امارات پالیسی مرکز ابوظبیی کی نابغہ صدر ڈاکٹر ابتسام الکتبیی (2)
یہ عرب فتح یورپی یونین سے برداشت نہیں ہوئی لہذا یمن میں صلح کے نام پر یورپی یونین نے مداخلت کر کے خود قبضہ کرنے کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ (گویا شام میں عربوں کی بشارالاسد کے سامنے شکست امریکی سبب سے ہوئی تو یمن میں اماراتی وسعودی فتح ہوتی صورتحال کو مغرب نے نہایت چالاکی سے دبوچ کر روک دیا ہے ڈاکٹرابتسام نے تسلیم کیا کہ ایرانی بہت شاطر اور بہت ذہین ہیں۔ وہ اپنی ایمپائر خوا ہشوں کو نہایت عمدہ حکمت عملی سے سامنے لاتے ہیں۔ مثلاً جب دنیا کے سامنے ایسے ایران کو سامنے لانے کی شدید ضرورت تھی کہ ان کی عالمی مخالفت ختم ہو جائے تو ڈاکٹر رافسنجانی پھر ڈاکٹر خاتمی جیسے ریفارمرز کو صدر بنوایا گیا۔ جب دنیا نے ایران کے ان ریفارمرز صدور کے ذریعے ایران کے لیے اپنا سخت رویہ کچھ نرم کرلیا تو فوراً ریفارمرز کو نکال کر احمدی نژاد جیسے سخت گیر کو صدر بنوا دیا گیا تھا۔ جب احمدی نژاد کی صدارت سے دنیا ایران سے تنگ آکر بہت پیچھے ہٹ گئی اورمعاشی طور پر ایران کے لیے نئے مسائل پیدا ہوگئے تو پھر ریفارمر کارڈ استعمال کرکے حسن روحانی کو صدر اور جوادظریف کو اس کے ساتھ وزیر خارجہ لگا دیا یوں ایران انقلابی وجود بہت ذہانت وفطانت سے معصوم دنیا کو اپنے مقاصد میں استعمال کرتا رہتا ہے۔ مگر بہت جلد ہی دنیا کو پتہ چلتا ہے کہ ایران پر اعتماد کرکے غلطی کی گئی ہے۔ صدر حسن روحانی اور وزیر خارجہ جواد ظریف جیسے ریفارمرز کو استعمال کرکے امریکی ڈیپ اسٹیٹ کی وساطت سے صدر اوبامہ حکومت سے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے معاہدہ کرکے اس معاہدے کو ایرانی انقلابی مقاصد کی تکمیل میں استعمال کیا گیا ہے۔ جونہی معاشی پابندیاں ختم ہوئیں فوراً حاصل شدہ دولت کو نیشن اسٹیٹس کو توڑنے اور اپنے آقا وجود کو دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے استعمال کیا گیا اب ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ پچھتا رہی ہے کہ اس نے بہت کچھ غلط کر دیا۔ ڈاکٹر ابتسام نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ کس طرح لبنان میں تخلیق ہوئی؟ صدیوں سے شیعہ ‘ سنی ‘ عیسائی‘ دروز اوردیگر سب لبنان میں پرامن طریقے سے رہتے تھے جبکہ لبنان میں شیعہ اکثریت میں نہیں ہیں۔ مگر ایران نے حسن نصراللہ کوقم میں بلوایا تھا ۔ بعد میں یمن سے حوثیوں کو بھی قم میں بلوایا تعلیم کے نام پر ان کی برین واشنگ کی گئی تھی۔ اس برین واشنگ سے لبنانی ریاست اور لبنانی عوام کے سامنے مسلح حزب اللہ کو کھڑا کیا گیا ہے اب لبنانی نیشن اسٹیٹ مسلح حزب اللہ کے ہاتھوں میں یرغمالی ہے۔ جو کچھ لبنان وشام میں ایران چاہتا ہے وہ حزب اللہ اپنے اسلحے کے زور پر کراتی رہتی ہے۔ پوری لبنانی قوم اور ریاست ایرانی حکمت عملی کے ہاتھوں یرغمال بن کر ناکام ہوگئی ہے۔ یہی کہانی یمن میں حوثیوں کے حوالے سے ہے۔ زیدی اور حوثی تو بہت تھوڑے ہیں مگر حزب اللہ کے طریقے پر حوثیوں کو ایران بلوا کر اسکالر شپ دیکر انقلابی برین واشنگ کی گئی اور پھر حزب اللہ کے ذریعے حوثیوں کو عسکری تربیت دی گئی اور پھر صدر صالح سے لڑوا دیا گیا (یمن میں شافعی مسلک سے تعلق رکھتی اکثریت تقریباط 70-65 فیصد ہے۔ زیدی شیعہ اس کے بعد آتے ہیں۔ اثنا عشری بہت قلیل ہیں۔ یوں 20 فیصد زیدی اور اثناعشری بنتے ہیں 10 فیصد اسمعیلی اور دیگر مذاہب کے لوگ ہیں) جاوید صدیق نے ڈاکٹر ابتسام سے پوچھا کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ (جسے روزنامہ ڈان نے بھی شائع کیا تھا کے مطابق پوری مسلمان دنیا میں شیعہ صرف 9-8 فیصد ہیں۔ پھر کس طرح ایران اپنا انقلاب 90 فیصد سنی مسلمانوں پر نافذ کرسکتا ہے؟ ڈاکٹر ابتسام نے نہایت سنجیدگی سے کہا صرف اپنی منظم حکمت عملی‘ ذہانت‘ فطانت سے ‘ معصوم دکھائی دینے والے طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے ایران میں دینی تعلیم اور دوسری تعلیم کے لیے دوسرے ملکوں کے افراد کو وظیفے دئیے جاتے ہیں۔ معصوم شیعہ خاندان اپنے بچوں کو شیعہ مسلک یا دوسری تعلیم اخلاص کی بنیاد پر دلوانے کے لیے ان اسکالرز شب کو قبول کرتے ہیں مگر جو بھی ایران میں تعلیم کے لیے جاتا ہے ۔ اس کی برین واشنگ کر دی جاتی ہے۔ وہ واپس اپنے معاشرے میں آکر انقلابی ایران کا نمائندہ بن جاتا ہے۔ اصل میں مسلک کا معاملہ نہایت معصوم ہے مگر اس کا سیاسی استعمال نہایت فراست سے کرکے سیاسی مقاصد کا حصول ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ابتسام نے کھل کر کہا کہ نیوکلیئر معاملے کے بعد ایرانی ایمپائر توسیع اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اسے رکنا چاہیے کیونکہ شیعہ کریسنٹ کا خواب معصوم شیعہ عوام کو دکھا کر انہیں ایرانی مقاصد کے لیے مسلسل غلط طور پر استعمال کیا جاتا ہے یوں معصوم شیعہ سادہ لوہی سے استعمال ہو جاتے ہیں جبکہ ڈاکٹر ابتسام نے ایران کے جمہوری صدارتی نظام پر بات چیت کرتے کرتے اچانک اس طرف توجہ دلائی کہ دنیا ذرا غور کریں کہ جب ریفارمرز صدور کو پیش کیا جاتا رہا ہے تو ساتھ ہی وہ مخفی طورپر ولایت فقہیہ کے سخت گیر مذہبی نظام (علی خامینائی) کے یرغمال اور مقید بھی ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کے سیاسی استعمال کے بعد نتائج صرف وہ استعمال ہوتے ہیں جو ولایت فقہیہ ( علی خامینائی) کا نظام انقلاب چاہتا ہے۔ گفتگو کے دوران میں نے نوٹس نہیں لیے جبکہ برادرم جاوید صدیق نے نوٹس لئے تھے۔ میں نے حافظے میں محفوظ گفتگو کا مخلص اپنے الفاظ میں قارئین کی ذہنی سطح کو سامنے رکھ کر تحریر کیا ہے۔ میری یہ کاوش عربوں اور ایران میں جاری کئے ہوئے میرے طویل مکالمے کی ہی ایک قسط سمجھ لیں۔ میرا مقصد انتشار اور نفرت پیدا کرنا نہیں بلکہ مسائل کا فہم اور اگر ان کا حل ممکن ہو تو اس حل کی طرف راستے تیار اور ہموار کرنا ہے ڈاکٹر ابتسام کا سوال ہے کہ نارتھ افریقہ میں تو شیعہ اکثریت نہیں پھر ایران کیوں وہاں پر موجود ہے؟ تحریر مکمل کررہا تھا تو ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے استعفیٰ کی خبر دیکھی۔ ان کا استعفیٰ مرشد انقلاب علی خامینائی سے شدید اختلافات کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے۔ (ختم شد)