تاریخِ اسلام میں جب سے خاندانی بادشاہت نے رواج پایا ہے تب سے سلاطین و ملوک مسلمانوں کو باہم متحارب فرقوں میں تقسیم در تقسیم کرتے چلے آ رہے ہیں- اِس حکمتِ فرعونی کی تازہ ترین مثال بحرین میں شیعہ سُنّی جنگ و جدل ہے- حکومت نے اِس جنگ و جدل کو مزید ہوا دینے کی خاطر بحرین کی نوجوان شاعرہ آیات کا ایک جھوٹا بیان خوب مشتہر کیا ہے- اِس بیان میں یہ اعلان داغا گیا ہے کہ ’’میں شیعہ ہوں اور سُنیّوں سے نفرت کرتی ہوں-‘‘اِس بیان کی ایک ایسے وقت میں اشاعت کی گئی جب یہ طالب علم شاعرہ قید و بند میں بہیمانہ تشدد کا شکار تھی- حال ہی میں جناب نذیر لغاری نے آیات کی چند نظموں کا اُردو ترجمہ اپنے تعارفی نوٹ کے ساتھ شائع کیا ہے-جناب نذیر لغاری نے شاعرہ سے متعلق اپنی تعارفی تحریر میں بتایا ہے کہ: ’’23 -فروری 2011ء کو اس چوراہے پر آیات القرمزی نے ہزاروں مظاہرین کی موجودگی میں پُرجوش انداز میں ایک نظم پیش کی- اس نظم میں بحرین کے وزیراعظم پر تنقید کی گئی تھی- اس وقت آیات القرمزی کی عُمر محض 20 سال تھی، پورا مجمع دم بخود ہو کر اس کی نظم سُن رہا تھا- اس واقعے کے 11 روز بعد 6 مارچ 2011ء کو آیات القرمزی نے ایک بڑے مجمعے کے سامنے ایک اور نظم پڑھی- اس نظم میں براہِ راست ریاست کے حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا- اسی روز یہ نظم یوٹیوب، ٹوئٹر اور سماجی رابطوں کی دیگر ویب سائٹس پر دکھائی جانے لگی- اُن کی یہ نظم پورے بحرین میں پھیل گئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آیات القرمزی کا ناراض، غصیلا اور مشتعل لہجہ پوری عرب دنیا میں پھیل گیا-‘‘چنانچہ آیات کو گرفتار کر لیا گیا اور بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا- تشدد کی کہانیاں عام ہوئیں تو بحرین کی پارلیمنٹ کے اٹھارہ اراکین اپنی رُکنیت سے مستعفی ہو گئے- اِن مظالم کیخلاف ایران میںزبردست مظاہرے شروع ہو گئے- ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے دُہائی دی تو آیات کو جیل سے رہا کر کے گھر میں نظربند کر دیا گیا- تعزیر و احتساب کے اِس سارے عمل سے کہیں زیادہ وہ جھوٹا بیان اذیّت ناک ہے جس میں شیعہ سُنّی منافرت کی آگ بھڑکا کر اپنی خاندانی بادشاہت کی حفاظت کا سامان کیا گیا ہے- مجھے یقین ہے کہ بحرین کا کوئی بھی شہری آیات پر اِس بُہتان کو تسلیم نہیں کر سکتا- نوجوان طالب علم شاعرہ کی نظمیں اِس بہتان کی مؤثر ترین تردید ہیں- ایک نظم میں حکمرانوں کو بتایا گیا ہے کہ: ’’شیعہ سُنّی تو بھائی بھائی ہیں /مگر تمہارا دِل پتھر کا ہو چکا ہے/ تمہاری دھوکے بازی تمہارے اُستاد کی دھوکے بازی پر سبقت لے گئی ہے‘‘-
جناب نذیر لغاری نے اِس جواں سال شاعرہ ، آیات کی جن نظموں کا ترجمہ پیش کیا ہے اُن میں سے ایک نسبتاً طویل نظم کا عنوان ہے : ’’شیطان اور سُلطان میں مکالمہ‘‘- اِس نظم سے استفادہ کرتے وقت علامہ اقبال کی متعدد نظمیں میرے کانوں میں گونجنے لگیں- پھر مجھے علامہ اقبال کی یہ حسرت یاد آئی کہ ’’ ایک ہی سب کا نبی ، دین بھی ، ایمان بھی ایک/کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک‘‘اور پھر اقبال کی یہ للکار پوری دُنیائے اسلام میں گونج اُٹھی:
اے کہ نشاسی خفی را از جلی، ہُشیار باش!
اے گرفتارِ ابوبکر و علی، ہُشیار باش!
بادشاہوں کی سرپرستی میں فرقہ بندی ہی ، صدیوں سے مسلمانوں کی حیاتِ نو کے خواب کو مٹی میں ملاتی چلی آ رہی ہے- اِس پہ مجھے اپنی ایک بوسنیاکی طالبہ کے اندیشے یاد آئے ہیں-جرمنی کی ہائیڈلبرگ یونیورسٹی میں خزاں سمیسٹرکی آخری کلاس ختم ہوئی تو ایک طالبہ نے مجھ سے بات کرنے کا وقت مانگا- جب اُس نے بات شروع کی تو میں حیرت زدہ رہ گیا - اُس نے بتایا کہ اُس کا نام ہاڈی نہیں بلکہ ہادیہ ہے - اُس کا خاندان برسوں پہلے کاروبار کی غرض سے بوسنیا سے جرمنی کے شہر سٹُٹ گارٹ آ بسا تھا - اب میں اِس یونیورسٹی کو چھوڑ کریہاں سے دُور ایک اور یونیورسٹی میں جا رہی ہوں- میں نے پوچھا کہ کیا اُس یونیورسٹی نے زیادہ پُرکشش تعلیمی وظیفہ دے دیا ہے؟ اِس پر اُس نے بتایا کہ وہاں میرے لیے سِرے سے کوئی وظیفہ ہے ہی نہیں- میں ہائیڈلبرگ میں اپنے وظیفے سے دستبردار ہو کر وہاں جا رہی ہوں - اب مجھ سے یہاں رہا نہیں جاتا- بات یہ ہے کہ اب میں واقعتا مسلمان ہو چکی ہوں(علامہ اقبال : مسلماں کو مسلماں کر دیا طُوفانِ مغرب نے)- میرے پُرانے دوست حیران ہیں اور ہر روز پوچھتے ہیں کہ پہلے تو تم ہماری طرح پب میں بھی جایا کرتی تھی اور اُن تمام افعال اور اشغال میں ہمارے ساتھ شریک ہوا کرتی تھی جو یہاں کے نوجوانوں کی زندگی کا معمول ہیں- اب کیوں نہیں؟ تو میں کس کس کو سمجھائوں کہ اب مجھے اسلام کا مطلب سمجھ آ گیا ہے- اب میں ایسا نہیں کر سکتی- آئندہ سمیسٹر جب میں یہاں سے دُور بہت دُور ہیمبرگ یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کا آغاز کروں گی تب ہر کسی کو یہ پتہ چل جائیگا کہ میںجرمن طالب علموں کی سی طالبہ نہیں ہوں- میںایک مسلمان لڑکی ہوں - اِس پہ میں نے اُس کی اِس کایا کلپ کا سبب جاننا چاہا تو اُس نے بتایا کہ جب فسادات ، قتل و غارت اور تباہی و بربادی سے بچ کر ہمارے رشتہ دار بوسنیا سے ہمارے ہاں پہنچنے لگے تب یہ سوال پیدا ہوا کہ ہماری مسلمان شناخت کا مطلب کیا ہے؟ ہمیں ہمارے ہمسائے مسلمان سمجھ کر مظالم کا نشانہ بناتے چلے جا رہے ہیں اور ہمیں پتہ ہی نہیں کہ مسلمان ہونے کا مطلب کیا ہے؟ بس یہ ہے وہ سوال جس نے ہمیں یہ سوچنے اور سمجھنے پر مجبورکر دیا ہے کہ اپنی دینی شناخت کو سمجھیں اور اُس کے مطابق زندگی بسر کریں- اِس پر میں نے اپنی اُس ذہین طالبہ کو مبارکباد دی اور اِس توقع کا اظہار کیا کہ بہت جلد پورے بوسنیا کو اپنی کھوئی ہوئی شناخت مل جائے گی -ہادیہ نے میری اِس رجائیت پسندی کو قبول نہیں کیااور بتایا کہ یہاں جرمنی کے کیمپوں میں بوسنیا کے جو مسلمان مقیم ہیں اُن سے ملنے اور اُنہیں تحائف پیش کرنے کیلئے یہاں آباد جو مسلمان جاتے ہیںوہ اپنے سوالات سے اُنہیں پریشان کر دیتے ہیں- ایک سکہ بند سوال یہ ہے کہ مان لیا آپ مسلمان ہیں مگر یہ تو بتائیں کہ آپ کا مسلک کیا ہے ؟ آپ مسلمانوں کے کس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں؟بس اِس طرح کے سوالات اُنہیں پریشان کرنے لگے ہیں-وہ تو یہی سمجھتے ہیںکہ اسلام ایک ہے ، توحید، رسالت اور ختمِ نبوت!ہادیہ اِس سنگین اندیشے میں مبتلا تھی کہ اسلام کے آفاقی پیغام کو فرقہ بندی کے تنگ حصاروں میں بانٹ دینے سے یورپ کا مسلمان نِت نئی اُلجھنوں میں مبتلا ہوتا چلا جائیگا اور یہ نہ اسلام کے حق میں اچھا ہے نہ مسلمانوں کے حق میں-یہ سُن کر میں نے اُس سے پوچھا لفظ ہادیہ کا مطلب پتہ ہے - اُس نے کہا کہ اب پتہ چل گیا،تو میں نے کہا کہ خوب پڑھو ، خوب غور کرو، علم اور عمل کی دُنیا میں برق رفتار بن جائو، تشکیک ہی سے یقینِ محکم کے راستے نکلتے ہیں-آج میںپھر اِس سوال پر غور کر رہا ہوںکہ یورپ کی ہادیہ اور مشرقِ وسطیٰ کی آیات کے فکر و عمل کا سرچشمہ کہاں ہے ؟ فرقہ وارانہ منافرت میں یا آفاقی اسلامی مسلک میں؟؟
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38