرح اس عظیم قربانی کے نتیجے میں محنت کی عظمت کو تسلیم کیا گیا۔ آج پوری دنیا کے محنت کش جلسے و جلوسوں کی صورت شکاگو کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ سوا صدی قبل جب سرمایہ دارانہ نظام وجود میں آرہا تھا اور نئے نئے کارخانے وصنعتوں کا قیام عمل میں لایا جارہا تھا تو اس نظام کی فطرت میں شامل محنت کا استعمال ہی دراصل شکاگو کے واقعہ کا سبب بنا تھا۔ کارخانوں میں کام کرنیوالے مزدوروں کا درجہ غلاموں کا ساتھا اور وہ تمام سہولیات و مراعات سے محروم تھے۔ نہ تو کوئی اوقات کار تھے اور نہ ہی معاوضہ کا کوئی تعین تھا بلکہ مزدوروں کو فیکڑیوں ہی میں قید رکھ کر مسلسل کام لیا جاتا تھا۔ سرمایہ داروں کو صرف اور صرف پیداوار اور منافع سے غرض تھی اور اس کیلئے 16تا 18گھنٹے مسلسل کام لیا جاتا تھا۔ گویا کارخانے بیگار کیمپ بنے ہوئے تھے صلیب ودار کے اس ظالم نظام میں مزدوردں کو اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے کی قطعاً اجازت نہ تھی کہ اقتدارو اختیار سرمایہ داروں کا ہمنوا تھا۔ اس مسلسل ظلم و استحصال نے مزدورں میں متحد و منظم ہونے کا شعور بیدار کیا اور مزدور تمام تر جبر ظلم وستم و رکاوٹوں کے باوجود مختلف تنظیمی صورتوں میں جمع ہونا شروع ہوگئے۔ استحصالیوں کو یہ عمل کسی صورت قبول نہ تھا اس لئے انہوں نے مزدوروں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیئے لیکن مزدور اتحاد کی زنجیر مزید مضبوط و قوی ہوتی گئی اور سرمایہ داروں کے خلاف ان کی نفرت بڑھتی گئی۔ یورپ، جاپان، اسٹریلیا و امریکہ وغیرہ میں 1880ء ہی میں مزدور اپنے حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد کررہے تھے۔ 1882ء میں جاپان، 1885ء میں فرانس میں ہونے والی مزدورں کی ہڑتالیں اس بات کی غماز تھیں کہ مزدور مزید ظلم برادشت کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ اسی دوران امریکہ میں بھی محنت کشوں نے تین ہزار سے زائد ہڑتالیں کی جن میں ایک لاکھ سے زائد کارکنوں نے شرکت کی اور وقت کے فرعونوں کے محلات میں لرزہ طاری کردیا۔ شکاگو میں مزدورں کا پہلا جلسہ 17اپریل 1886ء کو ہوا جس میں 21 ہزار مزدورں نے شرکت کی۔ 25اپریل کو ہونے والے جلسے میں مزدوروں کی تعداد 25 ہزار سے بھی زائد تھی۔ یکم مئی 1886ء کو اسی تسلسل میں مزدور رہنماؤں پارسنز اور اسکی بیوی کی قیادت میں 40 ہزار سے زائد مزدوروں نے شکاگو کی سڑکوں پر جلوس نکالا …کورمک فیکٹری میں اوقات کار کے تعین کیلئے ہڑتال ہوئی انتظامیہ نے اپنے پالتو غنڈوں کے ذریعے ہڑتالی کارکنوں پرتشدد کروایا۔ اسی دوران فیکٹری کے باہر کھڑے ہوئے معصوم مزدورں پر پولیس نے گولیاں بر سانا شروع کردیں اور چھ مزدور موقع پر شہید ہوگئے۔ اس واقعہ کیخلاف 4 مئی 1886ء کو مزدورں نے پر امن احتجاجی جلسہ کا انعقاد کیا جس پر پولیس نے بندوقوں کے منہ کھول دیئے اور 10 مزدوروں کو شہید کردیا۔ امن کا سفید جھنڈا تھامے نہتے اور بے قصور محنت کشوں کو خون سے شرابور ہوکر سرخ ہوگیا جیسے آج بھی محنت کش جدوجہد کی علامت کے طور پر مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔ شکاگو کی سڑکوں پر بہنے والا یہ خون قید خانوں اور پھر پھانسی گھاٹ تک جا پہنچا۔ آٹھ بے گناہ مزدور رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا اور جرم ثابت کئے بغیر انہیں پھانسی دے دی گئی۔ پھانسی کا پھندا چومنے والے عظیم مزدور رہنماؤں نے کہا۔’’ ہم خوش ہیں کہ ایک اچھے کام کیلئے جان دے رہے ہیں‘‘۔ اور تم ہمیں مارسکتے ہو مگر ہماری تحریک کو نہیں دبا سکتے، اور تاریخ نے ثابت کیا کہ وہ تحریک دبی نہیں بلکہ اس میں مزید شدت آئی اور آج یوم مئی ظالم و مظلوم کے درمیان ایک شناختی لائن بن چکی ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024