کرونا وائرس جو کچھ عرصے سے تمام دنیا کا اہم ترین مسئلہ بنا ہوا ہے پاکستان میں بھی آن پہنچا ہے۔ حکومتی دعویٰ ہے کہ ایسے حفاظتی انتظامات کر دیے گئے ہیں کہ یہ وائرس پاکستان میں زیادہ نہیں پھیلے گا۔ اس کے باوجود یہ خبر آتے ہی کہ پاکستان میں یہ وائرس آ گیا ہے پانچ روپے والا عام ماسک پچاس سے دو سو روپے تک کا کر دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے پرائس کنٹرول کی اہمیت اپنی جگہ لیکن بلیک مارکیٹ اور دوسروں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے والے کاروباری افراد کو اپنے طور پر بھی کچھ سوچنا ، اور خدا کا خوف کرنا چاہئیے۔ ان ذرائع سے کمائے گئے پیسے بھی دنیا میں ہی رہ جانے ہیں۔ آنے والے چند دنوں میں کیا ہو گا اور ہمیں اس وائرس سے کتنا خوفزدہ ہونے کی حقیقی ضرورت ہے کو سمجھنے کے لیے ہمیں پہلے اس وائرس اور اب تک دنیا میں اس سے ہونے والے نقصانات کو سمجھنا ہوگا۔کرونا وائرس گروپ میں بہت سے مختلف وائرس شامل ہیںجو مختلف اقسام کی سانس کی بیماریاں پیدا کرتے ہیں۔ اس وائرس کی ایک نئی قسم وجود میں آئی ہے جسے ’’ ناول کروناوائرس‘‘ یا ’’ کووڈ ۱۹‘‘ (COVID19) کا نام دیا گیا ہے۔ چونکہ یہ ایک نیا وائرس ہے اس لیے اس کے بارے میں بہت زیادہ اور مکمل معلومات نہیں ہیں لیکن اب تک سائنسدانوں نے جو معلومات حاصل کی ہیں ان کے مطابق اس وائرس سے متاثرہ مریضوں میں 99 فیصدکو بخار، جبکہ جسم میں درد، خشک کھانسی اور سانس لینے میں ہلکی یا زیادہ دشواری 60 تا 70 فیصد مریضوں میں پیدا ہوتی ہے۔ نزلہ ، چھینکیں اور بلغم والی کھانسی صرف پانچ فیصد مریضوں میں ہوتی ہے۔ اس وائرس سے متاثرہ مریض کے سانس اور لعاب میں یہ وائرس ہوتا ہے۔سانس، چھینک یا کھانسی سے اسکا لعاب چھوٹے چھوٹے قطروںکی صورت میں دوسرے کے سانس میں شامل یا پھر ارد گردکی پڑی ہوئی اشیا پر گر جاتا ہے۔ ان اشیا ، جیسے میز، کرسی موبائل وغیرہ کو جب کوئی دوسرا شخص ہاتھ لگائے اور پھر یہ ہاتھ اپنے منہ، ناک یاآنکھوںکولگائے تو بیماری اس میں منتقل ہو سکتی ہے۔ اس صورتحال میں اہم ہے کہ معمولی بیمار لوگوں سے بھی ملنے ملانے میں احتیاط برتی جائے۔ اسی طرح عوام کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ اگر کسی کو بدن میں درد، معمولی یا زیادہ بخار اور خشک کھانسی بھی ہو جومعمولی بھی لگتی ہو تو بھی احتیاط کے طور پر بیماری کے دنوں میں دوسروں سے ملنے ملانے میں احتیاط کریں اور غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزشن کی سفارشات کے مطابق عوام کو چاہئیے کہ اگر اس وائرس کے پھیلائو کا خطرہ ہو تو آپس میں میل ملاقات کے وقت کم از کم ایک سے تین میٹرکا فاصلہ رکھیںتاکہ سانس، کھانسی اور چھینک سے مبینہ وائرس نہ پھیلے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ آنکھوں، ناک اورمنہ کو چھونے سے پرہیز کریں اور بار بار ہاتھ دھوئیں اور ہاتھوں، ناک اور منہ کی صفائی کا خاص خیال رکھیں۔ اگر کسی میں اس انفیکشن کی علامات ظاہر ہوں تو خود رضاکارانہ طور پر اپنا معائنہ کرائیں اور خود ہی احتیاط کریں کہ یہ بیماری دوسروں کو نہ لگے۔ دراصل اس قسم کی وبا کو روکنے کے لیے ایک اجتماعی احساس ذمہ داری اور شعور کی ضرورت ہے۔ معلوم نہیں کہ جو قوم سرخ بتی پر رکنا بے عزتی اور جان بوجھ کر ون وے کی خلاف ورزی کرنا عزت سمجھتی ہو اس سے اس قسم کی توقع رکھنا چاہیے کہ نہیں؟ باوجود اس کے کہ ہمارے کاروباری حضرات نے تو آٹے سے کمائی کے بعد اب عام ماسک کی قیمت کئی سو گنا بڑھا دی ہے اور میڈیا اور حکومت کا سارا زور بھی صرف فیس ماسک پر ہے ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزشن کے مطابق عام عوام کو ماسک پہننے کا نہ تو بہت زیادہ فائد ہے اور نہ ضرورت۔ ماسک صرف ’’ ہیلتھ کئیر ورکرز‘‘ اور ایسے لوگوں کو پہننا چاہئیے جو خود یا جن کے گھر میں کرونا کا کوئی مریض ہے۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ماسک اور دیگر حفاظتی لباس پہننے کا درست طریقہ اور پروٹوکول بہت اہم ہے۔ اگر ان چیزوں کے استعمال اور اسکے بعد ان کو تلف کرنے کا طریقہ کار درست نہ ہو تو یہ سب چیزیں اس بیماری سے بچانے کی بجائے اسکے زیادہ پھیلائو کا سبب بن سکتی ہیں۔گزشتہ روز مختلف چینلز پر حکومتی اقدامات کے ثبوت کے طور پر دکھایا اور بتایا جا رہا تھا کہ کراچی کے تین ہسپتالوں میں ’’آئیسولیشن وارڈ‘‘ بنا دیے گئے ہیں۔ دکھائے جانے والے مناظر میں ان ’’ آئیسولیشن وارڈوں ‘‘ میں ہسپتال کے عملے سمیت میڈیا کے نمائندے اپنے کیمروں اور سازو سامان سمیت عام کپڑوں میں گھوم پھر رہے تھے اور ایک ڈاکٹر صاحب جن کو ماسک پہننے کا سلیقہ تک نہیں تھا وہ اپنی ناک ماسک سے باہر نکالے میز پر رکھی کچھ اشیاء دکھا رہے تھے۔ تکنیکی تفصیلات میں جائے بغیر صرف اتنا عرض کروں گا کہ صرف ماسک پہن لینے کا نام آئیسولیشن وارڈ نہیں ہوتا۔ ان چیزوں کو اگر آئیسولیشن وارڈ کا نام دیا جا رہاہے تو متعلقہ حکومت کو سب اچھا ہے کی رپوٹیں دینے والے غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں عوام کے ساتھ بھیانک مذاق کر رہے ہیں۔اسی طرح ائیرپورٹس پر کئے جانے والے ہمارے انتظامات میں ’’ ہیٹ سکینر‘‘ بھی اس سلسلے میں محدود فائدہ ہی دے سکتے ہیں۔ اسکی وجہ اس وائرس کا ’’ انکیوبیشن پیریڈ‘‘ ہے جو 2 تا 14 دن ہے۔انکیوبیشن پیریڈ وہ دورانیہ ہے جب انسان کے جسم میں کوئی وائرس داخل ہو چکا ہوتا ہے لیکن اس میں ابھی بیماری کے آثار ظاہر نہیں ہوتے۔ یعنی انسانی جسم میں یہ وائرس داخل ہونے اور بخار اور بیماری کے دیگر آثار پیدا ہونے کے درمیان 14 دن تک کا وقفہ ہو سکتا ہے اور ممکن کے کہ ایک بظاہر صحت مند بندہ پاکستان میں داخل ہو لیکن اسکے اندر یہ وائرس موجود ہو اور اسمیں بیماری کے آثار دو ہفتے بعد پیدا ہوں۔ ان تمام باتوں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ اس وائرس سے بہت زیادہ خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور میڈیا کو بھی ذمہ داری کامظاہرہ کرتے ہوئے ’’ جان لیوا کرونا وائرس‘‘ جیسے الفاظ استعمال کر کے غیر ضروری خوف کی فضا قائم نہیں کرنی چاہئیے۔ سائنسی پیپرز میں اب تک کے تقریباََ 80 ہزار رپوٹڈ مریضوں کے اصل اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس وائرس سے ہونے والی اموات کی شرح بہت سی دیگر عام بیماریوں سے کم ہے،اور بہت سے دیگر عوامل پر منحصر ہے جیسے کہ متاثرہ شخص کی عمر اور اسمیں پہلے سے موجود دیگر بیماریاں۔ عمر کے حساب سے دیکھا جائے تواس وائرس سے متاثرہ، دس تا انیس برس عمر کے مریضوں میں شرح اموات 0.2 فیصد، چالیس تا پچاس برس کے مریضوںمیں 0.4 ، پچاس تا انسٹھ برس کے مریضوں میں 1.3 اور 80 برس سے زیادہ عمر میں 4 فیصد ہے۔ جوان افراد جن میں کوئی دیگر بیماری نہیں میں کرونا وائرس سے شرح اموات اوسطاََ 0.9 فیصد جبکہ پہلے سے موجود دل کی بیماری کی صورت میں 10.5 فیصد اور شوگر کے مریضوں میں 7.3 فیصد ہے۔ 80 فیصد متاثرہ افراد ہلکی پھلکی بیماری کے بعد بغیر کسی خاص علاج کے گھر میں ہی ٹھیک ہو گئے تھے۔ مختصر یہ کہ خوف زدہ ہونے اور گھبراہٹ پھیلانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے اور عملی طور پر پانچ وقت وضو اس مرض سے بچائو کی بہترین ترکیب ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024