جنگ پکنک نہیں ہوتی

جنرل مشرف کے زمانے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پیس پراسیس کا آغاز ہوا تھا۔ باہمی تنازعات کے حل کے لئے سٹرکچرڈ ڈائیلاگ کا ڈول ڈالا گیا۔ بہت مذاکراتی گروپ تشکیل پائے اور آئے دن کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا تھا۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے اعتماد سازی کی تجاویز کے ڈھیر لگ گئے۔ جس سے خطہ میں پائیدار امن کی امید بندھی تھی، مگر ممبئی حملوں نے سب کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ گو سارا کیا دھرا بھارت کا اپنا تھا، مگر الزام پاکستان پر دھرا گیا۔ اور اسی بہانے باہمی رابطے کی سب راہیں بند کر دیں۔ یوں گزشتہ دس برس سے پاکستان کی تمام تر کاوش کے باوجود بھارت کسی بھی مدعا کو لے کر مذاکرات کی میز پر آنے سے انکاری ہے۔
بھارت کے داخلی مسائل گھمبیر قسم کے ہیں۔ پانچ ریاستوں میں تو علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ آزادی کشمیر کی تحریک تو تقریباً میچور ہو چکی۔ کشمیر کی تیزی سے بگڑتی صورت حال نے بھارت کو پینک کر دیا ہے۔ ریاست مٹھی کی ریت کی مانند ہاتھ ہے نکلتی جا رہی ہے اور آزادی کا سورج طلوع ہوا چاہتا ہے۔ پلوامہ میں ہونے والا 14 فروری کا واقعہ تو بھارت کو سرے سے ہضم نہیں ہو رہا۔ جس کی وجہ کشمیر کے بارے میں اس کا فرسودہ نقطہ نظر ہے۔ یہ ذلت ، رسوائی اور پریشانی محض اس لئے کہ گزشتہ 70 برس سے کشمیر کے حوالے سے وہ اٹوٹ انگ کے بیانیے پر اڑا ہواہے اور جان بوجھ کر حقائق سے آنکھیں چرائے ہوئے ہے۔ حالانکہ اس دوران پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا۔ پچھلے تیس برسوں میں تو بالخصوص کشمیر کی تحریک آزادی ایک نئی راہ پر چل نکلی ہے۔
اب کشمیر کے باسیوں کا ایک ہی مشن ہے۔ آزادی اور ہر قیمت پر آزادی۔ مذہب ان کا تشخص ہے اور پاکستان کے ساتھ لا الہ الاللہ کا رشتہ ہے۔ تبھی تو شہیدوں کے لاشے پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن ہو رہے ہیں۔ پلوامہ کوئی عام واقعہ نہیں۔ اس میں بھارتی سپاہ کے پچاس کے لگ بھگ جوان ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ بھارتی مظالم سے تنگ آئے کشمیری نوجوان کا کارنامہ ہے۔ تحریک کشمیر کے بدلتے تیور پوری دنیا کو دکھائی دے رہے ہیں اگر نہیں دکھتے تو مودی سرکار کو۔ بھارت کے اندر سے اٹھنے والی ثقہ آوازیں بھی پلوامہ کو کشمیر کی تحریک آزادی کا ٹرننگ پوائنٹ بتا رہی ہیں۔ نریندر مودی کچھ بھی کہیں حقیقت یہی ہے کہ مقبوضہ علاقے میں اپنی سکیورٹی پالیسی تبدیل کرنے کے علاوہ بھارت کے پاس کوئی چارہ نہیں رہا۔
جوان خون میں بڑی حدت ہوتی ہے جو ناانصافی تو شاید وقتی طور پر برداشت کر لے، مگر تضحیک، ذلت اور بدزبانی کو برداشت نہیں کرتا۔ قابض فوج نے وادی کے اندر کشمیری مائوں، بہنوں، بیٹیوں کے ساتھ ذلت آمیزسلوک روا رکھا ہے، اس سے ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا۔ ریپ کی منظم وارداتوں نے ان کے قلب کو ہی نہیں روح کو بھی چھلنی کر دیا ہے اور وہ زندگی پر موت کو ترجیح دیتے ہیں۔
ایک بڑا مقصد ان کے سامنے ہے۔ جس کے حوالے سے کوئی آس رہی ہے نہ امید، اور نہ ہی کسی قسم کا کنفیوژن۔ اور جس کیلئے وہ خون کا آخری قطرہ تک بہانے کوتیار ہیں۔ سنگ و آتش کی اس مخلوق کو اب بھارت مزید دبا سکتا ہے اورنہ نظراندازکرسکتا ہے کشمیر کی روایتی قیادت بھی اس حوالے سے مکمل طور پر آن بورڈ ہے۔ اور وہ جانتے ہیں کہ اب انہیں کہیں زیادہ ایکٹو ہونا پڑے گا، ورنہ تحریک کی قیادت ان سربکف نوجوانوں کے ہاتھ بھی لگ سکتی ہے۔
مودی سرکار کے جنگی جنون کیخلاف بھارت کے اندر سے بھی عاقلانہ آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ان کی اپنی جماعت سے لوک سبھا کے رکن نے موصوف کو کہا تھا کہ سیاست کو زندگی اور موت کے طور پر نہیں لینا چاہئے اور ہارجیت تو اس کا حصہ ہے۔ محض سیاسی شاہ مات کی خاطر خطے کے امن کو دائو پرنہیں لگایا جا سکتا۔ پاک، بھارت تنائو کے علی الرغم بھارت کے ایک سابق انٹیلی جنس چیف اے ۔ ایس دُلت نے چند روز پہلے ایک خوبصورت جملہ لکھا تھا: War is not a picnic جنگ پکنک نہیں ہوتی۔ یہ کوئی کھیل تماشہ نہیں کہ اسے انجائے کیا جا سکے۔ یہ بے حد سیریس معاملہ ہے۔ کیونکہ اس میں خون بہتا ہے، لاشے گرتے ہیں۔ کھیت، کھلیان، کارخانے کاروباراُجڑتے ہیں۔ جوہری ہتھیاروں والی جنگ سے تو ویسے ہی ہول اٹھتا ہے، کیونکہ اس کے بعد کچھ نہیں بچتا۔ گھاس کا تنکہ بھی نہیں۔ اور انسان کی تخلیق نو کی نوبت آ جاتی ہے۔
مسٹر گوکھلے بھارت کے سیکرٹری خارجہ ہیں۔ ایک منجھے ہوئے سفارتکار۔ دو برس پہلے چین میں سفیر تھے تو بھارت اور چین کے درمیان ڈوکلم Doklam کے معاملہ پر ہونے والی گرما گرمی کو ٹھنڈا کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا، مگر نوکری کی مجبوریاں ملاحظہ ہوں کہ بالاکوٹ کے علاقہ میں بھارتی فضائیہ کی بزدلانہ کارروائی پرمیڈیا بریفنگ کیلئے آئے، تو چھ سطروں کا لکھا کاغذ ہاتھ میں تھا۔ وہ پڑھا اور اٹھ کر چل دئیے۔ فرمایا: ’’ہمارے جہاز بالاکوٹ میں واقع جیش محمد کے ایک تربیتی کیمپ کو تباہ کرنے گئے تھے، جس میں وہ کامیاب رہے، مذکورہ تربیتی مرکز میں بھارت پر حملوں کیلئے فدائین تیارکئے جاتے تھے۔‘‘ صحافیوں نے بہت واویلا کیا۔ لبوں پر آئے سوال کلبلاتے رہ گئے۔ وہ سیکرٹری صاحب کی گول مول سٹیٹمنٹ کی وضاحت چاہتے تھے۔ مگر ’’بساآرزو کہ خاک شدہ‘‘۔
دوسری طرف بھارتی میڈیا کی پھرتیاں دیکھنے لائق تھیں۔ سیکرٹری خارجہ گوکھلے جن تفصیلات سے پہلو بچا کر نکل گئے تھے، بھارتی چینلز ان کی تفصیلات یوں پیش کر رہے تھے کہ گویا سب کچھ ان کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہو، بالا کوٹ میں جیش محمد کے فرضی تربیتی کیمپ میں ہلاکتوں کی تعداد 350 بتائی گئی۔ایک اینکر تو سنبھالے نہ سنبھل رہا تھا۔ گرتی عمارتوں کا ملبہ، اڑتے لاشے اور آگ اور دھوئیں کے بادل اس کے ذہن رسا پر جانے کہاں سے نازل ہو رہے تھے۔ ایک بی بی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان کا جوہری پروگرام محض مفروضہ ہے اور اس جھوٹ کا پرہ چاک کرنے کے لیے ائیر سٹرائیک ضروری تھی۔ جس پر اس کے پروگرام میں شامل ایک مہمان بھارتی فضائیہ کے سابق ایئرمارشل شرما نے اسے ایسی غیر ذمہ دارانہ گفتگو پر ڈانٹا تھا۔
اب آگے کیسے بڑھنا ہے؟۔ کچھ ایسا کیا کیا جائے کہ دونوں ملکوں کے وقار اور عزت نفس پر حرف آئے بغیر ہم اس مشکل صورتحال سے نکل آئیں۔ اور خطہ جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہے۔ بھارت کی طرف سے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہ ہو، توجناب وزیراعظم کی مدبرانہ تقریر سے مستقبل کا نقشہ بنانے میں مدد لی جا سکتی ہے۔ موصوف کا یہ کہنا ہے کہ جنگ شروع کرنا آسان اور خاتمہ بے حد دشوار ، اگر خدانخواستہ یہ چل نکلی تو کسی کے قابو میں نہیں رہے گی۔ ہم کشیدگی کو بڑھانا نہیں چاہتے۔ بالاکوٹ مہم جوئی کا جواب دینا ہماری مجبوری تھی۔ پلوامہ واقعہ کی تحقیقات میں مکمل تعاون کا یقین دلاتے ہوئے جناب وزیراعظم نے بھارت کے ساتھ ہمدردی بھی کی اور دلجوئی بھی کہ مرنے اور زخمی ہونے والوں کے خاندانوں کی اذیت کا پورا احساس ہے اور ہم ان کے ساتھ گہری ہمدردی رکھتے ہیں۔ مسئلہ کا صرف ایک ہی حل ہے کہ فریقین جلد از جلد مذاکرات کی میز پر آئیں اور ماضی کا بوجھ ایک طرف رکھتے ہوئے امن، سلامتی اور انسانیت کے نام پر کچھ ایسا کر جائیں کہ غربت، افلاس، بیماری بے روزگاری اور بدامنی سے لاچار خطہ کے ڈیڑھ ارب انسانوں کی زندگیوں میں کوئی چارم پیدا ہو سکے۔پس تحریر: باقی تو سب ٹھیک ، عالمی برادری میں بھی اس حوالے سے ہلچل شروع ہو چکی، مگر ایک اندیشہ بدستور ہے کہ دونوں جانب سرحدوں پر تیار کھڑی فوجوں سے کوئی چوک نہ ہو جائے۔ یا پھر بھارت خفت مٹانے اور حساب برابر کرنے کے لئے پھر سے کوئی مہم جوئی نہ کر دے۔ اگر خدانخواستہ کچھ ایسا ہوا تو تمام تر اتمام حجت کے بعدقوم آقادمولی حضور جناب رسالت مآبؐ کے اس فرمان پر لبیک کہے گی:
لوگو! دشمن سے مقابلہ کی آرزو مت کرو اور اللہ سے عافیت مانگو ، لیکن اگر نوبت آ جائے، تو پھر ڈٹ جائو، اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ (بخاری )