ریگستاں کو گلزار بنانے والے سپوت
چھبیس فروری کو انٹرنیشنل کانفرنس کے لیے سنٹر فار گلوبل اینڈ سٹرٹیجک سٹڈیز )سی جی ایس ایس( کی طرف سے ایک دُہرا دعوت نامہ موصول ہوا، ایک تو حسب معمول حکم ظہیر ) لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کی طرف سے( اور دوسرا متحدہ عرب امارات )یو اے ای( کے سفیر حامد عبید الزابی کی جانب سے تھا۔موضوع ’’پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات میں امن اور خطے کی سیکیوٹری کے حوالے سے دلی اور گرمجوشانہ تعلقات کی ساخت کا تھا! سی جی ایس ایس کی جانب سے ہمیشہ بہت عمدہ کانفرنسز کا اہتمام ہوتاہے اس بار بھی کرنل )ر( خالد تیمور اکرم اور میجر )ر( محمد اقبال اپنی ٹیم کے ساتھ پیش پیش تھے، جب کہ یو اے ای کی سفارت کے سینئر عہدیدار بھی مہمانوںکو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ کانفرنس کے چار سیشن تھے۔پہلے سیشن میں وزیراعظم کے سپیشل اسسٹنٹ برائے سمندر پار پاکستانیز جناب ذوالفقار )زلفی( بخاری، دوسرے سیشن میں بورڈ آف انوسٹمنٹ کے چیئرمین وفاقی وزیر مملکت ہارون شریف، تیسرے سیشن میں وزیر مملکت برائے احتساب بیرسٹر مرزا شہزاد اکبر اور چوتھے سیشن میں محترمہ زرتاج گل وزیر مملکت برائے کلائمیٹ چینج مہمان خصوصی تھیں۔ دیگر مقررین میں یو اے ای اور پاکستان عالمی شہرت کے دانشور اور سکالرز تھے۔ یو اے ای 50/60 سال قبل ایک ریگستان تھا۔تقریباً 40 سال قبل یہاں کے ایک لیڈر نے ایک خواب دیکھا خواب تھا ترقی کا خواب تھا انقلاب کا اور خواب تھا دنیا کے بڑے ممالک میں ایک مضبوط ملک کی حیثیت سے شامل ہونے کا، اس لیڈر کا وژن بھی کمال کا تھا۔نہایت عمدہ سوچ، خوبصورت منصوبہ بندی اور بھرپور محنت سے شیخ زید بن سلطان النہیان نے اس پر عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا۔ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے خلیفہ بن زائد النہیان نے اسی سوچ کے ساتھ کمال ہی کر دیا اور آج اس ریگستان کو یہاں لا کے کھڑا کر دیا۔ اس وقت یو اے ای کا شمار دنیا کے دس بڑے امیر ممالک میں ہوتا ہے۔ دوبئی بالخصوص بہت ہی خوبصورت شہر ہے، دنیا بھر کے انوسٹرز یہاںپر کام کرنا اور جائیداد خریدنا اعزاز سمجھتے ہیں۔ سیاحوں کی تعداد یہاں سینکڑوں نہیں بلکہ لاکھوں ہوتی ہے، یو اے ای میں دنیا کی ہر نسل اور مذہب کے لوگ بستے ہیں۔ دنیا کے ہر خطے سے لوگ محنت ،مزدوری اور روزگار کے لیے آتے ہیں۔اسی طرح دنیا کے بڑے بڑے پروفیشنلز، اعلیٰ ترین کمپنیاں یہاں پر کام کرنا نہ صرف اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں بلکہ ایک ضرورت بھی۔ اب یہاں پر سبزہ بھی ہے اور پھول بھی، مختلف طرح کے جانور بھی ہیں اور پرندے بھی۔ اس وقت یہاں پر دنیا کے بہترین کرکٹ سٹیڈیم بھی ہیں اور فٹ بال کی گرائونڈز بھی، اور ہر طرح کی انٹرنیشنل سپورٹس کے لیے عمدہ اور محفوظ ترین مقامات ہیں۔ مضبوط معیشت کے ساتھ ساتھ نہ صرف خطے بلکہ دنیا بھر میں یو اے ای کا ایک خاص مقام ہے اور اسی طرح شہزادہ خلیفہ بن زائدالنہیان کا امیج دنیا بھر میں قدآور شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ترقی کے اس سفر میں بہت سارے فیکٹرز شامل ہیں۔ یہاں ہر طرح کی مذہبی آزادی ہے۔ہر قوم کی عبادگاہیں موجود ہیں جن کی حدود میں وہ اپنے اپنے انداز میں عبادات کر سکتے ہیں۔ مگر یہاں مذہب کو نہ تو سیاست کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور نہ ہی کسی کا آلہ کار بننے دیا جاتا ہے کلچر کے لحاظ سے یہاں ہر طرح کے کھانے، لباس اور زیورات موجود ہیں اور ہر نسل اور ہر رنگ کے لوگ اپنے اپنے تہوار اور رسومات ادا کر سکتے ہیں۔ سب سے مضبوط ترین اگر کوئی چیز ہے تو وہ قانون ہے۔ رول آف لاء سے ہٹنے کا یہاں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور یہ ہے کامیابی کی وہ کنجی کہ جس کا عزم روز اول سے شیخ زید بن سلطان النہیان نے کیا۔یو اے ای کو موجودہ پوزیشن تک لانے میں پاکستان کا بھی بڑا کلیدی کردار رہا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے کے ماہرین نے یہاں آ کر اپنی خدمات پیش کیں۔ یو اے ای کی ائیر لائن کو ہماری قومی ائیر لائن پی آئی اے نے کھڑا کیا جو اس وقت دنیا میں ایک مقام رکھتی ہے۔ ڈیفنس کے حوالے سے ہمیشہ پاکستان کی طرف سے یو اے ای کو مثبت جواب ملا اور باالخصوص ہماری بری،بحری، اور فضائی فوج نے نہ صرف وہاں تربیت دی بلکہ اپنی ہر طرح کی صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے انتہائی مثبت کردار ادا کیا۔
یو اے ای کے لوگ اور بالخصوص شاہی خاندان کے افراد پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔ جب بھی کوئی مشکل وقت آیا کبھی پاکستانیوں کو مایوس نہ کیا۔ زیادہ دور نہیں جاتے،2005 میں جب ہمارے ملک میں زلزلہ ا ٓیا تو یو اے ای والوں نے نہ صرف کھل کر ہر طرح کی امداد دی بلکہ بعد میں افراد کی بہبود، ان کے گھروں، سکولوں، کالجوں اور ہسپتالوں کی تعمیر میں دل کھول کر مدد دی اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ پھر 2010-14 تک سیلاب آئے،یو اے ای نے دائیں دیکھا نہ بائیں ہماری جو ضروریات تھیں انہیں پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ہمارے قبائلی علاقوں میں جہاں دہشت گردی سے بے بہا نقصان ہوا وہاں پر بھی یو اے ای کسی سے پیچھے نہ رہا اور اس وقت ان علاقوں میں کئی سکول،کالج بن چکے ہیں اور اسی طرح کئی ہسپتال کام کرنا شروع کر چکے ہیں اور کچھ تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ اسی طرح خواتین کے لیے ووکیشنل سنٹرز بنائے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ زلزلہ زدگان، سیلاب سے تباہ کاری اور دہشت گردی سے متاثر ہونے والے علاقوں میں سڑکیں اور پل بنانے میں بھی دل کھول کر مدد کی۔ گزشتہ پانچ سال میںپاکستا ن اوریو اے ای کے تعلقات میں گرمجوشی کی کچھ کمی ہو گئی ا س کی مختلف وجوہات تھیںتاہم یو اے ای کی قیادت پاکستان میں سیاسی تبدیلیوں کا انتظارکررہی تھی۔نئی حکومت آنے کے بعدتعلقات میںایک بار پھرگرمجوشی پیدا ہو گئی اس دوران وزیراعظم عمران خان نے تین بار یو اے ای کا دورہ کیا۔ جبکہ تقریبا بارہ سال بعد خلیفہ بن زائدالہنیان نے چندہی ہفتے قبل پاکستان کاتاریخی دورہ کیا۔ حکومت نے اُن کی آمدپربھرپوراستقبال کیا اورعمران خان بذات خودان کی گاڑی چلاکر وزیراعظم ہائوس آئے یقینا یہ ایک مثبت پیشرفت ہے اوراس کے ساتھ دونوں ممالک کے تعلقات میںاور بہتری آئے گی ۔ یو اے ای کی نسبت پاکستان کے اپنے کچھ مسائل ہیں۔مثال کے طورپر یہاںرول آف لاء نہ ہونے کے برابرہے۔ مذہب کوبطورہتھیار استعمال کیا جاتاہے۔دہشتگردی بھی بہرحال ہے۔ پاکستان میں بے شمار ایسی فیلڈز ہیں جن میں بھرپور ترقی اور انویسٹمنٹ کے مواقع موجود ہیں۔قیادت شفاف ہو تو کرپشن پر مکمل کنٹرول ہو اوررول آف لاء کو بہترسے بہتر کرلیاجائے توکوئی وجہ نہیں کہ دنیا بھر کے انوسٹرزہمارے ملک میں نہ آئیں اورآج کی کانفرنس کااختتام انہیںامیدوںاورخواہشات پررہا۔ یو اے ای کے موجودہ سینئر حامدعبید الزابی نوجوان ،پڑھے لکھے اورانتہائی متحرک شخصیت ہیں۔ جس انداز میںانہوں نے گورنمنٹ کے ساتھ بزنس کمیونٹی اوراداروں کے ساتھ تعلقات استوار کر رکھے ہیں وہ بے حد مثالی ہیںقوی امید ہے کہ ان جیسی وژنری شخصیت دونوں ممالک کو مزیدقریب کرنے میں زبردست کردارادا کرے گی ۔ ساتھ ہی ساتھ ان کی نوجوان ٹیم بھی قابل ستائش ہے۔جس انداز میں انہوں نے سی جی ایس ایس کے تعاون سے اس بین الاقوامی سیمینار کا اہتمام کیا اور اس میں شرکاء کی اکثریت کو ذاتی طورپردعوت دی۔سکالرز اور میڈیا کا اہتمام کیااس سے میں بڑی اعتماد کیساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ دونوںممالک کے لیے یہ ایک نیا سنگ میل ثابت ہو گا۔