بدھ‘ 20 جمادی الثانی 1434ھ ‘ یکم مئی 2013
اٹک کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی زبان جوش خطابت میں پھسل گئی اور ان کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا کہ ” 11مئی کو عوام شیر کے نشان پر مہر لگائیں“ ساتھ کھڑے ساتھی کے ٹوکنے پر انہوں نے اپنا جملہ درست کیا اور کہا کہ ” بلے پر مہر لگائیں“ کسی شاعرنے کیا خوب کہا ہے ....
بات چھوٹی اثر بھی دوگنا
اچھی لکنت زبان میں آئی
عمران خان کے بھولے پن اورخوش گفتاری کے توہم پہلے ہی قائل ہیں مگر معلوم نہیں تھا کہ وہ ایسے پھسل پڑیں گے اب جملہ بازی کا فن بھی انہوں نے الیکشن مہم میں سیکھ لیا ہے تو ذرا احتیاط سے کام لیں، کیونکہ یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں۔ اس وقت اصل مسئلہ ایک ایسی قوم کی قیادت کا ہے جو عرصہ دراز سے شتر بے مہار بنی ہوئی ہے ‘ خود عمران بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ ہم ایک نیا پاکستان بناناچاہتے ہیں جہاں کرپشن اقربا پروری اور سفارش کی بجائے میرٹ،انصاف اور دیانت داری سے کام لیاجائے گا۔کاش اس ملک کو کوئی ایسا مخلص رہنما دستیاب ہوجائے جو واقعی اسکے دکھوں کا مداوا کرے اور اسے ترقی اور خوشحالی کی راہ پر ڈال دے ورنہ شیر پر مہر لگانے کی بات سن کر تو بہت سے مسلم لیگی بے ساختہ خوشی کے مارے کہہ اٹھے تھے....ع
”سچ منہ سے نکل جاتا ہے کوشش نہیں کرتا“
٭....٭....٭....٭
بلاول نے الیکشن مہم کی ذمہ داری مجھے سونپ دی ہے، اس وقت طالبان کے حامیوں اور مخالفین میں جنگ ہورہی ہے۔ رحمن ملک....
میں جانتا ہوں اس معرکہ کا انجام
جس معرکہ کے ” ملک“ ہوں غازی
لگتا ہے بلاول نے اپنی والدہ کی پارٹی سے اس کے مشن سے غداری کرنے والوں کو ٹھکانے لگانے کا تہیہ کرلیا ہے، جو 5سال اقتدار میں رہنے کے باوجود ” شہید بی بی “ کے قاتلوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچاسکے۔ اس لئے انہوں نے رحمن ملک جیسے کردار کو جن کا بیانات اور حقائق بدلنے میں کوئی ثانی نہیں پارٹی کی انتخابی مہم چلانے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ سوائے صدر آصف علی زرداری کے کون ہے جو رحمن ملک سے خوش ہے۔ پیپلز پارٹی کے سارے رہنما کارکن اور پاکستان کے عوام سب ان کی وزارت داخلہ کے ” مزے “ لوٹ چکے ہیں اور ان کے دور میں جو ملک اور عوام کا حشرا ہوا اور ان سانحات کے بعد جس طرح کالر میں رومال سجائے وہ وضاحتیں اور اس کے بعد انکی تردید کرتے پھرتے تھے اس سے سب واقف ہیں۔ اس صورتحال میں تو اگر خود بلاول آگے بڑھ کر اپنی منتشر پارٹی کی قیادت کرتے اور الیکشن کے میدان میں نکل آتے تو آج بھی بھٹو اور شہید بی بی کے دیوانے ان کو مایوس نہ کرتے اور ووٹوںسے نوازتے، مگر رحمن ملک جنہیں خود پی پی پی کے رہنما ” جھوٹوں کا سردار“ کا خطاب دے چکے ہیں پر کون اعتبار کرے گا اور انکی مہم کا حصہ بنے گا۔خطرہ تو یہ ہے کہ کہیں عوام ان کا غصہ پیپلزپارٹی پر نہ نکالیں اور ووٹ کسی اور کو دے ڈالیں۔
٭....٭....٭....٭
بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ کے اہلخانہ تو عرصہ سے اسکی رہائی کیلئے درخواستیں دے رہے تھے اور یہ ان کا حق بھی ہے جس پر کسی کو بھی اختلاف نہیں مگر گذشتہ روز بھارت سرکار نے بھی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اپنے جاسوس کی رہائی کا جو مطالبہ کیا ہے اس سے ہر صاحب دل کے سینے میں ایک ٹیس سی اٹھی ہے۔
ایک ایسا ملک جہاں قدم قدم پر مسلم اقلیت کو آئے روز ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جاتا ہے جسکی 7لاکھ افواج ایک کروڑ مظلوم کشمیریوں کو گزشتہ 65 برسوں سے بری طرح کچل رہی ہے پوری وادی ایک جیل کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ یہ صاحب دل اسی عظیم جمہوریت سے سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ مظلوم انسان نہیں ہیں۔ کیا ان کے حقوق نہیں ہیں کہ ان پر ہونے والے مظالم پر اس جمہوری ملک کا دل نہیں پسیجتا۔ سربجیت سنگھ پر ترس کھانے والوں کو اس طرف بھی اک نگاہ کرنی چاہیے کیونکہ....
آپ ہی اپنی اداﺅں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
٭....٭....٭....٭
پنجا ب میں بڑے جلسوں کے باوجود ہمیں 2سو ووٹ نہ ملے عمران کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا:اسفند یارولی کا بیان۔
چلئے مان لیتے ہیں کہ بڑے بڑے جلسے اور جلوس عوامی حمایت مانپنے کا پیمانہ تو ہوتے ہیں مگر الیکشن میں کامیابی کی کنجی نہیں ہوتے مگر جناب اسفند یار صاحب یہ بھی دیکھیں کہ عمران خان کے ” سونامی“ نے ہی تو الیکشن کے سمندر میں تلاطم پیدا کررکھا ہے ورنہ کہاں یہ عالم کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کا سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا سرحد میں اے این پی اور جے یو آئی کا جبکہ بلوچستان میں پشتونخواہ عوامی پارٹی اور بی این پی وغیرہ کا طوطی بول رہا تھا اور کہاں اب یہ حال ان سب کو ” بلے باز سجنا“ سے پریشانی محسوس ہورہی ہے اور اسفندیار صاحب کی اس پریشانی میں حاجی بلور صاحب بھی برابر کے شریک نظر آرہے ہیں اور کہتے ہیں کہ کروڑوں کے اشتہار نہیں دے سکتے۔ ارے بابا خان صاحب آپکی مہربانیوں سے تو اربوں کھربوں روپے کی مالیت ” پاکستان ریلوے“ کا بولو رام ہوگیا۔ چھکڑا بسوں اور ٹرکوں والوں کی ” دیوالی“ ہوگئی۔کیا آپ کے یہ فیض یافتہ الیکشن مہم میں آپ کو چند کروڑ کا ” نذرانہ“ بھی نہیں دے سکتے۔ ذرا ہمت کریں، باہر نکلیں میدان میں آئیں اور ” لالٹین“ کی روشنی سے اس اندھیرے میں ڈوبے ملک میں الیکشن مہم چلائیں تو مزہ آجائے گا آخر 5سال ” کتاب“ اور ” پتنگ“ کے ساتھ ”لالٹین“ بھی اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہے اور بہتی گنگا میں خوب مل مل کر رہاتھ دھوتی رہی ہے، عمران کو ووٹ ملے نہ ملے الیکشن کا مزہ تو آرہا ہے سب کو....