دنیا 2025ء میں بھی شدید جغرافیائی اور سیاسی بحرانوں میں گھری ہوئی ہے۔ یوکرین اور غزہ میں جنگوں کے علاوہ کئی دیگر تنازعات بھی دنیا کے امن اور استحکام کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی، افریقی ممالک میں خانہ جنگی، اور تائیوان و جنوبی چین کے سمندر میں بڑھتی ہوئی کشیدگیاں عالمی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ ان تمام تنازعات کے پس پردہ سیاسی، اقتصادی اور جغرافیائی عوامل کارفرما ہیں، جو ان مسائل کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔۔
یوکرین اور روس کی جنگ، جو 2022ء میں روسی جارحیت کے ساتھ شروع ہوئی تھی، تین سال گزرنے کے باوجود شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ یوکرین کو مغربی ممالک سے بڑی مقدار میں فوجی اور مالی امداد مل رہی ہے، لیکن روس کی طرف سے شدید حملے اور قبضے کی کوششیں جاری ہیں۔ میدان جنگ میں صورتحال مسلسل بدل رہی ہے، جہاں یوکرینی افواج کچھ علاقے واپس لینے میں کامیاب ہوئی ہیں، وہیں دوسری طرف روس بھی اپنے دفاعی مورچے مضبوط کر رہا ہے۔
مغربی ممالک کی عائد کردہ اقتصادی پابندیاں روسی معیشت کو متاثر تو کر رہی ہیں، لیکن چین، ایران اور شمالی کوریا جیسے ممالک کے ساتھ ماسکو کے تعلقات اس کیلئے ریلیف کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ ادھر، یوکرین کو مغربی امداد کی فراہمی میں سیاسی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں،۔
سفارتی کوششیں مسلسل ناکام ہو رہی ہیں۔ ترکی اور ویٹیکن جیسے ممالک نے ثالثی کی کوشش کی، لیکن روس اور یوکرین اپنے سخت مؤقف پر قائم ہیں۔ جنگ کے باعث لاکھوں یوکرینی شہری بے گھر ہو چکے ہیں، اور انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ غزہ کی جنگ ایک بھیانک انسانی المیہ بن چکی ہے7 اکتوبر 2023ء کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پر شدید فوجی کارروائی کی، جس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور شہر کا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ 2025ء کے اوائل تک، غزہ کے حالات بد سے بدتر ہو چکے تھے۔ اب تک لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ خوراک اور پانی کی شدید قلت، اور طبی سہولیات کی تباہی کے باعث انسانی زندگی اجیرن بن چکی ہے۔ عالمی دباؤ پر اسرائیل اور حماس میں جنگ بندی کا عبوری معاہدہ ہوا ہے جس کی اسرائیل مسلسل خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔سیاسی سطح پر صورتحال انتہائی پیچیدہ ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کمزور ہو چکی ہے، جبکہ حماس اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ خطے کے بڑے ممالک، جیسے کہ مصر، ترکی اور سعودی عرب، سفارتی کوششوں میں مصروف ہیں، لیکن کوئی بھی دیرپا حل نظر نہیں آ رہا۔ امریکی صدر ٹرمپ کا غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرانے کا منصوبہ تیسری عالمی جنگ کو دعوت دے رہا ہے۔چین اور تائیوان کے درمیان کشیدگی خطرناک سطح تک پہنچ رہی ہے۔ چین بارہا فوجی حملے کی دھمکیاں دے چکا ہے، جبکہ امریکہ تائیوان کو دفاعی امداد فراہم کر رہا ہے۔ آبنائے تائیوان میں فوجی مشقیں اور بحری تصادم کے خطرات عالمی طاقتوں کے درمیان جنگ چھیڑ سکتے ہیں۔
افریقی ممالک میں خانہ جنگی: سوڈان، ایتھوپیا اور کانگو میں جاری خانہ جنگی لاکھوں افراد کو متاثر کر رہی ہے۔ ان تنازعات کے پیچھے نسلی، سیاسی اور اقتصادی وجوہات کارفرما ہیں، جن کا حل نکالنا انتہائی مشکل ثابت ہو رہا ہے۔شمالی اور جنوبی کوریا کی کشیدگی: شمالی کوریا کے میزائل تجربات اور جنگی دھمکیاں خطے میں عدم استحکام پیدا کر رہی ہیں۔ جنوبی کوریا اور امریکہ نے مشترکہ فوجی مشقیں تیز کر دی ہیں، جس سے پیانگ یانگ مزید جارحانہ رویہ اختیار کر رہا ہے۔دہشت گردی اور شدت پسندی: مشرق وسطیٰ، افریقہ اور ایشیا میں داعش اور القاعدہ جیسے گروہ دوبارہ سرگرم ہو رہے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت عالمی سطح پر تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے، جہاں انسانی حقوق کی پامالی، معاشی بدحالی اور شدت پسندی کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
یہ تنازعات نہ صرف انسانی جانوں کا نقصان کر رہے ہیں بلکہ عالمی معیشت اور جغرافیائی استحکام کو بھی شدید متاثر کر رہے ہیں۔ جنگوں کے باعث توانائی اور خوراک کی قلت بڑھ رہی ہے، جس سے دنیا بھر میں افراط زر اور اقتصادی بحرانوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
یوکرین میں دیرپا امن کیلئے ضروری ہے کہ روس اور مغربی ممالک سفارتی مذاکرات کے ذریعے کسی معاہدے پر پہنچیں۔ غزہ میں جنگ بندی، انسانی امداد کی بحالی اور فلسطینیوں کے حقوق کا احترام عالمی امن کیلئے ناگزیر ہے۔ چین اور تائیوان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کیلئے سفارت کاری اور اقتصادی تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔ اسی طرح، افریقی اور ایشیائی تنازعات کے حل کیلئے عالمی برادری کو عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
دنیا اس وقت ایک غیر یقینی اور خطرناک دوراہے پر کھڑی ہے۔ اگر عالمی طاقتیں اپنی سیاسی چالوں اور عسکری حکمت عملیوں کے بجائے سفارتی حل تلاش نہ کریں تو یہ جنگیں مزید شدت اختیار کر سکتی ہیں، جس سے پوری دنیا متاثر ہوگی۔ عالمی امن کیلئے ضروری اقدامات کرنا ہونگے۔ یہ تنازعات نہ صرف انسانی جانوں کا نقصان کر رہے ہیں بلکہ عالمی معیشت اور جغرافیائی استحکام کو بھی شدید متاثر کر رہے ہیں۔ جنگوں کے باعث توانائی اور خوراک کی قلت بڑھ رہی ہے، جس سے دنیا بھر میں افراط زر اور اقتصادی بحرانوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اگر عالمی طاقتیں اپنی سیاسی چالوں اور عسکری حکمت عملیوں کے بجائے سفارتی حل تلاش نہ کرپائیں تو یہ جنگیں مزید شدت اختیار کر سکتی ہیں، جس سے پوری دنیا متاثر ہوگی۔ مستقل امن کے لیے عالمی برادری کو انسانی ہمدردی، انصاف، اور بامعنی سفارتی اقدامات کو ترجیح دینا ہوگی۔
اگر ہم نے آج ان تنازعات کے حل کیلئے سنجیدہ اقدامات نہ کیے، تو مستقبل کی نسلیں بھی اسی جنگ، تباہی اور عدم استحکام کا شکار رہیں گی۔ دنیا میں حقیقی امن کا قیام اسی وقت ممکن ہوگا جب تمام ممالک ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کریں، سفارتی راستے اپنائیں اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کریں۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ جنگ کو آخری آپشن کے طور پر دیکھے اور باہمی مذاکرات و تعاون کے ذریعے ان مسائل کو حل کرے تاکہ ایک پرامن دنیا کا خواب حقیقت میں بدل سکے۔
جنگیں اور بڑھتی ہوئی کشیدگیاں
Mar 01, 2025