گرفتار ابھے نندن پائلٹ کو رہا کرنے کے لئے تیار ہیں، وزیراعظم عمران خان ٹیلی فون پر مودی سے بات کرنے کو تیار ہیں، پاکستان امن کی تلاش میں کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے لیکن اگر یہ سب پیشکشیں کمزوری سمجھی گئیں تو پاکستان ایٹمی جنگ کے لئے بھی پوری طرح تیار ہے۔ یہ امن کے لئے جاری سفارتی کارروائیوں کا خلاصہ ہے ‘ اب سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر ‘‘امن پیکج’’ لیکر کسی بھی وقت اسلام آباد لینڈ کر رہے ہیں ۔یہ صرف سعودی وزیر خارجہ نہیں صدر ٹرمپ سے مشاورت کے بعد تشریف لا رہے ہیں۔ پاکستان نے عالم مجبوری میں امن کی شدید خواہش کے ساتھ ساتھ ایٹمی جنگ کی آپشن کو بھی غیرت مندانہ حل قرار دے دیا ہے۔ واشنگٹن سے ماسکو اور ریاض سے نئی دہلی تک ٹلیاں کھڑک رہی ہیں جبکہ کڑاکے نکالنے والے گم سم بیٹھے چینی نوٹ گن رہے ہیں۔
پاکستان نے اپنی قوت کا برملا اظہارکرنے کے بعد نریندر مودی کو نئے امتحان میں ڈال دیاہے۔وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے یہ کہہ کر پوری دنیا میں امن پسندی اور صلح جوئی کا واضح پیغام دے دیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان بھارتی ہم منصب کو امن کے لئے ٹیلی فون کرنے کے لئے بھی تیار ہیں اور ساتھ ہی سوال کیا ہے کہ کیا نریندر مودی اس کے لئے تیار ہیں؟بھارتی غرور خاک میں ملنے کے باوجود موذی انسانیت کے خلاف دہشت گردی پر تْلا ہوا ہے۔ پاکستان نے یہ بھی برملا کہہ دیا ہے کہ اگر بھارتی وزیر خارجہ اور کل بھوشن کی ’ماتا‘ اوآئی سی اجلاس میں مہمان اعزاز ہوگی تو ہمارا وزیر خارجہ وہاں نہیں بیٹھے گا۔ اس صورتحال میں بے جان او آئی سی نے اگر بھارت کے پلڑے میں وزن ڈالا تو تنظیم عملًا وفات پاجائے گی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے گھر کے بھیدی نے بھانڈہ پھوڑ دیا ہے۔ نریندر مودی کے جنگی جنون کے منصوبے کے پس پردہ منصوبے کا راز فاش کردیا ہے۔ کرناٹک یونٹ کے بی جے پی کے سربراہ یدیورَپّا نے ’بَک‘ دیا ہے کہ پاکستان کے خلاف جارحیت سے آئندہ بھارتی انتخابات میں لوک سبھا کی 22 سے 28 اضافی نشستیں ہمیں مل جائیں گی۔بی جے پی کے بھیدی کے اس بیان پر کانگریس نے تنقید کے نشتر چلانے شروع کردئیے ہیں۔کرناٹک سے ہی کانگریس کے رہنما دنیش گْنڈوو راؤ نے اس بیان کو گھٹیا، شرمناک اور غیرذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہاکہ بی جے پی جنگ کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کررہی ہے۔ سابق وزیراعلیٰ اور کانگریس اور جنتا دل (سیکولر) اتحاد کی رابطہ کار کمیٹی کے چیئرمین سدرامایا نے بھی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ اس بیان نے مرکزی حکومت کی مشکوک نیت کو بے نقاب کردیا ہے۔
پاکستان اور بیرون ملک ’سنپولئے‘ نجانے کون سی بِل میں گھْس گئے ہیں۔ جب سے بھارتی طیارے پیوند خاک اور آگ کے گولے بن کر زمین سے ٹکرا کر پاش پاش ہوئے ہیں، محسوس ہوتا ہے کہ انہیں کے نیچے وہ تمام زبانیں بھی کہیں جل کر خاکستر ہوگئیں جو پاک فوج کے خلاف دن رات چلتی تھیں۔ وہ تمام شردھالو کہیں دکھائی نہیں دے رہے جو ’اپنا گھر ٹھیک کرنے‘ کی ٹویٹس کررہے تھے؟ ان کی زبانیں گْنگ، قلم اپاہج، ٹویٹر گونگے، بہرے اور اندھے ہوگئے۔ وہ جو پاک فوج کی دشمن سے مقابلہ کرنے، پلٹ کر وار کرنے اور دفاع کی صلاحیتوں کے بارے میں دن رات شعلے اگلا کرتے تھے۔ شاید پاکستان کے شاہینوں نے بھارتی لڑاکا طیاروں کو نہیں، ان سب کی زبانوں کو مارگرایا ہے۔
حسین حقانی جیسے ’نمک حرام‘ اور طارق فتح جیسے کمینہ صفت مودی کے تلوے چاٹنے والے اور دشمن سے امیدیں لگانے والے الطاف جیسے غدار اور اپنے بزرگوں کی ناخلف اولاد حسرت لگائے تھے کہ مودی نجانے کیا کرلے گا لیکن اللہ تعالی نے کرم کیا اور پاک فضائیہ نے بھارتی غرور کو مار گرایا، ان غداروں کی حسرتوں، امیدوں اور خبث باطنی کے منہ پر جوتا دے مارا۔ پاکستان کے اندر بھی وہ تمام نام نہاد دانشور کسی جھاگ کی طرح زمین کی تہہ میں اْتر گئے ہیں۔ اْن کا کہیں اتہ پتہ نہیں کہ گھر ٹھیک کرنے والے خود کس تہہ خانے میں جاچھپے ہیں۔ ان کی زبانوں کو اتنی توفیق نہ ہوئی کہ قوم کو حوصلہ دیتے، پاک فوج کی پیٹھ تھپتھپاتے اور دشمن کو للکار تو نہیں سکتے، کم ازکم ’ٹویٹ‘ کی حد ہی سہی کچھ لیپا پوتی ہی کرلیتے، اپنے ’پردھان منتری‘ کو حماقت سے روکنے کی کوئی ’دانشورانہ درفنطنی‘ ہی چھوڑتے۔ لیکن ایک ہو کا سناٹا ہے۔ ان کوچْپ لگ گئی جیسے بھارتی طیارے بھسم ہونے کے بعد بھارتیوں کی بولتی بند ہوگئی، مودی جی کی ساری پھنکار جاتی رہی، ساری ’’ہیکڑی‘‘ نکل گئی۔
’’جنگ وڈیو گیم اور جوہری ہتھیار کھلونے نہیں ہوتے۔ ٹی وی اینکر ٹھنڈے ہوجائیں اور جنگ بھڑکانے سے باز آجائیں۔‘‘ کے تبصروں کو سمجھا جاسکتا ہے کہ ان میں کیا پیغام چھپا ہے اور وہ کیا چاہتے ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ پلوامہ واقعے کے حقائق کو خود بھارتی میڈیا، دانشور، سیاسی وعسکری ماہرین بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تو پھر بھارتی ڈوزئیر کو پاکستان کیسے تسلیم کرلے گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان نے اب تک جنگ و جدل اور جارحیت کا کوئی اقدام نہیں کیا۔ جو جھوٹ کا پلندہ بھارت نے لغو انداز سے دنیا اور اپنے عوام کے سامنے پیش کرنے کی حماقت کی ہے، وہ مسترد ہوچکا ہے۔ وزیراعظم عمران خان مسلسل بھارت کو عقل کی راہ دکھارہے ہیں اور اپنے طرز عمل، بیانات اور اقدامات سے باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ بھارت حماقت کے بعد جہالت سے باز آجائے۔ بہرحال قلندر لاہوری علامہ محمد اقبال نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے …؎
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پہ کلام نرم ونازک بے اثر
بھارتی نادانوں کو اگر قدرت ان کے انجام کی طرف لیجارہی ہے تو اس پر کچھ کیا نہیں جاسکتا۔ ابوجہل اور ابولہب بننا اگر کسی کا مقدر ہوجائے تو پھر کیا کیا جائے۔ مودی اگر پورے بھارت کو قبرستان بنانے پر تلا ہے تو اس انجام کو کسی دانشور کا ٹویٹ، بھاشن اور چرب زبانی بدل نہیں سکتی۔ اْن دانشور پر بھی حیف ہے جو مودی کے اگلے کی جگالی کرکے خود کو دانائی کے تصوراتی مقام پر دیکھتے ہیں۔ تاریخ ان کے عبرتناک انجام کا باب ظالموں، قاتلوں، منافقوں، ابن الوقتوں اور میر جعفر وصادق کے ساتھ ہی لکھے گی۔ ایک پاکستانی بزرجمہر نے حال ہی میں بھارتی ٹی وی کو جس لب ولہجے میں انٹرویو دیا اس کو سننے کے بعد بس اتنا ہی کہاجاسکتا ہے کہ ’’کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے، کوئی ایتھکس ہوتی ہے‘‘ ۔
پاکستان نے بھارتی چتا کیا جلائی کہ اس نے ’خالصتان‘ کی تحریک میں بھی دوبارہ جان ڈال دی ہے۔ ٹورنٹو، کینیڈا میں خالصتان کے قیام کی تقریب ہوئی جس میں ایک نقشہ بھی جاری کیا گیا اور بتایا گیا کہ وہ بھارت سے آزادی چاہتے ہیں اور خالصتان بنا کر چھوڑیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ جمہوریہ خالصتان کے دستور کا بھی جلد اعلان کیاجائے گا۔ایک اور پہلو بھی سامنے آیا ہے جو دلچسپ ہے اور عالمی دنیا کو سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔ عالمی محققین نے تجزیہ کیا ہے کہ اگر جوہری قوت سے لیس پاکستان اور بھارت جنگ چھڑ گئی تو اس کے اثرات صرف دونوں ممالک، جنوبی ایشیاء تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پورے کرہ ارض کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ ان محققین کے مطابق بھارت اور پاکستان کے درمیان جوہری صلاحیت کا استعمال ہوگیا تو ایٹمی استعمال کے نتیجے میں ایک دھواں پیدا ہوگا جو دو ہفتے کے اندر پورے کرہ ارض کو ڈھانپ لے گا۔
زمین سے آسمان کی جانب فضاء میں بیس سے پچیس کلومیٹر اوپر دھویں کی چادر تن جائے گی جو بارش برسنے کے عمل کو روک دے گی۔ ان ماہرین نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ اس دھوئیں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی چادر سال ہا سال تک آسمان پر تنی رہے گی۔ یورپ سمیت دنیا کے کسی بھی خطے میں رہنے والے افراد جو اس جنگ کا حصہ بھی نہیں، انہیں بھی اس کے اثرات بھگتنا ہوں گے۔ اس صورتحال کا اثر موسم پر پڑنے سے دس سے چالیس فیصد زرعی اجناس کی پیداوار کم ہوجائے گی جن میں کپاس، گندم اور مکئی شامل ہیں۔ بْرے موسم کی وجہ سے بتدریج فصلیں کم ہوتی جائیں گی اور غذائی قلت پیدا ہونے سے لوگ بھوک سے مر جائیں گے۔ ان ماہرین کی تحقیق میں دعویٰ کیاگیا کہ ایک سے دو ارب لوگ پاکستان اور بھارت کی جنگ کے نتیجے میں بھوک سے مر جائیں گے۔ علاوہ ازیں کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھنے سے مزید مسائل اور پیچیدگیاں پیدا ہوں گی جس کے نتیجے میں نوے فیصد کرہ ارض کی آبادی بھوکی مرجائے گی اور کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔
عالمی برادری کو اگر اتنی فکر ہے تو انہیں چاہئے کہ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ فی الفور حل کرے۔ صرف یہی ایک وہ حل ہے جس سے دنیا بچ سکتی ہے۔ قدرت کا ازل سے اصول اور فیصلہ ہے کہ خون ناحق بہنے سے تباہی آتی ہے۔ اس حقیقت کو نہ سمجھنے والے قدرت کے قہر وغضب کا انتظار کریں، ورنہ توبہ کرکے سیدھے راستے پر آجائیں۔عمران خان بزبان شاعر کہہ رہے ہیں ۔
امن ہو کہ جنگ ہو ساتھیوں کے سنگ ہو
خون ہو کہ رنگ ہو سب ہمیں پسند ہے
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024