انسداد سود سیمینار

دو مرکزی مقررین کے بعد میںنے افتخار سندھو سے درخواست کی کہ وہ اپنا نقطہ نظر پیش کریں۔انہوں نے کہا کہ پی سی آئی اے کے کوآرڈینیٹرشبیر احمد عثمانی کی طرف سے پروگرام کا فارمیٹ بنانے اور پھرملک کے معروف ماہرین معیشت اور سینئر صحافیوں و تجزیہ نگاروں کو اس میں شرکت کی دعوت دینے کا بے حد شکریہ ۔ انہوںنے عالم فاضل مہمانون کا بھی بھر پور شکریہ ادا کیا اور سب کی آمد کو اپنے لئے اعزازقرار دیا اور کہا کہ سب سے پہلے تو ہمیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کو سمجھنے کیلئے قرآن و حدیث کا گہرائی سے مطالعہ کرنے اور ان کا مقصد سمجھنے کی ضرورت ہے۔جیسے حضور ﷺ نے عورت کو ٹیڑھی پسلی سے تشبیہ دی ہے تو اس کا قطعی طور پرمطلب یہ نہیں کہ عورت ٹیڑھی ہی ہے۔اصل مقصد یہ ہے کہ جس طرح پسلی نے آپ کے سینے جہاں دل اور پھیپھڑے اور جسم کے نہایت اہم اعضا ہیں ان کو کور کررکھا ہے اور حفاظت کررہی ہیں اسی طرح عورت گھر کی حفاظت کرتی ہے۔وہ نہ صرف گھر کو سنبھالتی ہیں بلکہ بچے بھی پالتی ہیں اوراللہ تعالیٰ نے ان کے اندر محبت اور برداشت کا ناقابل بیان مادہ رکھا ہے۔ اس کے جذبات اور احساسات ہم سے بہتر اور کئی چیزوں میں ہم سے افضل ہیں۔ لیکن مردوں کو ان پر فضیلت دی گئی۔مرد ہی گھر کا سربراہ ہوگا کیونکہ کسی کو تو گھر کا سربراہ بنانا تھا۔فطری طور پر بھی سربراہ مرد ہی بنے گا۔
ہم سود پر شور مچاتے رہے کہ سود حرام ہے،اس پر غیر مسلم تو کیا ہمارے اپنے بھی ہم پر ہنستے رہے۔ہمارے سٹوڈنٹ بھی ہم پر ہنستے رہے،میں نے ایک لمبا عرصہ یونیورسٹیوں میں گزارا ہے۔علماء پر فقرے کسے جاتے رہے،بنک اور انشورنس کے ادارے بن گئے۔اب وہ کارپر اور پلاسٹک منی پر بات چلی گئی ہے اورہم ابھی تک وہیں کھڑے ہوئے ہیں۔میں اپنا موقف ایک بار پھر رپیٹ کردوں کہ سود واقعی حرام ہے۔ہم اس سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ اس بات کا تو آج تک ہم جواب ہی نہیں دے سکے کہ سود حرام ہے،ہم کہتے تھے کہ ڈیموکریسی بھی حرام ہے،پھر اس کا متبادل کہاں سے لے آئے۔پھر ہم نے کہا کہ عورت سربراہ نہیں بن سکتی اور پھر بے نظیر سربراہ بھی بن گئی،جو علما ء کرام فاطمہ جناح کے خلاف فتوے دیتے تھے اور سب بینظیر سے ملتے تھے اور اس کے ساتھ کھڑے تھے۔ پھر ہمیں ڈیمو کریسی بھی ہضم ہونے لگی۔آج صورتحال یہ ہے کہ آہستہ آہستہ ان کا پورا ڈھانچہ ہمیں قابل قبول ہوگیا ہے۔اس ڈھانچے کی بے شمار خرابیاں ہیں،ایک خرابی یہ ہے کہ ایک جگہ سے اسی سسٹم کے تحت قاضی حسین احمدالیکشن ہار جاتا ہے اورخالد گھرکی جیت جاتا ہے۔ آپ اندازہ کریں اس سسٹم کا کہ وہ کیا سسٹم تھا۔جس میں کتنا بڑا آدمی ہار جاتا ہے اور کتنا چھوٹا جیت جاتا ہے۔(کس لیول کا آدمی ہار جاتا ہے او رکس لیول کا جیت جاتا ہے)میں گزارش یہ کرنا چاہتا ہوں کہ حافظ عفان بن عمار نے اپنی سحر انگیزآواز میںموقع محل کی مناسبت سے قرآن پاک کی جس آیت کی ابھی تلاوت کی ہے،سود کے حرام ہونے میں کوئی شک شبہ کی گنجائش ہی نہیں ہے۔اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے خلاف جنگ،میرے بھائی فرید احمد پراچہ نے اس کا پورا پس منظر بتا دیا۔مجھ سے پہلے تقریر کرنے والے دونوں حضرات کی جتنی باتیں ہیں میں ان کی مکمل تائید اور تصدیق کرتا ہوں۔اس کا سیاق و سباق وہ تو مہاجر تھے اوران کے پاس فوجیں تھیں،وہ تو لڑنے مرنے کیلئے تیار تھے،جب اللہ کا رسول کسی معاشرے میں ہوتا ہے اس کی حکومت،حکومت الٰہیہ ہوتی ہے۔اللہ کے نبی کو احکامات براہ راست اللہ کی طرف سے ملتے ہیں۔نبی کوئی عام آدمی نہیں ہوتا،وہ اللہ کا نمائندہ ہوتا ہے، ہم اپنی عقل سے سوچتے ہیں جبکہ اللہ کے نبی کو تو براہ راست اللہ تعالی کی ہدایات مل رہی ہوتی ہیں۔فرشتے آکر بتا رہے ہوتے ہیں۔وحی جلی ہوتی ہے،وحی خفی ہوتی ہے۔اللہ کا نبی خو د فرماتا ہے کہ میں کچھ بھی اپنی مرضی سے نہیں کہتا۔اس کی تو براہ رست نگرانی ہورہی ہوتی ہے۔جب قرآن پاک اتر رہا تھا تو کہا گیا کہ جنوں کے بھی راستے بند کردیئے گئے۔جب اللہ کا رسول ﷺ دنیا میں موجود ہے اور حکومت کررہا ہے تو وہ حکومت اللہ کی حکومت ہے۔جس کو حکومت الٰہیہ کہا گیا،یہود کو کہا گیا کہ اگر تم سود نہیں چھوڑو گے تو یہ اللہ اور رسول ﷺ کے خلاف جنگ ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 279ہے کہ اگر تم یہ نہیں چھوڑو گے تو اسے اللہ اور رسول ﷺ کے خلاف جنگ سمجھا جائے گا۔سورہ اعراف کی آیت نمبر 83میں اللہ تعالیٰ پانچ چیزوں کی ممانعت کرتا ہے۔اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چارچیزوں کے ساتھ پانچویں حرام چیز وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا اور تم اپنی طرف سے ڈال دو۔جس طرح مسلم کے مقدمہ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو بندہ کوئی بات گھڑ کر اسے میری طرف منسوب کرتا ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔اور ہم بات بات پر میرے نبی نے فرمایا،میرے نبی نے فرمایا۔نہ وہ صحیح دیکھتا ہے،نہ وہ ضعیف اور موضوع دیکھتا ہے۔وہ کوئی سند نہیں دیکھتا،وہ ٹکا ٹک اپنی طرف سے باتیں اللہ کے رسول ﷺ کی طرف منسوب کرتا رہتا ہے۔وہ تو بھلا ہو،ہمارے محدثین کرام کا جنہوں نے اس کو محدود کردیا۔بہر حال میں اگلے آنے والے مقررین کی باتیں سنجید گی اور شوق سے سنوں گا اور خدا کرے ہم کسی مثبت نتیجے پر پہنچ جائیں۔