میں آنے والے زمانوں سے ڈر رہا ہوں

Mar 01, 2025

رقیہ غزل

پرانے وقتوں کی بات ہے کہ بادشاہ کا گزر پرانے غلاموں کے بازار سے ہوا تو وہاں اس نے ایک غلام دیکھا جس کی قیمت بہت زیادہ مانگی جا رہی تھی۔بادشاہ نے لڑکے سے پوچھا آخر تم میں ایسا کیا ہے جو سارے بازار سے تمھاری قیمت زیادہ ہے ؟لڑکے نے کہا :بادشاہ سلامت ! یہ میری ذہانت ہے جس کی قیمت طلب کی جا رہی ہے۔بادشاہ نے کہا : ایسی کونسی ذہانت ہے جس کی قیمت طلب کی جا رہی ہے۔لڑکے نے کہا : بادشاہ سلامت ! میرے پاس ہر قسم کے سوال کا جواب ہے جو آپ کی ریاست میں کوئی اورنہیں دے سکتا۔بادشاہ نے کہا : اچھا !چلو میں تم سے کچھ سوال کرتا ہوں اگر تم نے جواب دے دیا تو آزاد کر دونگا ورنہ قتل کر دیا جائے گا۔لڑکا آمادہ ہوگیا اور بادشاہ نے پوچھا !یہ بتائوکہ سب سے قیمتی لباس کونسا ہے ؟ سب سے بہترین خوشبو کونسی ہے ؟ سب سے لذیز کھانا کونسا ہے ؟ سب سے نرم بستر کونسا ہے ؟اور سب سے خوبصورت ملک کونسا ہے ؟ 
لڑکے نے اپنے مالک تاجر سے کہا : مالک میرا گھوڑا تیار کرو کیونکہ میں آزاد ہونے والا ہوں اور یوں گویا ہوا : بادشاہ سلامت ! سب سے بہترین خوشبو ماں کی ہوتی ہے پھر وہ مویشیوں کا گوبر اٹھانے والی مزدور ہی کیوں نہ ہواس کی اولاد کے لیے اس کی خوشبو سے بہترین کوئی خوشبو ہو ہی نہیں سکتی۔سب سے بہترین کھانا بھوکے پیٹ کا کھانا ہے کیونکہ بھوک ہو تو سوکھی روٹی بھی لذیز لگتی ہے ورنہ بہترین کھانا بھی عام لگتا ہے۔بادشاہ سلامت ! سب سے نرم بستر بہترین انصاف کرنے والے کا ہوتا ہے بے شک وہ ٹوٹ پھوٹی چارپائی ہی کیوں نہ ہو جبکہ ظالم کو مخمل و کمخواب سے آراستہ بستر پر بھی سکون نہیں ملتا اور کروٹیں بدلتا رات گزار دیتا ہے۔یہ کہا اور لڑکا گھوڑے پر بیٹھ گیا ،بادشاہ جو مبہوت سب سن رہا تھا اچانک اس نے چونک کر دیکھا اور کہا کہاں جا رہے ہو ابھی تم نے آخری سوال کا جواب نہیں دیا۔لڑکے نے کہا : بادشاہ سلامت !کیا میں نے باقی تمام سوالوں کے درست جوابات دے دیے ہیں ؟ بادشاہ نے ہاں میں سر ہلایا تو لڑکے نے کہا : بادشاہ سلامت ! دنیا کا سب سے خوبصورت ملک وہ ہے جو آزاد ہو ،جہاں کوئی غلام نہ ہو اور جہاں کے حکمران ظالم نہ ہوں بلکہ اس قدر خوف خدا رکھتے ہوں کہ اپنے انجام کے خوف سے اپنی ذات کو بھلا کر رعایا کی آسانیوں میں اپنے شب و روز گزارتے ہوں اور جوابدہی کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہوں کیونکہ عادل حکمران اقتدار کو اپنا حق نہیں ذمہ داری سمجھتے ہیں۔اتنا کہا اور گھوڑے کو ایڑھ لگاتے بولا : اور بادشاہ سلامت ! ظلم کی حکومت زیادہ دیر چلتی نہیں اور رحمدل بادشاہ کبھی مرتا نہیں !لڑکے کے اس آخری جواب میں انسانیت کا سارا فلسفہ تمام ہوتاہے اور تاریخ عالم گواہ ہے کہ جن حکمرانوں نے اس کے خلاف مدت اقتدار کو گزارا وہ عبرت بنے یقینا یہ قصے کہانیاں اور تاریخی حوالے عقلمندوں کے لیے ہیں جو سمجھ جاتے ہیں وہ امر ہو جاتے ہیں اور جو نہیں سمجھتے وہ خود قصہ کہانی بن جاتے ہیں۔
موجودہ ملکی حالات کاجائزہ لیاتو مجھے یہ کہانی یاد آگئی کیونکہ برسر اقتدار کی تلخ بیانیاں اور راز افشانیاں ، عہدیداروں کی ہٹ دھرمیاں ، سیاسی رہنمائوں کی فلک شگاف آرائیاں اور اپوزیشن جماعتوں کی بے سرو پا معرکہ آرائیاں اور عدل کی بے اعتنائیاں کوئی نئی بات نہیں لیکن اب کے جو کچھ ہو رہا ہے وہ گذشتہ پچھتہر برسوں میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ سنتے بھی تھے اور لکھتے بھی تھے کہ حکومت اور طاقت کا نشہ سب بھلا دیتا ہے مگر حقیقی تصویر اب دیکھنے کو مل رہی ہے۔ہم سمجھتے تھے کہ اب ہم اس سفاکیت اور جارحیت سے نکل آئے ہیں جس میں کھوپڑیوں کے مینار سجا کر ناشتے کئے جاتے تھے ،ہاتھی کے پیروں تلے کچلے وجود دیکھ کر دھمال ڈالے جاتے تھے اور زندہ افراد کو کیمیکل ڈال کر حنوط کرواکر خوف و بربریت کی فضا قائم کی جاتی تھی جو کہ ہماری خام خیالی تھی جبکہ جدید دور ہے تو سزائیں بھی جدید ہونی چاہیے تھیں مگر حاکم وقت سے سوال کرنے اور اس کی ستم ظریفیوں پر بات کرنے پرکال کوٹھریوں میں بند کرنے کی روایتی رسم پوری ڈھٹائی سے جاری ہے باقی بھی طریقہ کار بدل گئے ہیں مگر سفاکیت نہیں بدلی۔ گذشتہ تین برسوں میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے کہیں نہ کہیں کوئی جواز دیا جا سکتا تھا مگراب جو آزادی رائے پر پابندی کاغیر جمہوری قانون لاگو کیا گیا ہے وہ صریحاً ظلم ہے جس کے خلاف پوری صحافتی برادری سراپا احتجاج ہے۔ہمارے ملک میں ہر قسم کا قانون پہلے سے موجود تھا لیکن عمل صرف ایک قانون پر ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اور وہ ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔۔ایسے میں قانونی ترامیم سوالیہ نشان ہیں جس کا جواب کسی کے بھی پاس نہیں ہیں بلکہ جنھوں نے اسے پاس کیا ہے وہ خود پی ٹی آئی دور میں برملا کہتے تھے کہ پیکا ایکٹ پاکستان کا گلا گھوٹنے کے مترادف ہے اور ہم صحافیوں کے ساتھ ہیں اور اس کالے قانون کو کبھی نہیں لانے دیں گے چونکہ عمران خان کی نا پسندیدگی بڑھ گئی ہے اس لیے وہ یہ قانون لانا چاہتا ہے اور کمزور حکومتیں ایسے قوانین لاتی ہیں تاکہ تلوار کے زور پر حکومت کر سکیں۔۔اب اس ملک کا ہر لکھاری کہنے پر مجبور ہے کہ :اس ستم گر کی حقیقت ہم پہ ظاہر ہوگئی ،ختم خوش فہمی کی منزل کا سفر بھی ہو گیا۔یقینا حکومت وقت نے عوام الناس سمیت سبھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو بہت مایوس کیا ہے اور ذاتی مفادات پر ملکی مفادات اور عوامی آزادی کو قربان کر دیا ہے بایں وجہ پورے ملک میں صحافی اور صحافتی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں یقینا دیگر احتجاجی دھرنوں کی طرح صحافتی احتجاج کو بھی بہت جلد آہنی ہاتھوں سے نپٹتے ہوئے ختم کروا دیا جائے گا کیونکہ برسر اقتدار کو یقین دلایا گیا ہے کہ تمام در پردہ سازشوں کو کچل دیا گیا ہے اور وہی اب سیاہ و سفید کے مالک ہیں حالانکہ پی ٹی آئی سے زیادہ مضبوط حکومت کسی کی بھی پاکستان میں نہیں دیکھی گئی لیکن آج ان کا نام لیوا بھی کوئی نظر نہیں آتا اور بر سر اقتدار کو تو نفرتیں ختم کرنا تھیں ، دل جیتنے تھے مگر دلوں میں اترتے کے بجائے دلوں سے اتر رہے ہیں۔۔ غریبوں کے آشیانے اور کاروبار گرا کر ، طاقتوروں کو نواز کرجو ستم کی داستان لکھی جا رہی ہے وہ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ تمھیں اپنے لیے کتنی جگہ چاہیے تھی۔۔؟صرف چھ فٹ مگر خود انھی کے پیسوں سے ہزاروں کنال کے محلات میں رہتے ہو اور ان سے ہی چھینتے جاتے ہو۔مزہ تو تب تھا کہ یہ رسم مسماری اپنے اور ایوانی شہزادوں کے گھروں اور کاروباروں سے شروع کی جاتی پھر ہم بھی داد دیتے لیکن اب یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ :
میں نے دیکھی ہیں آنکھیں اداس لوگوں کی
میں آنے والے زمانوں سے ڈر رہا ہوں فراز 

مزیدخبریں