اردو، بحیثیت ذریعہ تدریس

Mar 01, 2025

سید روح الامین....برسرمطلب

سیّد روح الامین

سیالکوٹ سے ہمارے بہت ہی پیارے دوست ملک محمد آصف اعوان صاحب کے والدِ گرامی 65سال کی عمر میں دو روز قبل اس جہانِ فانی سے رحلت فرما گئے ہیں۔ مرحوم نے بیوہ کے علاوہ پانچ بیٹیاں اور تین بیٹے سوگوار چھوڑے ہیں۔ اس سے دو ہفتے قبل سیالکوٹ سے ہی جناب محمد مالک بھٹی کا صاحبزادہ محمد افضال بھٹی بیرونِ ملک انتقال فرما گیا تھا۔ محمد مالک بھٹی صاحب میرے جدِ امجد حضرت حافظ سیّد محمد عبداللہ شاہ صاحب (مدفون چک نمبر 15شمالی، ضلع منڈی بہاء الدین) کے مریدین میں سے ہیں۔ اللہ کریم ان مرحومین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین!
’’ذریعہ تعلیم سے مراد وہ زبان ہے جس کے ذریعے طلبہ کو کسی علم کی تعلیم دی جائے یا جسے بطور درس وتدریس استعمال کی جائے۔ تعلیمی لغت میں اس کے معنی یہ دئیے گئے ہیں کہ وہ بنیادی طریقِ عمل، جس کے ذریعے منصوبہ تعلیم طالب علم تک پہنچایا جائے۔ اس طریق عمل میں  روبرو تدریس بھی شامل ہے اور وہ تدریس بھی جو پہلے سے تیار کردہ ٹیپ ، کتابوں، ہدایت ناموں، مراسلت، کمپیوٹر یا دوسرے سمعی و بصری ذرائع سے دی جائے۔‘‘ 
    اگر ہم اردو کو عملاً قومی زبان تسلیم کرلیں (جو کہ ہے) تو ذریعہ تعلیم بھی اردو ہی ہوگا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک بچے کی مادری یا قومی زبان کوئی اور ہو اور تعلیم وہ کسی اور زبان میں حاصل کرے۔ جو علم اپنی زبان میں آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔کسی غیر زبان میں قطعاً ممکن نہیں۔ بقو ل ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی: 
’’غیرملکی زبان کی وساطت سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ عمیق مشکل سے ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ یہ قدرت ہم میں سے بہت کم کو نصیب ہوتی ہے کہ اپنی زبان کی طرح کسی غیر زبان کو بھی ایسا اپنا لیں کہ اس میں خیالات کے افہام و تفہیم میں ہمیں دقت نہ ہو۔‘‘      
    یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بچے کی قوت نمو اس زبان کے بار کو محسوس نہیں کرتی جس سے وہ گہواروں کی فضائوں میں آشنا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ایسی زبان کے بوجھ سے اُس کی قوت نمو مسلسل متاثر ہوتی ہے  جس سے وہ گہوارے اور ایام طفلی میں ناآشنا رہا ہو۔ اس ضمن میں محمد انیس الرحمن لکھتے ہیں کہ 
’’غیر مادی زبان میںتعلیم و تربیت حاصل کرنے سے تخلیقی قوتیں بڑی حد تک اجاگر نہیں ہوتی اور جدت پسندی کی جگہ نقالی لے لیتی ہے۔ زبان کی غلامی نہ صرف قومی قوتِ تخلیق کو تباہ کر دینے کی ذمہ دار ہے بلکہ غیر ملکی زبان کے ذریعہ جو افکار و خیالات قومی زبان میں منتقل ہوتے رہتے ہیں وہ نقال قوم کے تمدن اور معاشرت کو غالب قوم کے رنگ میں  رنگ دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ غالب قوم کے فکرو خیال کی ترجمانی اس کی زبان کرتی اور مغلوب قوم اس کا چربہ اتارتی چلی جاتی ہے۔‘‘ 
    اس میں کوئی شک نہیں کہ غیر مانوس یا غیر مادری زبان میں علم کا حصول دیر طلب ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے تو زبان سیکھنے پر وقت صرف ہوتا ہے کیوں کہ زبان کو سیکھے بغیر خیالات اور افکار تک رسائی ممکن ہی نہیں۔ پھران خیالات اور افکار کی تشریح وضاحت کے لیے زبان میں مہارت ہونا بہت ضروری ہے لیکن ایسی زبان میں مہارت حاصل کرنا جو کہ غیر مانوس اور اجنبی ہو اس زبان کے مقابلے میں مشکل ہے جو مادری اور قومی زبان میں آسانی سے حاصل ہو جاتی ہے۔
    یہی وجہ ہے کہ اپنی زبان کے علوم جس قدر تیزی سے پھیلائے جا سکتے ہیں۔ وہ علوم غیر زبان میں اتنی سرعت سے نہیں پھیل سکتے۔ مثال کے طور پر ہمار ے ملک میں انگریزی زبان میں جتنے ادیب اور باکمال شاعر پیدا ہوئے ہیں اُن کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ لیکن اپنی زبان اردو نے جو علماء و فضلا پیدا کیے جو اصحاب علم و دانش قومی زندگی کی ترقی اور فلاح کے ضامن قرار پائے۔ ان کا شمار کہیں زیادہ ہے۔
    لہٰذا ہمارے لیے اپنی زبان اردو میں تعلیم حاصل کرنا ہی مناسب اور موزوں ہے اس میں وہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں جو ایک زرخیز زبان میں ہونی چاہئیں۔ یہ ہی وہ زبان ہے جو کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے تمدنی ارتقاء کی بنا پر معرضِ وجود میں آئی۔ یہ  ہماری قومی زبان ہے۔ اپنی قومی زبان کے علاوہ کسی غیر ملکی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانا حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔ فرض کریں کہ اگر انگریزوں کو یہ کہا جائے کہ آپ اپنی تعلیم اردو یا پنجابی کے ذریعہ حاصل کریں تو کیا وہ ایسا کرنے کے لیے تیار ہوں گے؟ کبھی نہیں۔
    تو پھر ہمیں اپنی زبان اور ثقافت مقدم وعزیز کیوں نہیں ہے؟ ہم تو اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دین کے حامل اور ایک با اصول قوم ہیں۔ ہمارے فیصلے تو اٹل اور پختہ ہونے چاہیں ان میں لچک کا شائبہ تک نہیں ہوناچاہیے ۔ حیرت ہے کہ ہم مسلمان ہوتے  ہوئے بھی غیر قوموں کی تہذیب و تمدن کو اپنانے کے لیے سرگرداں ہیں۔ کیا ایسا تو نہیں کہ ہم صرف نام کی حد تک مسلمان ہیں؟ ایمانی قوت سے محروم اور بے بہرہ ہیں۔
؎ زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
  دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
    اگر ہم دنیا کے ماہرین تعلیم کی طرف رجو ع کریں تو ہمیں اس بات کا واضح طور پر اندازہ ہو جائے گا کہ سب اسی بات پر متفق ہیں کہ ذریعہ تعلیم صرف اسی زبان کو قرار دیا جاسکتا ہے جو کسی قوم یا ملک میں عام طور پر بولی اور سمجھی جاتی ہو۔ دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک نہیںہے جس نے اپنی زبان کے علاوہ کسی دوسری غیر ملکی زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا ہو۔ مہذب اور باشعور قومیںہمیشہ اپنے ہی قوانین کی پیروکار ہوتی ہیں۔ وہ نقال نہیں بلکہ ہمیشہ تخلیقی صلاحیتوں اور قوتوں کی حامل ہوتی ہیں۔
    تاریخ شاہد ہے کہ روس، چین، اسرائیل، ترکی، انڈونیشیا، ملائیشیا، مصر، جاپان سمیت دنیا کے ہر ملک نے اپنی زبان کو ہی ذریعہ تعلیم بنایا اور پھر زندگی کے ہر شعبہ میں کامیابی و کامرانی حاصل کی۔
    اگر بنظر غائر دیکھاجائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ فنی لحاظ سے بھی اردو زبان انگریزی کے مقابلے میں زیادہ زرخیز اور ذریعہ تعلیم بننے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اردو زبان میںحروف تہجی کی تعداد ۴۶ (چھیالیس) اور انگریزی میں چھبیس ہے۔ کوئی بھی باشعور انسان یہ بات بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ چھیالیس ستونوں والی عمارت چھبیس ستونوں والی عمارت سے زیادہ مضبوط اور کشادہ ہوگی۔ 
    اس حقیقت سے انکار قطعاً ممکن نہیں کہ ایک قوم جب کسی دوسری قوم یا ملک کی زبان اختیار کرتی ہے تو وہ اس قوم کی زبان کے زہریلے اثرات کے سبب اس قوم کے باطل افکار و خیالات کو اپنانے پر مجبورہو جاتی ہے اوراس طرح وہ اپنی قومی زندگی کو ان پیمانوں میں ڈھالنے لگتی ہے جواس کی معاشرت، تہذیب و تمدن کے روح کے سراسر منافی ہوتی ہے۔ بالآخر ایک غالب قوم بغیر جنگ کیے مغلوب قوم کے حقیقی نقش و نگار اور معاشرت کے تبدیل کر دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔
    بلاشک و شبہ انگریزوں نے بھی مسلمانوں کی معاشرت اور تمدن کو بدلنے کے لیے یہی حربہ استعمال کیا اور زبان کے ذریعے مسلمانوںکی ثقافت ( جو کہ اسلام کے سنہرے اصولوں کی حامل ہے) اور طرززندگی کو اپنے ’’کلچر‘‘ میں ڈھانے کی ہر ممکن کوشش کی اور اپنے ان ناپاک عزائم میں کافی حد تک وہ کامیاب ہوتے نظر آتے ہیں۔ لارڈ میکالے نے تو برملا کہہ دیا تھا کہ ہم چاہتے  ہیںکہ (اس وقت کے) ہندوستان میں ایک ایسی جماعت پیدا ہو جائے جو صورتاً ہندوستانی ہو اور سیرتاً انگریز۔‘‘
    مختصر یہ کہ اگر ہم دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہونے کے خواہاں ہیں تو ہمیں بھی تمام علوم کو اپنی زبان میں منتقل کرنا ہوگا تاکہ ہمارے نوجوانوں کے اذہان تک ان کی رسائی سہل اور ممکن ہو۔ 
    بابائے اردو مولوی عبدالحق کے یہ الفاظ مبنی برحقیقت ہیں کہ
’’سب سے مقدم اور اہم کام یہ ہے کہ تمام علوم و فنون حتیٰ کہ انگریزی بھی اپنی ہی زبان اردو کے ذریعے پڑھائی جائے جیسا کہ دنیا میں ہر جگہ ہوتا ہے ۔ کیا کسی انگریزی یونیورسٹی میںگوئٹے یا خیام پر جرمن یا فارسی زبان میں لیکچر دیں اس سے ہماری زبان میں وسعت، پختگی اور قوت کا اضافہ ہوگا۔ اگر ہم ابتدا سے اس پر کار بند ہوتے تو اس وقت ہماری زبان کہاں سے کہاں تک پہنچ جاتی مگر حالات سے مجبور تھے اب آپ آزادہیں اور آپ پر پہلی سی پابندیاں نہیں لہٰذا قطعی طورپر یہ فیصلہ کر لیجئے کہ آپ کی تعلیم کاذریعہ ابتدا سے انتہا تک اُردو ہوگا اور کوئی دوسری زبان نہ ہو گی۔‘‘ 
    افسوس کہ مولوی عبدالحق اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ ہم تو آزاد ہوکر بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اور ہم نے آج بھی غیروں کی لگائی ہوئی پابندیوں کو اپنے اوپر مسلط کیا ہوا ہے۔ کاش کہ ہم ’’آزاد‘‘ ہوتے اسلام نے ہمیں جو سنہری اصول دئیے ان سے ہمارا دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ ہم تو اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی ثقافت کو برباد کرنے اور مٹانے پر تلے ہوئے ہیں۔ قومی زبان اردو سے محبت تو دور کی بات ہے ہم تو غیروں کے ایما پر اپنے درسی نصابات سے قرآنی آیات اور اسلامی احکام خارج کررہے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم تارک قرآن ہوگئے ہیں۔ ہمارے دل زنگ آلود  ہو چکے ہیں بجائے ہم نے تو ’’طاغوتی‘‘ طاقتوں کو خدا بنا رکھا ہے۔ 
    میں یہ بات کہنے میںحق بجانب ہوں کہ آج ہمیں پھر حسینؑ کی تلاش ہے مگر افسوس کہ 
قافلہ حجاز میں ایک حسینؑ بھی نہیں

مزیدخبریں