کشمیری طلبہ کے ساتھ ایک دن
جمعہ کی شام فالکن کمپلکس پاکستان ایئر فورس کلب یا(AFOHS) لاہور پہنچا توڈی جی پی آر میں تعینات پرنٹ میڈیا کی سربراہ باہمت اور باوقار محترمہ روبینہ خالد نے مسکراتے ہوئے جی آیاں نوں کہا۔اسی صبح ملک سلمان صدر پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ نے میسج کیا،کل ستائیں فروری ہے۔ اس دن سائٹ فاونڈیشن کے نمائندے ہمیں وہاں چار پانچ سکولوں کا دورہ کروائیں گے ۔ہم میڈیا کے دوستوں کے ساتھ دو دن کے لیے وادی نیلم کی سیر کو جارہے ہیں ۔آپ ایک سینئر لکھاری ہیں اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ آپ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکالتے ہوئے ہمارے ساتھ چلیں ۔قارئین آپ کو یاد ہوگا کہ کہ دو سال قبل ستائیس فروری کے دن ہی ہماری ایئر فورس کے بہادر جوانوں نے دشمن دیش بھارت کے دو جہاز گرائے تھے۔اور پھر ان کے پائلٹ ابھی نندن کو چائے پلا کے جذبہ خیر سگالی کے تحت واپس بھیج دیا تھا ۔ رات دس بجے کے قریب ٹی وی اینکرز،تجزیہ کار اور کالم نگار بھی وہاں پہنچ گئے ۔مظفر آباد سے پانچ کلو میٹر پہلے دریائے نیلم کے کنارے بنے ایک ہوٹل میں ناشتہ کے بعد دوستوں کے آپس میں تعارف کروایا گیا۔ دوبارہ سفر شروع ہوا تو بارش کی خوشگوار پھوار آدھ کھلے شیشوں سے گاڑی میں ہماری سانسوں کو مہکانے لگی ۔ہمارا پڑاو ’’کٹہن ‘‘ کے مقام پر تھا ۔جب ہم وہاں پہنچے تو بارش بہت تیز ہورہی تھی ۔موسم بہت اچھا تھا لیکن صحافیوں کے چہروں پر ایک بے چینی بھی واضح دیکھی جاسکتی تھی یعنی ہر وقت سب کی خبر رکھنے والے اور سب کو خبر پہچانے والوں کا رابطہ دنیا سے کٹ چکا تھا ۔پتہ چلا کہ اس علاقے میں صرف ایک ہی نیٹ ورک کے سگنل آتے ہیں ۔یا بارش میں آرام دہ بستروں میں بیٹھ کے ماضی کی کہانیاں سنی سنائی جائیں یا ہمت کر کے قریب کسی دکان سے وہاں چلنے والی سم کا حصول ممکن بنایا جائے ۔سب لوگ اپنے کمروں میں جا چھپے ۔لیکن ملک توصیف میرے ساتھ سم کی تلاش میں نکل پڑا۔کافی تلاش کے بعد ایک دکان نظر آئی لیکن فنگر مشین بجلی بند ہونے کی وجہ سے ہمیں برستی بارش میں واپسی کی راہ لینی پڑی ۔کہ ایسے میں سڑک کنارے ایک چائے خانہ نظر آیاتو فوراً اس کی طرف لپکے ۔رات ڈائنگ ہال میں کھانے کے بعد شعرو ادب کی محفل جمی اور سب نے کچھ نہ کچھ سنا کے داد وصول کی ۔اگلی صبح نماز کے بعد باہر دیکھا تو آسمان صاف نظر آرہا تھا ۔جب ناشتے کے لیے بلایا گیا تو دھوپ نکل چکی تھی ۔ایک بار پھر ناشتے کی میز پر روبینہ جی میرے ساتھ سب سے پہلے موجود تھیں ۔بہت جلد ہم کنڈل شاہی واٹر فال کے کنارے بنے مصطفائی سکول کے باہر موجود تھے ۔جب علاقے میں بجلی کی ضرورت پورا کرنے کے لیے پن بجلی کا یونٹ لگایا گیا تو پانی کے حصول کے لیے کی جانے والی کوشش کے ساتھ کنڈل شاہی واٹر فال بھی تیار کر لی گئی ۔لکڑی کے کمروں میں بیٹھے قوم کے معمار واقعی پرجوش نظر آرہے تھے ۔نعت سننے کی فرمائش کی تو بچے تیار تھا،تقریر کے لیے کہا گیا تو ایک بچے نے کمال ہی کردیا اور پھر ایک طالب علم نے روایتی ماہیے ٹپے سنا کے میلہ لوٹ لیا ۔اس کے بعد ہم مزید تین سکولوں میں گئے ۔سکول کے پرنسپل نے بتایا کہ اس علاقے میں لوگ بہت غریب ہیں اور انہیں اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے میں کافی دشواری تھی ۔ایسے میں سائٹ فاونڈیشن والوں نے ہم سے رابطہ کیا اور بچوں کی سکول فیس ،یونیفارم،سٹیشنری،اور کمپوٹر سسٹم مہیا کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ۔ہمیں ایک ایسی بچی سے ملوایا گیا جس کے ماں باپ بھارتی گولا باری کی وجہ سے شہید ہوچکے تھے ۔خود اس کے ایک ہاتھ کی انگلیاں گولے کا شیل لگنے سے کٹ چکی تھیں لیکن وہ باہمت بچی نہ صرف اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے تھی بلکہ گھر میں موجود اپنے ایک بھائی کی پرورش کا ذمہ بھی اسی کے سر تھا ۔ ہر کہیں بچے بہت پرجوش اور پر اُمید نظر آئے ۔جب جہاں بچوں سے مسقتبل کے حوالے سے پوچھا گیا اکثریت نے کہا کہ فوج میں بھرتی ہونے کے خواہش مند ہیں ۔ابھی دل میں خواہش تھی کہ مزید وہاں رکا جائے لیکن مسافر کو آخر واپسی کی راہ لینا ہی ہوتی ہے ۔مظفر آباد میں روایتی کشمیری کھانے کا لطف رہے تھے کہ اے ایس پی خرم اور اے سی سٹی راجہ صداقت خان ملک سلمان اور میڈیا کے نمائندوں سے ملنے چلے آئے ۔رات اسلام آباد چائے کا اہتمام تھا وہاں ملک سلمان کے دوست جو حال ہی میں فوج سے ریٹائر ہوئے ہیں انہیں بتایا گیا کہ کشمیر کے طلبہ کا فوج میں بھرتی ہونے کا جذبہ کیسا ہے ۔جس پر صاحب نے فرمایا کہ میری ذاتی رائے ہے کہ سب بچوں کو سائنس ،آئی ٹی اور دوسرے تعلیمی شعبوں میں بھی اپنی قابلیتوں کو منوانے کی کوشش کرنا چاہیے۔