میرا اس بنچ اور بار سے گہرا سا تعلق ہے اسے جب درد ہوتا ہے تومجھے محسوس ہوتا ہے۔بار الیکشن جیتے والوںکو مبارکیں ۔لاہور ہائی کورٹ بار الیکشن میں حامد خان گروپ کے صدارتی امیدوار جیت گئے۔ چنائو کے بارے میں حضرت علیؓ نے فرمایا،ہمیشہ ایسے شخص کو منتخب کرو جو آپکو عزت دے کیونکہ عزت محبت سے کہیں زیادہ خاص ہوتی ہے۔اب وقت بتائے گا کہ وکلاء نے ایسے ہی ساتھیوں کو الیکشن میں چنا ہے یا نہیں ۔موجودہ تصادم سے بنچ اور بار دونوں تکلیف میں ہیں ۔ اس میں پہلا قصور ان کا ہے جھنوں نے بے وقت کی راگنی الا پتے ہوئے وکلا کے دو کی بجائے کئی چمبر گرا د ئے ۔دوسرا قصور ان وکلا کا ہے جھنوں نے احتجاج کا غلط طریقہ اپناتے ہوئے چیف صاحب کا آفس اوران کا دل توڑا ۔سخت سے سخت الفاظ بولتے وقت ہمیں یہ یاد نہیں رہتا کہ سننے والے کو یہ الفاظ کب تک یاد رہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے جہاں عدالتوں کا احترام ختم ہو جائے وہاں خونیں انقلاب آتا ہے ۔ اس واقعہ کے بعد راقم کی سینئر وکلا کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس اطہر من ا ﷲ سے بھی ملاقات ہوئی ۔چیف جسٹس صاحب حسب عادت خوش اخلاقی سے ملے عزت دی ۔دکھ بھرے لہجے میں حال پوچھا۔ کہا آج آپ یہ سمجھیں کہ لگی آگ پر ایک پرندہ اپنی چونچ میں پانی کا قطرہ لایا ہے ۔ اس موقع پر چیف صاحب کوراقم نے اپنا ہفتہ وار نوائے وقت کالم ٹی ٹاک پیش کیا ۔ انہوںنے کہا میری یہی کوشش ہے اور رہے گی کہ بار اور بنچ کی عزت کو برقرار رکھے۔لگتا یہی ہے کہ ہمارے بڑوں نے بڑا رول ادا نہیں کیا یااب بڑے ہے ہی نہیں۔ اب فریقین کے درمیان تنازعہ سپریم کورٹ میں پہنچ چکا ہے اور چندوکلا بطورملزم کے جیلوں میںقید ہیں اور چند مفرور ہیں۔سپریم کورٹ کیس میں سینئر وکلا حامد خان، لطیف خان آفریدی ، شعیب شاہین ،حسن رضا پاشا،ذوالفقار علی عباسی ، علیم عباسی ،ہارون الرشید اوراشرف گجرایڈووکیٹ نے حصہ لیا۔اس کیس میں بطور اے او آر طارق عزیز پیش ہوئے۔ اب منگل 30 فروری کو دوبارہ اس کیس کی سماعت ہوگی۔ کہا جاتا ہے اگر منصف کی آواز فریادی کی آواز سے اونچی ہو جائے تو سمجھ جائو انصاف نہیں ہو سکتا۔یہ سچ ہے کہ وکلا کے تمام چمبر غیر قانونی ہیں مگر انتظامیہ کی رضامندی سے یہ سب چمبر وجود میں آئے ۔راقم کا چمبر جس بلاک میں ہے اس افتتاح راقم بطور چیئرمین ینگ لائرز فورم نے اپنے ساتھیوں کے تعاون سے سابق وزیراعظم ملک معراج خالد کے دست مبارک سے کروایا تھا ۔ جبکہ آج تک کسی عدالت کا افتتاح کسی شخصیت نے نہیں کیا ۔یہ عدالتیں دکانوں میں ہیں مگر ہیں قانونی۔ اگر کہا جائے کہ وکلا چمبروں کے ساتھ یہاں عدالتیں بھی غیر قانونی ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ ایسے میں اچھا فیصلہ یہی ہے کہ جب تک یہاں سے کچہریاں شفٹ نہیں ہو جاتیں ۔وکلا کوبھی یہاں رہنے دیا جائے اور جلد از جلد کورٹ کمپلکس تعمیر کیا جائے۔ کہا جاتا ہے آج کا نوجوان وکیل خود رو پودے کی طرح پروان چڑ رہا ہے ۔ ان میں اچھے سمجھدار وکلا کی تعداد آج بھی زیادہ ہے ۔ راولپنڈی لاہور ہائی کورٹ کے الیکشن میں نوجوان وکیل حسیب پراچہ کو بار سیکٹری کی سیٹ سے ہار نے کے باوجود ساتھیوں وکلا کے دل جیت لئے ۔ہارنے کے باوجود اپنے ان کو بکھرنے نہ دیا ۔ اچھے انداز میں اپنی ہار کو تسلیم کیا اور الیکشن کے رزلٹ کی پوسٹ خود فیس بک پر لگائی اور جیتنے والوں کو مبارک باد بھی دی۔ویلڈن حسیب… ایسا کر کے آئندہ کیلئے جیت کا راستہ تم نے کلیئر کر لیا ہے۔ اسلام آباد کچہری کے واقعہ میں بنچ ، بار اور انتظامیہ یہ تینوںقصور وار ہیں ۔قصوروار ایسے عہدیدران بھی ہیں جو سارا سال اپنے ذاتی مفاد کے گرد گھومتے رہے اور وکلا کیلئے کچھ نہ کر پائے ۔چند وکلا لیڈران کے رویے دوکانداروں لیبر کلاس کی عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں اوربد نام سبھی وکلا ہوتے ہیں۔ذرا سی بات پر ہڑتال کرا دی جاتی ہے۔کبھی سو چا ہے ہڑتالوں کا نقصان کس کاہوتا ہے۔اس کا نقصان صرف وکلا اور سائلین کاہوتا ہے کسی تیسرے کا نہیں اور بدنام بھی وکلا ہی ہوتے ہیں۔ لہذادو چار وکلا کے سوا سب کا یہی کہنا ہے کہ وکلاکو ہڑتالیں نہیں کرنی چاہیے ۔ سینئر وکیل شعیب شاہین نے بتایا کہ ہم پاکستان بار کونسل کے فورم پر ہڑتالوں پر پابندی کی حمایت کر چکے ہیں ۔بہتر یہی ہے کہ ہڑتالوں کے بجائے احتجاج کے طور پر بار پر سیاہ پرچم لہرا یا کریں اور وکلا اپنے بازوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر عدالتوں میں پیش ہوا کریں ۔ بار روم میں اجلاس بلائیں پریس ریلیز جاری کریں ۔میڈیا پر احتجاج ریکارڈ کرائیں ۔مت بولیں احتجاج دوکاندا ،فیکٹری ورکر بھی کرتا ہے ۔ وکلا کے احتجاج میںقائد اعظم کے پیشہ کی جھلک دکھا ئی دینی چاہیے ۔ ابھی جوچمبر گرائے جانے پر احتجاج ہوا کیایہ ہمیں زیب دیتا تھا۔کیا یہ زیب دیتا ہے کہ وکلا کو ہتھکڑیاں کے ساتھ عدالتوں میں پیش کیا جائے ۔ صدر ہائی کورٹ بار حسیب چوہدری ، سیکٹری سہیل چوہدری اور کابینہ کے ساتھیوں کا موجودہ حالات میں اچھا کردار رہا ہے ۔ کیا ہی بہتر ہوتا جب تک حالات نارمل نہیں ہو جاتے اسی کیبنٹ کو کام کرنے دیا جاتا ۔ اس سال اسلام آباد بار کے الیکشن میں ووٹر نے بہت کم حصہ لیا ۔لگتا ہے وکلا کے الیکشن رول میں تبدیلیاں لانا ہونگی ۔ ینگ وکلا کو کم از کم دس سا ل تک بار کے الیکشن سے دور رکھا جائے۔بار الیکشن میں صدر کم از کم تیس سال ، جنرل سیکٹری پندرہ سال اور جوائینٹ سیکٹری دس سال کی پریکٹس کی شرط رکھی جائے ۔ ایسی پابندی سے یوتھ میں وکالت میں دلچسپی دیکھنے میں آئے گی ۔ وہی وکلا الیکشن میں حصہ لیں جو پریکٹس میں اپنا نام بنا چکے ہوں ۔جھنیں نہ پیسے بنانے کی ضرورت ہو اور نہ جج بنے کی خواہش رکھتے ہو۔ ایک پابندی یہ بھی لگائی جائے کہ ہر وکیل ایک بار کسی ایک سیٹ پر ہی الیکشن میںحصہ لینے کا مجاز ہو گا۔ ایسا کرنے سے وہ وکلا جو الیکشن میں ہمیشہ ان رہتے ہیں ان سے بھی نجات مل جائے گی۔ راولپنڈی بار کے سینئر ایڈووکیٹ شبیر بشیر انصاری مرحوم کے جونیئر ایڈووکیٹ چوہدری امتیاز احمدنے بتایا کہ وکلا انصاری صاحب کے پاس حاضرہوئے کہ سر آپ اس سال بار صدر کی سیٹ پر حصہ لیں ۔انہوں نے ایک شرط رکھی کہ میں ووٹ مانگنے کسی کے پاس نہیں جائوں گا اورہڑتالوں میں حصہ نہیں لونگا۔ سب نے اس پر اتفاق کیا پھر الیکشن پیپر جمع کرائے گئے اور وہ بلا مقابلہ صدر منتخب ہوئے۔بتایابیٹے جسٹس تنویر بشیر انصاری کے جج بنے پر انہوں نے نا پسندیگی کا اظہار کیاتھا مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اس امید سے ہوں
شاخیں اگر رہی تو پتے بھی آئیں گے
یہ دن اگر برے ہیں تو اچھے بھی آئیں گے
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38