پیر16 رجب المرجب 1442ھ‘ یکم؍مارچ 2021ء
حمزہ شہباز کی ضمانت پر رہائی کارکنوں کا جشن اور آتش بازی
ایسا شور شرابا اور ہلہ گلہ اس وقت زیب دیتا جب عدالت ان کو بری کر دیتی ۔ ضمانت پر رہائی کا مطلب یہ کہاں ہے کہ مقدمہ ختم ہو گیا ہے یا وہ بری ہو گئے ہیں۔ بہرحال ہمارے نان حلیم اور مرغ بریانی کے مارے ہر جماعت کے کارکنوں نے فرض کر لیا ہے کہ جیسے ہی قائدین کا حکم ملے وہ حقائق دیکھے بنا دھمالیں ،ڈالیں، گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگائیں ۔ اس عارضی خدمت کے دوران وہ یہ بھول جاتے ہیںکہ حکومت میں آنے کے بعد کوئی رہنما کسی نعرے باز کارکن کو یاد نہیں رکھتا۔ انہیںسر پہ نہیں بٹھاتا۔ کیونکہ ہمارے سیاستدان جانتے ہیں کہ ایسے جذباتی کارکنوں کی اوقات کیا ہے۔ نان حلیم ، چائے ، بوتل بریانی یا قیمے والے نان ہی ان کو خوش کرنے کے لیے بہت ہیں۔ ہر سیاسی جماعت میں کچھ ٹھیکیدار قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو مناسب معاوضے پر کارکنوں کو جمع کرنے کی خدمت سرانجام دیتے ہیں۔ یوںبے شمار دیہاڑی دار بھی اس موقع سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ جس دن ہمارے عوام میں یہ شعور بیدار ہو گیا کہ انہیں مار کھانے جیل جانے کا صلہ کیا ملتا ہے وہ قیمتی لینڈ کروزر، پیجارو اور پراڈو کے پیچھے بھاگنے دوڑنے سے انکار کر دیں گے۔ تب جا کر ان اکڑی گردنوں والے سیاستدانوںکے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ متوالے ہوں۔ کھلاڑی ہوں یا جیالے یہ سب معصوم ہوتے ہیں جن کے جنون کو یہ چالاک سیاستدان کیش کرتے ہیں۔ اس سارے کھیل میں فائدہ صرف چالاک اور عیار ٹھیکیدار ہی اٹھاتے ہیں جو مجمع لگانے کے لیے کارکنوں کی فراہمی کا ٹھیکہ لیتے ہیں۔ حمزہ کا معاملہ ابھی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ خدا جانے وہاں سے کیا فیصلہ آتا ہے۔ اگر خلاف آیاتو یہ فتح کا عارضی جشن منانے والے پھر کیا کریں گے۔ تب کیا ہو گا۔ اس وقت شاید مخالفین ناچتے گاتے ہوائیاں چھوڑ رہے ہوں گے۔
٭٭٭٭٭
103 سال پرانے والٹن ائیر پورٹ کو بزنس حب بنانے کا فیصلہ
دنیا بھر میں قدیم عمارات کو تاریخی مقامات کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے انہیں ماضی کا ورثہ قرار دے کر محفوظ کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ شعور نہیں اس لیے ہم ہر پرانی چیز کو بے کار سمجھ کر اسے توڑ پھوڑ دیتے ہیں، گرا دیتے ہیں۔ لاہور کا والٹن ائیر پورٹ 1918ء میں انگریزوں نے تعمیر کرایا تھا۔ طویل عرصہ یہ استعمال ہوتارہا جب نیا علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیر پورٹ بنا تو اس کی اہمیت ختم ہو گئی مگر اس وقت لگتا ہے حکومت پر صنعتی و تجارتی عناصر کا اثر زیادہ ہے۔ وہ ان کی خوشنودی کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ والٹن ائیر پورٹ کی عمارت محل وقوع کے لحاظ سے ایک نہایت مہنگی جگہ پر واقع ہے۔ یہ نہایت قیمتی اراضی ہے۔ اس میں ایک مصنوعی چھوٹا جنگل بھی ہے اس کے علاوہ بھی ہزاروں لاکھوںدرخت لگے ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ علاقہ قدرے پرسکون ہے۔ یہ چھائونی میں واقعہ ہے۔ خدا جانے اسے بزنس حب قرار دینے والے اس بات کو کیسے فراموش کر گئے حفاظتی انتظامات اور سخت چیکنگ کی وجہ سے وہاں آنا جانا خاصہ دشوار گزار مرحلہ ہے۔ بزنس حب کیا ان سختیوں کو برداشت کر پائے گا۔ ان سے بڑھ کر یہاں آباد جنگل اور ہرے بھرے درخت بھی تعمیر کے نام پر کاٹے جائیں گے۔ ان کا کیا بنے گا۔ سرسبز پاکستان کا خواب یہاں چکنا چور ہوتا نظر آئے گا۔ اب کوئی لاکھ کہے ایسا نہیں ہو گا سب درخت محفوظ طریقے سے منتقل ہوں گے مگر لاہوریوں نے محفوظ طریقے سے نکالے اور لگائے گئے درختوں کا انجام بھی اچھی طرح دیکھا ہوا ہے۔ رہی بات والٹن ائیر پورٹ کی پرانی عمارت کی تو وہ بھی ایک صدی کا سفر طے کرنے کے بعد اب ملبے کی شکل میں جہاں ہے جیسی ہے کہ بنیاد پر ہی فروخت ہو گی۔ یوں ایک صدی کی تاریخ کے آثار خود بخود مٹ جائیں گے اور والٹن ایئر پورٹ بھولی بسری داستان بن جائے گا۔
٭٭٭٭٭
لاہور میں آوارہ کتوں کو تحویل میں لینے کا آپریشن شروع
جدت کچھ زیادہ تیزی کے ساتھ ہمارے معاشرے میں سرایت کرتی جا رہی ہے۔ اس میں کچھ مثبت چیزیں بھی ہیں اور کچھ منفی۔ جانوروں سے محبت یورپی معاشرے میں عام ہے۔ ہمارے ہاں بھی پالتو جانوروں سے محبت کی جاتی ہے۔ مگر یہ جو سرعام سڑکوں میں آوارہ وحشی کتوں کے غول در غول پھرتے رہتے ہیں خاص طور پر دیہات اور قصبوں میں ان کا کیا مصرف ہے۔ ان کو مارنے کا عمل خود انگریزوں کا دور سے جار ی و ساری ہے۔ کیا اس وقت کے یورپی جانوروں سے محبت نہیں کرتے تھے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ غول بیابانی کی طرح انسانوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ بچے اور خواتین ان کا خاص طورپر نشانہ بنتے ہیں۔ ان سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی سوائے اسکے کہ ان کو مار دیا جائے ، یہی ان کے خاتمے کاموثر طریقہ ہے۔ اب فیصلہ ہمارا ہے کہ ہمیں انسانوں کی زندگی عزیز ہے یا کتوں کی۔ اب لاہور کارپوریشن نے ایک این جی او کے ساتھ مل کر معاہدہ کیا ہے کہ ان آوارہ کتوں کو تحویل میں لے کر بیمار اورزخمی کتوں کاعلاج کرکے ان کی افزائش روکنے کے لیے ان کی نس بندی کر کے انہیں سرحدی علاقوں میں چھوڑا جائے گا۔ اب بھلا کوئی ان سے پوچھے کہ جناب کیا یہ سرحدی علاقے ہزار میل دور ہیں۔ لاہور سے چند میل پر سرحد ہے۔ وہاں بھی دیہات ہیں آبادیاں ہیں یہ کتے وہاں کیا قیامت مچائیں گے ، اس کا اندازہ ہونا چاہئے۔ این جی او کا کیا وہ تو تحفظ جانور کے نام پر بیرون ملک سے خوب فنڈ بٹورے گی کچھ کمیشن لاہور کارپوریشن والے کھا جائیں گے۔ یوں کتے اور ان کا کاٹنے سے لوگوں کے مرنے کے واقعات یونہی ہوتے رہیں گے۔ یہ تحویل میں لینے کا ڈرامہ کتوں کو مارنے پر پابندی کا قانوں بھارت میں بھی نافذ ہے مگر وہاں ذرا بھر بھی کتوں کے کاٹنے کے واقعات میں کمی نہیں آئی۔ وہاں کے لوگ آج تک یہ غلط فیصلہ کرنے والوں کو کوس رہے ہیں۔وہاڑی میں سرکاری سکول کے بچوں کو ایک گھنٹہ دھوپ میں کان پکڑنے کی سزا، دو بے ہوش
شاید سکول کے ہیڈ ماسٹر کو اسی لیے اب محکمہ ایجوکیشن نے طلب کیا ہے کہ جان سکیں یہ کونسا طریقہ ہے تعلیم عام کرنے کا۔ اس قسم کے وحشیانہ طریقے کے بعد تو بیشتر طلبا تعلیم حاصل کرنے کی بجائے سکول چھوڑنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہی وحشیانہ سزائوں اور مار پیٹ کے غیر کی وجہ سے ہمارے ہاں ہر سال لاکھوں بچے سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ تعلیم عام کرنے کا ہر پروگرام انہی مہربانیوں کی وجہ سے ناکامی کا شکار ہوتا ہے۔ سابق حکومت نے مار نہیں پیار کا جو نعرہ لگایا تھاوہ بھی کوئی خاص اثر نہیں دکھا سکا۔ اب تو لگتا ہے ایک بار پھر پیار نہیں مار کے اصولوں پر اساتذہ سختی سے عمل پیرا ہونے لگے ہیں۔ دیکھتے ہیں ان کے اس طرز عمل سے شرح خواندگی میں اضافہ ہوتا ہے یا وہ مزید نیچے گرتی ہے۔ طلبہ معصوم ہوتے ہیں ذرا ذرا سی بات پر انہیں ایسی سخت سزائیں دینے سے ان کی خوداعتمادی بھی متاثر ہوتی ہے اور ان میں خوف سرایت کر جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ تعلیم سے باغی ہو جاتے ہیں اور ان کی شخصیت بگڑ جاتی ہے۔ حکومت ایسے اساتذہ پرکڑی نظر رکھے اورایسی سزائوں کے خاتمے کے قانون پر سختی سے عمل کرائے۔ ڈر ضروری ہے مگر اس حد تک جہاں طالب علم بھی خوف محسوس کرے مگر اس طرح سخت سزا دینا وحشیانہ تشدد کرنا کسی صورت اساتذہ کو زیب نہیں دیتا۔ افسوس کے ہمارے سکول ہوں یا مدارس ہر جگہ یہی مار پیٹ و تشدد عام ہے۔