انتخابات کیا ہیں۔ اقتدار کے لئے دور حاضر کی پانی پت کی ایک تحریری تقریری جنگ، ایسی جنگ جس میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ الیکشن کمشن جتنی مرضی کوشش کرے، کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طرح سب کچھ ممکن ہو جاتا ہے۔ اقتدار کی جنگ کے ہتھیار ضرور بدلتے ہیں، انداز بدلنے میں عرصہ بلکہ صدیاں لگ جاتی ہیں۔ اقتدار کی جنگ میں نئے ہتھیاروں کا ہی یہ کمال ہے کہ صدر زرداری ایوان صدر میں بظاہر خاموش کر دئیے گئے ہیں لیکن سب جانتے ہیں الیکشن کمشن بھی نگران حکومتیں بھی اور عدلیہ کے فاضل ارکان بھی کہ پی پی پی کے عملی لیڈر اب بھی وہی ہیں اور انہی کی جادونگری کی ہدایات پر ان کے سیاسی دستے پینترے بدل بدل کر لڑ رہے ہیں۔ اقتدار کی جنگ کے نئے ہتھیاروں کا کمال ہی ہے کہ مسلم لیگ ن کے ایک حریف سابق صدر پرویز مشرف اپنے گھر کی جیل میں بند ہونے کے باوجود میڈیا کے بقول سوشل میڈیا میں مقبول ترین سیاسی لیڈر بنتے جا رہے ہیں۔ اقتدار کی اس جنگ کا ایک پہلو البتہ نیا نہ سہی لیکن توجہ طلب ضرور ہے۔ حالیہ پانی پت کے معرکے میں بعض سیاسی جماعتوں کے سابق وزراءاور ارکان اپنی سپاہ کے لئے پورس کے ہاتھی ثابت ہو رہے ہیں۔ پی پی پی میں یہ ”سابق وزرا/ ارکان ہیں جو اقتدار کے زمانے میں لوٹ مار کی شہرت کی بلندیوں تک پہنچے یا پہنچائے گئے۔ دو سابق وزرائے اعظم پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی کے فرزند، وزیر مذہبی امور مخدوم امین فہیم، سندھ کے بعض وزرا اور بہت سے دوسرے معززین اس صف میں شامل ہیں۔ جن میں بعض نے الزامات کو لغو قرار دیا لیکن بد سے بدنام برا کی ذیل میں تو آ گئے اور پارٹی پر اب پورس کے ہاتھیوں کی طرح اثرانداز ہو رہے ہیں۔ اس طرح مسلم لیگ ن کے بعض ارکان کبھی جعلی ڈگریوں کے حوالے سے کبھی امتحانی کرپشن کی بنیاد پر پارٹی کی بدنامی کا باعث بنتے رہے ہیں۔ اگرچہ میاں صاحب نے ان کی چھانٹی ساتھ ساتھ کی مگر ایک تاریخ تو بہرحال بنتی رہی۔ اب اقتدار کی تازہ جنگ میں کچھ سابق ارکان جن میں ہمخیال بھی شامل ہیں۔ ٹکٹ نہ ملنے کے باعث پارٹی کے لئے پورس کے ہاتھیوں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کی کوششوں سے سب محرومان ٹکٹ پورس کے ہاتھی نہیں بنے جیسے لاہور میں حاجی اللہ رکھا جو اب بھی پارٹی کے ساتھ ہیں بلکہ ملتان سمیت دوسرے شہروں میں میاں صاحب کے شیر کے پہنچنے سے پہلے کے انتظامات میں مصروف ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ٹکٹ سے محروم اچھے سابق ارکان اسمبلی کے حلقوں میں ان کے سپورٹروں کی بے چینی نمایاں ہے۔ مجھے گزشتہ ہفتے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی دو اہم کارنر میٹنگز میں ذاتی طور پر حاضر ہونے کا موقع ملا۔ یہ پی پی 146 کا حلقہ ہے جو کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ ہوا کرتا تھا۔ پہلی کارنر میٹنگ ڈرائی پورٹ کے پارک میں مسلم لیگ ن کی تھی جس میں پرجوش مسلم لیگی کارکنوں نے تالیوں کی گونج میں سابق رکن اسمبلی حاجی اللہ رکھا کا استقبال کیا۔ یہ اعتراف تھا ان کی پانچ برس تک اس حلقے میں ان کی خدمات کا۔ بڑا سٹیج لوگوں سے بھرا مجمع شیخ روحیل اصغر اور حاجی اللہ رکھا کے بینر۔ چند لمحوں کے بعد شیخ روحیل اصغر آئے اور سٹیج سے حاجی اللہ رکھا اور حاضرین نے ایک ساتھ ان کو خوش آمدید کہا۔ مجھے یہ منظر اچھا لگا کیونکہ گزشتہ پانچ برسوں میں ان دونوں حضرات کے درمیان فاصلے ہی محسوس ہوتے رہے۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ اچانک پورس کے ہاتھیوں کے بچے کہیں سے ابھرے۔ ذرا سی بات پر جھگڑنے کا آغاز کیا اور پھر یوں لگا کہ مسلم لیگی آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ کھانے کی درجنوں دیگوں کے ڈھکن ایک دوسرے پر پھینکے جا رہے تھے۔ گالم گلوچ، مکہ بازی اور آخر میں فائرنگ۔ ایک ایسی بڑی میٹنگ جس کا آغاز محبت سے ہوا جس میں علاقے کے دونوں رہنما محبت سے ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔ یہ اپنی سپاہ کو کچلنے والے کون تھے؟ اگلے روز بدمزگی کی خبریں تو چھپیں لیکن نہ کھل سکا پس دیوار کون ہے؟ میں نے دوسری کارنر میٹنگ لاہور کے نوجوانوں کی رجسٹرڈ تنظیم آزاد ویلفیئر فاﺅنڈیشن کی طرف سے تحریک انصاف کے اسی حلقے سے امیدوار جمشید اقبال چیمہ کے ساتھ دیکھی، آزاد ویلفیئر فاﺅنڈیشن لاہور میں خون کا عطیہ دینے والے اور نوجوان کے لئے سٹڈی سرکل سمیت متعدد موضوعات پر ثقافتی علمی ادبی تقریبات منعقد کرنے والی تنظیم ہے۔ میں نے دیکھا کہ وہاں پاکستان مزدور محاذ کے جنرل سیکرٹری شوکت چودھری، ریلوے یونین کے قائد فضل واحد، سینئر ایڈووکیٹ محمد اقبال ظفر سمیت دانشوروں کی ایک بڑی تعداد حاضر تھی۔ نوجوانوں سے ہال کھچا کھچ بھرا تھا اور جمشید اقبال چیمہ نے (جن کے بارے میں پتہ چلا کہ انجینئرنگ اور اکنامکس (ایگری) میں بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں اور یونیورسٹیوں میں تدریس اور ایگری بزنس کو ایک ساتھ چلا رہے ہیں) فاﺅنڈیشن کے صدر انیب ظفر کے سپاسنامہ کے جواب میں مختصر گفتگو میں ثابت کیا کہ دوسروں پر کیچڑ اچھالے بغیر بھی اپنی بات کی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ غلط ہے کہ جیسی عوام ویسی قیادت۔ سچ یہ ہے کہ قیادت درست ہو تو عوام ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ ہماری قیادت ٹھیک نہیں اس لئے قوم مقروض اور ملک میں اندھیروں کا راج ہے۔ ٹریڈ کی بجائے زراعت پر فخر رہا حالانکہ اصل ترقی کی بنیاد ٹریڈ اور ویلیو ایڈڈ مصنوعات ہیں۔ یہاں بھی باتیں بہت ہوئیں لیکن ایک بات اہم تھی کہ کسی طرف سے پورس کے ہاتھیوں کی بوباس محسوس نہیں ہوئی۔ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ ن تحریک انصاف ہو یا کوئی دوسری جماعت۔ اس بار اقتدار کی اس جنگ میں سب کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ بہت سی سیٹوں پر پارٹی کی مجموعی ساکھ کو سپاہ پر دوسروں سے زیادہ اپنی ہی صفوں کے بھاری پاﺅں خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024