امام نسائی نے اسی حدیث کو اپنی دو کتابوں میں نقل کیا ہے جس کا مفہوم ہے کہ: "نبی کریم ؐنے ہم سے غزوہ ہند کا وعدہ فرمایا۔ (آگے ابوہریرہ فرماتے ہیں) " اگر مجھے اس میں شرکت کا موقع مل گیا تو میں اپنی جان و مال اس میں خرچ کردوں گا۔ اگر قتل ہو گیا تو میں افضل ترین شہداء میں شمار کیا جاؤں گا اور اگر واپس لوٹ آیا تو ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا۔"۔۔۔۔محمد بن عبد اللہ کے آزاد کردہ غلام ثوبان روایت کرتے ہیں۔
میری امت میں دو گروہ ایسے ہوں گے جنہیں اللہ تعالٰی نے آگ سے محفوظ کر دیا ہے ، ایک گروہ ہندوستان پر چڑھائی کرے گا اور دوسرا گروہ جو عیسیٰ ابن مریم کے ساتھ ہوگا۔۔۔۔(احمد بن حنبل، نساء ، طبرانی) ۔۔۔ ابوہریرہ کی دوسری حدیث ہے، ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریمؐ نے ہندوستان کا تذکرہ کیا اور ارشاد فرمایا:
"ضرور تمہارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا ، اللہ ان مجاہدین کو فتح عطا فرمائے گا حتیٰ کہ وہ(مجاہدین) ان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے اور اللہ ان کی مغفرت فرمادے گا۔ پھر جب وہ مسلمان واپس پلٹیں گے تو عیسیٰ ابن مریم کو شام میں پائیں گے۔ ابوہریرہ نے فرمایا " اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا سب مال بیچ دوں گا اور اس میں شرکت کروں گا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطاء کردی اور ہم واپس پلٹ آئے تو میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جو ملک شام میں اس شان سے آئے گا کہ وہاں عیسیٰ ابن مریم کو پائے گا۔ یارسول اللہ! اس وقت میری شدید خواہش ہوگی کہ میں ان کے پاس پہنچ کر انہیں بتاؤں کہ میں آپ کا صحابی ہوں۔ "(راوی کا بیان ہے) کہ حضور مسکرا پڑے اور ہنس کرفرمایا:" بہت زیادہ مشکل، بہت زیادہ مشکل۔"۔۔۔
اکثر علما کا ماننا ہے کہ اس پیشن گوئی میں غزوہ محمد بن قاسم سے لے کر محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، احمد شاہ ابدالی اور قضیہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کی مجوزہ جنگ بھی شامل ہیں۔بعض کا کہنا ہے کہ عہد ِنبوت سے لے کر تاقیامت برصغیر (ہندوستان) میں پیش آنے والی مسلمانوں اور غیر مسلموں کی تمام لڑائیوں کو 'غزوئہ ہند' قرار دے دینا درست ہے۔۔۔احادیث شریفہ میں ہندوستان کی فتح کی بشارت کا ذکر بہت تاکید کے ساتھ ہوا ہے، اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے ہی غزوہ ہند کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ بلاذری کی تحقیق کے مطابق ہندوستان پر مہم جوئی کا آغاز امیرالمؤمنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا۔ اس کے بعد امیرالمؤمنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں بعض مسلمان جاسوسوں کو ہند پر حملہ سے قبل وہاں کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا گیا البتہ جنگ کی نوبت نہیں آئی۔ امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے عہد میں حارث بن مرہ نے آپؐ کی اجازت سے ہندوستان پر حملہ کیا جس میں آپ کو کامیابی ہوئی۔۔۔ بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ حدیث میں جو ہند کا ذکر آیا ہے۔ اس سے خاص ہندوستان مراد نہیں ہے بلکہ ہندوستان کی طرف کے علاقے مراد ہیں جس میں خاص طور پر بصرہ اور اس کے اطراف کا علاقہ ہے اس کی تائید بعض آثار صحابہ سے ہوتی ہے جو یہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم لوگ ہند سے بصرہ مراد لیتے ہیں اس تاویل کے اعتبار سے غزوہ ہند کے سلسلہ کی روایات کا تعلق ابتدائی زمانہ میں جو فارس سے جنگیں ہوئیں ان سے ہے۔
ایک رائے یہ ہے کہ ابھی ان روایات کا مصداق پیش نہیں آیا بلکہ حضرت امام مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں اس معرکہ آرائی کا تحقق ہوگا اس رائے کے قائلین ان روایتوں کو پیش کرتے ہیں جو علامہ بن نعیم بن حماد نے اپنی کتاب ’’الفتن‘‘ میں پیش کی ہیں، جس میں یہ ذکر ہے کہ ’’ایک جماعت ہندوستان میں جہاد کرے گی اور اس کو فتح نصیب ہوگی اور جب وہ مال غنیمت لے کر واپس لوٹیں گے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ملک شام میں نزول ہوچکا ہوگا‘‘۔۔۔سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں: ’’جب آدم سب سے پہلے ہندوستان اترے اور یہاں ان پر وحی آئی تو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہی وہ ملک ہے جہاں خدا کی پہلی وحی نازل ہوئی اور چونکہ نور محمدی حضرت آدم کی پیشانی میں امانت تھا، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ کا ابتدائی ظہور اسی سرزمین پر ہوا۔ اسی لیے آپؐ نے فرمایا کہ مجھے ہندوستان کی طرف سے ربانی خوشبو آتی ہے’’۔۔۔ہندوستان کے ایک ساحلی علاقہ ’’مالابار‘‘ کے بادشاہ ’’چکر ورتی فرماس‘‘ کے بارے میں مشہور ہے کہ جب انہوں نے شق القمر کا معجزہ دیکھا تواپنے بیٹے کو ذمہ داری سونپ کر خود نبی کریم ؐکی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ ؐ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا۔ امام حاکم نے المستدرک میں ہندوستان کے ایک بادشاہ سے متعلق ایک روایت بھی نقل کی ہے کہ اس نے نبی کریم ؐکی خدمت عالیہ میں ایک ہدیہ پیش کیا۔ حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا:’ہندوستان کے بادشاہ نے رسول اللہؐ کی طرف ایک برتن تحفہ میں بھیجا، اس میں ادرک تھی۔ نبی کریم ؐ نے اس کو اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھلایا اور مجھے بھی اس میں سے ایک ٹکڑا عنایت فرمایا۔‘‘۔۔ہند کے بارے میں حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا’’زمین میں سب سے پاکیزہ ہوا ہند کی ہے’’۔۔۔مذکورہ تمام ابا احادیث اور روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عرب اہل ہند سے واقف تھے اور اہل ہند کے لیے یہ خوش نصیبی کی بات ہے کہ ان کا تذکرہ نبی کریمؐ کی زبان اقدس سے ہوا تھا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024