بھارت کی لڑکھڑاتی ہوئی نام نہاد جمہوریت …!!

پانچ بھارتی صوبوں میں الیکشن شیڈول کا اعلان ہو چکا ہے جس کے مطابق کیرالہ ( 140 )، تامل ناڈو (234 )اور پانڈی چری ( 30 سیٹیں) میں صوبائی ووٹنگ ایک ہی مرحلے میں 6 اپریل کو ہو گی۔ آسام میں 126 نشستوں کیلئے تین مراحل یعنی 27 مارچ، یکم اپریل اور 16 اپریل کو ووٹنگ کا عمل مکمل کیا جائے گا جبکہ تاریخ میں پہلی بار مغربی بنگال میں 294 نشستوں کیلئے 27 مارچ، یکم اپریل، 6 ، 10، 17 ، 22، 26 اور 29 اپریل یعنی 8 مراحل میں رائے دہندگان اپنا ووٹ ڈال سکیں گے۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ مغربی بنگال میں آٹھ مراحل میں ووٹنگ کرائے جانے کے فیصلے پر انگلیاں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں ۔ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی کہہ چکی ہیں کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے مودی اور امت شاہ کے ایما پر یہ غیر اخلاقی و غیر قانونی فیصلہ کیا ہے۔
اس معاملے کے دیگر پہلوئوں پر بات کرنے سے قبل ضروری ہے کہ اس امر کا کھلے دل سے اعتراف کیا جائے کہ بھارت جیسے وسیع و عریض ملک میں انتخابات کا عمل کا کامیابی سے انعقاد اور اس کی تکمیل کو اگر دنیا کا آٹھواں عجوبہ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔ یوں بھارت میں محض وقت پر الیکشن کے انعقاد کو اگر جمہوریت اور سیکولرازم قرار دیا جائے تو یہ کسی ستم ظریفی سے کم نہیں کیونکہ ایک جانب مودی تمام انتخابات میں ہندو انتہا پسندی کا وہ بھیانک چہرہ پیش کرتے ہیں تو دوسری جانب سیکولرازم کی دعویدار کانگرس نے بھی اپنی پوری انتخابی مہم میں سومنات، بدری ناتھ، کیدار ناتھ اور دیگر سبھی چھوٹے بڑے مندروں میں ہنومان ، درگا اور شیو کی اعلانیہ پوجا پاٹھ کی ہے ۔ یوں اس بات کا اپنے قول و فعل سے اعتراف کر لیا کہ ان کی سیکولرازم اور جمہوری قدروں کی باتیں محض جملے ہیں یوں بھی اس دوران جس طور مقبوضہ کشمیر میں انسانی قدروں کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور بھارت میں اقلیتوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ ، اپنے آپ میں ایسے المیے ہیں جن کا تصور بھی کوئی مہذب معاشرہ شاید ہی کر سکے۔ بقول شخصے
رام بنا تھا کشن بنا تھا بنا تھا میں بھگوان
ایک جنم یہ ایسا آیا بن نہ سکا انسان
اس تناظر میں ماہرین کا کہنا ہے کہ مدھیہ پردیش کی صوبائی راجدھانی بھوپال میں جس طور دگ وجے سنگھ 7 ہزار پنڈتوں کے جلو میں اپنی جیت کے لئے پوجا پاٹھ کرتے رہے، اسے ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہی دگ وجے سنگھ ہیں جو ماضی قریب میں اعتراف کر چکے ہیں کہ زعفرانی دہشتگردی ذمہ دار ہندو دہشتگرد ہیں ۔ اس بابت بھارت کے سابق وزیر داخلہ سشیل کمار شندے کا سرکاری اعتراف بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ بھوپال سے دہشتگرد سادھوی پرگیہ ٹھاکر دگ وجے سنگھ کے مقابلے میں تین لاکھ سے زائد ووٹوں سے جیت گئیں، کیونکہ انتہا پسند ہندوئوں کی اکثریت کی رائے ہے کہ اگر ووٹ ہندو انتہا پسندی کے نام پر ہی دینے ہیں تو راہل گاندھی اور مودی میں سے زیادہ ’’اہل‘‘ مودی ہیں۔
غیر جانبدار تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ مودی اور RSS کو بھی بخوبی احساس ہے کہ ہندو انتہا پسندی کیوجہ سے بھارت کا مستقبل زیادہ روشن نہیں۔ یہ بات بھی توجہ کی حامل ہے کہ سنجیدہ حلقے مصر ہیں کہ بھارت میں بڑھ رہی ہندو انتہا پسندی پر سرسری سی بھی نگاہ ڈالیں تو بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بھارت کیوں ہزاروں سال تک دوسروں کا غلام رہا۔ اسی سلسلے میں ایک ہندو دانشور موہن گرو سوامی نے کافی عرصہ پہلے ’’ 1000 شیم فل ایئر آف انڈین ہسٹری ‘‘ میں اس امر پر افسوس جتایا تھا کہ بر صغیر کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو با آسانی کہا جا سکتا ہے کہ ہندو ہمیشہ سے بھاری اکثریت میں رہے ہیں، مگر جانے اسے کیا نام دیا جائے کہ شہاب الدین غوری اور قطب الدین ایبک سے لے کر بھارت میں مختلف مسلم خاندان اور شخصیات حکمران رہیں۔ اس دوران حکمران اور خاندان بدلتے رہے مثلاً غیاث الدین بلبن، شمس الدین التمش، رضیہ سلطانہ، ناصر الدین محمود (خاندان غلاماں)، فیروز شاہ تغلق ، خاندانِ خلجی، لودھی اور پھر 300 سال تک مغل حکمران۔ یاد رہے کہ بھلے ہی بہادر شاہ ظفر کے پاس زیادہ اختیارات نہیں تھے مگر 1857 تک بہرحال برصغیر میں مسلم سلطنت قائم رہی۔ یوں برطانوی حکومت کا عرصہ اقتدار 1857 سے 1947 تک محض نوے سال بنتا ہے۔ ایسے میں یہ نتیجہ نکالنا کہ موجودہ بھارتی آزادی لا محدود عرصے تک برقرار رہے گی؟ اپنے آپ میں ایک سوالیہ نشان ہے جس پر خود ہندوستان کے حکمرانوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یوں وہ اپنے طرز عمل پر نگاہ ڈالیں تو شاید وہ تاریخ سے کچھ سبق حاصل کر پائیں۔
یہ بات بھی خصوصی طور پر پیش نظر رہے کہ جنوبی بھارتی ریاستوں تامل ناڈو، کیرالہ، کرناٹک، تلنگانہ، آندھرا پردیش، اور یونین ٹیرٹریز پانڈی چری، لکش دیپ اور انڈیمان نکوبار برطانوی عہد اقتدار سے قبل کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں رہے۔ دوسری جانب مشرقی بھارت کو دیکھیں تو مغربی و مشرقی بنگال، اڑیسہ، آسام و سیون سسٹرز کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ایسے میں دہلی کے حکمرانوں کو زمینی حقائق بہرطور مدنظر رکھنا ہوں گے وگرنہ کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے۔