نئی انتخابی دھاندلی
حالیہ واقعات نے ۷۰ کی دہائی میں ہونے والے ایک ضمنی انتخاب کی یاد تازہ کردی۔ بڑا کانٹے کا مقابلہ تھا جس میں پیپلز پارٹی کے بدیع الحسن زیدی اس وقت کی مقبول جماعت جو یو پی کے امیداوار احد یوسف کے سامنے صف آرا تھے۔ یاد رہے کہ اس زمانے میںمشہور انگریزی کے جریدے ٹائم نے ایک مضمون میں اعتراف کیا تھا کہ حیدر آباد کنجی کا شہر ہے۔اس وقت جے یو پی کا انتخابی نشان کنجی تھا اور حیدر آباد میں اس کا طوطی بولتا تھا۔احد یوسف کو ہرانے کے لئے حکمراں جماعت نے سارے ہتھکنڈے استعمال کرلئے مگر جب شام کو پولنگ کا وقت ختم ہوا تو گویا آسمان پر لکھا تھا کہ احد یوسف کامیاب ہونگے اور وہ بھی ایک بہت بڑی اکثریت کے ساتھ۔ پاکستان کا ہمیشہ سے المیہ رہا ہے کہ حکمراں ہر انتخاب کو عزت کا سوال بنا لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کسی بھی ضمنی انتخاب میں شکست ان کو عوام کی نظروں میں گرا دیتی ہے۔یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔احد یوسف کے حامیوں نے اپنی طرف سے تمام تدابیر کر لیں تھیں جیسے کئی جگہ اونٹ گاڑیاں تک لگا کر پولنگ اسٹیشن سے باہر جانے والے راستے بند کردیئے تھے تاکہ ریٹرننگ آفیسر جب تک سب کے سامنے ہونے والی گنتی کے نتائج کی تصدیق نہ کردے اسے جانے کا موقع نہ ملے۔ظاہر ہے جس کے پاس ریاستی طاقت ہو اسے کون روک سکتا ہے اور کئی ریٹرننگ آفیسر گنتی کی تصدیق کئے بغیر بھاگ گئے اور پھر حکمراں جماعت نے عجلت میں نتیجہ میں ہیر پھیر کی اور بدیع الحسن زیدی کو دس ہزار کے قریب ووٹوں سے کامیاب قرار دے دیا گیا۔ یہ خبر آتے ہی گویا حیدر آباد میں آگ لگ گئی اور لوگ سڑکوں پر نکل آئے جس سے پولیس کے ساتھ تصادم کی فضا بنی اور دو افراد پولیس کی گولیوں سے شہید بھی ہوگئے۔ حکمراں جماعت حالات کی سنگینی کو سمجھ گئی اور کراچی سے وزیر قانون عبدالوحید کٹپر کو بھیجاگیا کہ وہ حالات کو سنبھالنے کی کوشش کریں۔ اب رات کو دو بجے کے قریب ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں گنتی شروع ہوئی جو جہاں تک مجھے یاد ہے دربار ہال کہا جاتا تھا۔ظاہر ہے کہ متعلقہ افسران نے یہ سب دھاندلی جلدی میں کی تھی اور ووٹ کے ڈبوں کو زبردستی بھرا گیا تھا اس لئے غلطی بھی ہوئی تھی۔ اس وقت کے سب سے فعال ایم پی اے ظہورالحسن بھوپالی نے گنتی کے دوران ان کتابوں کا بھی معائنہ کیا جس میں سے ووٹ پھاڑ کر دیئے گئے تھے اور سب کو متوجہ کرتے ہوئے ان سے کہا کہ زرا دو باتوں پر غور کریں کہ ایک تو کیا کسی انتخاب میں یہ ہوسکتا ہے کہ کسی بھی پولنگ بوتھ پر کھڑے ووٹر میں ایک سے سو اور سوا سو تک سب ایک ہی پارٹی کے ووٹر ہوں جیسا ان ووٹوں کی سیریل نمبر سے ظاہر ہورہا ہے جس میں لگاتار کئی کئی سو ووٹ زیدی صاحب کے نظر آرہے ہیں۔ اس کے بعد بھوپالی صاحب نے توجہ دلائی کہ اگر کتاب میں سے ووٹ ایک ایک کرکے پھاڑا جائے جو معمول ہوتا ہے تو بچے ہوئے حصے ایک سیدھ میں نہیں ہوسکتے بلکہ اس میں اونچ نیچ ہوتی ہے مگر یہاں سب ایک ترتیب سے ہیں۔ اس وقت کے وزیر قانون سندھ جناب کٹپر کے الفاظ مجھے ہمیشہ یاد رہیں گے جنہوں نے غصے سے ڈپٹی کمشنر سے کہا بے ایمانی کر نے کا بھی کوئی طریقہ ہوتا ہے۔ آج ڈسکہ کے انتخابات کے بارے میں سوچتا ہوں تو یہ الفاظ بار بار میرے کانوں میں گونجتے ہیں۔ وقت بدل گیا اور حالات بدل گئے مگر اس ملک کی سیاست کا ڈھنگ نہیں بدلا۔کس نے سوچا تھا کہ جو خواتین اور حضرات اس ملک میں انتخابات میں شفافیت کے منشور پر ایوان اقتدار تک پہنچیں گے وہ اقتدار کے نشے میں اس قدربے قابو ہوجائیں گے کہ ڈبے بھرنا تو چھوڑیئے ایک دو نہیں بلکہ بیس پریزائیڈنگ افسران کو ہی غائب کردیں گے۔ اگر مرحوم کٹپر صاحب آج حیات ہوتے تو اس دیدہ دلیری پر ششدر ہی رہ جاتے اور نہ جانے اس واقعے پر ان کا کیا تبصرہ ہوتا۔ڈسکہ کا واقعہ شاید پاکستان کی انتخابی تاریخ کا تاریک ترین واقعہ ہے اور اس نے پاکستان کے عوام کو اس لئے اور بھی حیران کردیا ہے کہ یہ ایک ایسی جماعت کے اشاروں پر ہوا جو اپنے آپ کو سچائی اور دیانت داری کی مثال کا درجہ دیتی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بیچارے حکمراں جماعت کے عہدیدار اوپر کے اشاروں بلکہ احکامات کے سامنے مجبور ہو کر بقول ایک انگریزی کے محاورے کے ناقابل دفاع کا دفاع کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ تو حزب اختلاف کی عادت ہے کہ جہاں جیت گئے وہاں انتخابات صاف شفاف اور جہاں ہار گئے وہاں دھاندلی کا شور مچائو۔ حضور والا اس بار بات بالکل مختلف ہے۔ اسی دن ہونے والے دوسرے انتخابات میں کسی بھی جگہ درجنوں کے حساب سے پریذائیڈنگ افسران یکایک غائب نہیں ہوئے اور نہ انہوں نے اپنے موبائل بند کئے تو ان انتخابات کا موازنہ تو کسی اور سے نہیں کیا جاسکتا۔ چھوٹی موٹی دھاندلی کے الزامات تو ہر انتخابات میں لگتے ہیں مگر کسی میں نگراں ٹیم کو غائب نہیں کیا جاتا۔ڈسکہ کے انتخابات اس طرح منفرد تھے کہ صاحب اقتدار خوف خدا بھلا کر اور عوامی رائے اور قانونی پابندیوں سے لاپرواہ اس حلقے پر ایسے ٹوٹ پڑے جیسے یہ ڈسکہ نہیں نائیجیریا یا روانڈاکا کوئی قصبہ ہے جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا رویہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ انتخابات کے فوری بعد ہونے والے حکومتی اقدامات بھی اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ یہ کارنامہ حکومت کے ایما پر اور ان کی نگرانی میں ہوا۔ اگر حکومت اس میں ملوث نہ ہوتی یا یہ کام کسی نچلے درجے کے افسر نے اپنی صوابدید پر کیا ہوتا تو وزیر اعظم کا اور ان کے اہم ارکان کابینہ کا کیا رد عمل ہوتا۔ جی ہاں اس واقعہ پر غم اور غصے کا بھر پور اظہار ہوتا اور خود وزیر اعظم الیکشن کمیشن کے احکامات کا انتظار کئے بغیر فوری طور پر متعلقہ افسران کیخلاف کارروائی کرتے اور پہلے چند گھنٹوں میں وزیر اعلی پنجاب۔آئی جی پنجاب اور متعلقہ ڈپٹی کمشنر کو ان کے عہدوں سے ہٹاتے اور خود ہی مطالبہ کرتے کہ فوری طور پر نئے انتخابات کرائے جائیں۔ ہم سب نے دیکھا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ پہلے دن سے حکمراں جماعت بضد تھی کہ کوئی دھاندلی نہیں ہوئی اور یہ بادشاہت کے پیروکار ہیں جو شکست تسلیم نہیں کرسکتے۔تقریبا سارے ٹی وی پروگرام میں حکمراں جماعت کے نمائندوں کی ایک ہی حکمت عملی تھی کہ جس چینل پر بھی جائو معاملے کو اس قدر گھمانے کی کوشش کرو کہ اصلی الزامات پر کوئی بات نہ ہو سکے اور گھوم پھر کر مخالفین کی کردار کشی ہو اور لا تعلق موضوعات کے گرد سارے پروگرام گھومتے رہیں۔اس قسم کی حکمت عملی کی اس جماعت کو خاصی مہارت حاصل ہے جس کی وجہ سے اور بھی مسائل پر گفتگو کسی نتیجہ خیزانجام کو نہیں پہنچ پاتی کیونکہ اس کے ارکان ہر رات ہر ٹی وی اسٹیشن کے پروگراموں میں کوئی ٹھوس بات کرنے ہی نہیں دیتے۔ڈسکہ کے انتخابات کے سلسلے میں پاکستان الیکشن کمیشن نے جو کارروائی کی وہ بھی ایک تاریخی درجہ رکھتی ہے اور ہونا بھی چاہئے تھا کیونکہ جو کچھ اس دن ڈسکہ میں ہوا اس نے نہ صرف پاکستان میں جمہوریت کی پیٹھ میں چھرا گھونپا بلکہ الیکشن کمیشن کے ساتھ بھی ایسا کھلواڑ کرنے کی کوشش کی کہ اگر خدانخواستہ الیکشن کمیشن فوری اور سخت کارروائی نہ کرتا تو اس کا شمار بھی ان کٹھ پتلی اداروں میں ہوجاتا جو خاں صاحب کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔دنیا کتنی ترقی کرگئی اور مختلف ممالک میں ادارے کس قدرمضبوط اور قابل اعتماد ہوگئے مگر ہم نے الٹی گنتی کی طرح الٹی ترقی کی اور جہاں پچاس سال پہلے عجلت میں ڈبے بھر کرانتخابات چرائے جاتے تھے اب سکون کے ساتھ نگراں افسران کو ہی اغواکر لیا جاتا ہے اور ساری ساری رات وہ من پسند نتائج تیار کرتے ہیں۔ واقعی تبدیلی تو اسی کو کہتے ہیں۔ نئے پاکستان میں نئی انتخابی دھاندلی مبارک ہو۔