طاقتور بالائی طبقات کے ہاتھوں نچلے طبقات کا استحصال ایک عام سی بات بن گئی ہے۔ تمام پیداواری ذرائع اور دولت کے سرچشموں پر چند مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری ہے اور یہ خاندان جائز یا ناجائز طریقوں سے دن بدن امیر سے امیرتر ہوتے چلے جا رہے ہیں جبکہ پاکستان کے افراد کی نوے فیصد اکثریت بمشکل اپنے تن و جاں کے رشتے کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ 40 فیصد سے زیادہ پاکستانی عوام غربت کے کم از کم معیار 1.25 ڈالر پر حیوانوں سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں جبکہ 75 فیصد پاکستانی بمشکل دو ڈالرز روزانہ پر زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہے ہیں۔ اس پر مستزاد کہ یہی طاقتور بالائی طبقہ جو سیاست، صنعت، تجارت اور زراعت پر مکمل اجارہ داری رکھتا ہے وہ غریبوں کا ہمدرد بھی بنا ہوا ہے اور ہمارے محنت کش عوام انہی کو ہی مسیحا خیال کرتے ہیں جو ان کے ٹیکسوں کی کمائیوں کو بے دردی سے لوٹتے ہیں اور اقتدار میں آ کر غریب عوام کے پیسوں سے اللے تللے کرتے ہیں اگرچہ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور اسلام کو زندگیوں کا محور قرار دیتے ہیں مگر کوئی اس طبقے سے سوال کرے کہ دین میں دوسروں کا استحصال کر کے امیر ہونے کو کب جائز قرار دیا گیا ہے؟ ہمارا طاقتور اور بالائی طبقہ اسلام کو سرمایہ دارانہ نظام کی معاشی سرگرمی کے ساتھ جوڑ کر غریبوں اور متوسط طبقے کے لوگوں کا خون چوس چوس کر اس استحصالی نظام کو اس قدر مضبوط بنا چکا ہے کہ اب استحصال زدہ طبقہ کرپشن کو برا خیال نہیں کرتا۔ یہ طبقہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ موقع ملنے پر بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لے۔ ہمارے ہاں سرمایہ دار معیشت کی بنیاد اور محور منافع اور ذاتی مفاد ہوتا ہے اور اس کے زیراثر لوگوں کے اخلاقی، سماجی، ثقافتی اور مذہبی اقدار استوار ہوتی ہیں۔ مغربی ممالک میں سرمایہ دارانہ معیشت کو اجارہ دارانہ کارٹلز میں تبدیل ہونے نہیں دیا جاتا ہے۔ کوئی فرد، ادارہ یا شخص مسابقت کے عمل میں غیرقانونی طریقہ ہائے کار اختیار کرے تو اسے کاروباری مقابلوں کو منصفانہ رکھنے والے ادارے بلیک لسٹ کر دیتے ہیں۔ بے ایمانی اور جعلی پراڈکٹس بیچنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے کارساز اداروں کو معمولی نقص پر لاکھوں فروخت کردہ گاڑیاں واپس لینی پڑ جاتی ہیں۔ وہاں کے کاروباری افراد ٹیکس چوری کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ امریکہ میں کئی ارب پتیوں کو ٹیکس بچانے کی وجہ سے تاحیات جیلوں میں رہنا پڑا۔
مگر ہمارے ہاں کے صنعت کار، تاجر، سٹاک ایکسچینج اور لینڈ مافیا کے افراد کرکٹ پر یا سینٹ کی سیٹ حاصل کرنے کے لئے کروڑوں روپے خرچ کر دیں گے۔ انتخابات جیتنے کے لئے خطیر رقمیں خرچ کریں گے۔ اپنے لیڈروں اور سیاسی پارٹیوں کو کروڑوں روپے چندہ دیں گے مگر اپنے ملازمین یا عام افراد کی مدد کے لئے وہ ہاتھ کھینچ کر خرچ کرتے ہیں تاہم اگر میڈیا پر تشہیر ہو رہی ہو تو پھر چند لاکھ خرچ کر کے اپنی نیکی کا پرچار ضرور کر دیتے ہیں۔
پاکستان میں سرمایہ دارانہ استحصال کو مذہب کی غلط تشریح سے بھی جواز بخشا جاتا ہے۔ یہی وہ دوعملی اور تضاد ہے جو ہمارے ہاں انسانوں کو کئی چہروں اور تضادات کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور کئے ہوئے ہے لہٰذا کیسے ممکن ہے کہ استحصالی نظام میں کمزوروں اور محکموں کا استحصال روکا جا سکے۔
لیکن اگر ریاست یہ زیادتی کرے، بیوروکریسی، عدلیہ اور چند مخصوص اداروں میں تو بڑے بڑے افسروں کا سروس سٹرکچر موجود ہو مگر نچلے طبقے کے ملازمین کو تمام عمر حکومتی اداروں میں بھی جائز حق سے محروم کیا جائے تو پھر ایسے حکمرانوں کی پکڑ کون کرے گا۔ رزق حلال میں یقین رکھنے والے محمد صدیق ایک ایسی جگہ ملازم ہیں جہاں بالائی آمدنی کے بے تحاشا اختیارات اور مواقع ہیں۔ مگر وہ رزق حلال کمانے پر بضد ہیں، انہوں نے ایک خط کے ذریعے نچلے درجے کے ریاستی ملازمین کے مسائل اجاگر کئے ہیں جن کو حل کرنا ہمارے ارباب بست و کشاد کی ذمہ داری ہے۔ اگر انتظامیہ کے لئے نچلے درجے کے ملازمین کیڑے مکوڑے ہیں تو پھر چیف جسٹس آف پاکستان ہی ان کی دادرسی فرمائیں تاکہ غریبوں کے چولہے جلتے رہیں۔ صدیق صاحب لکھتے ہیں ’’ہمارے ہاں بڑے بڑے سرکاری ملازمین کو تو ترقی کے لئے برابر مواقع فراہم کئے جاتے ہیں لیکن چھوٹے سرکاری ملازمین جس سکیل پر بھرتی ہوتے ہیں اسی سکیل پر ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں مثلاً ہمارے ادارے میں گریڈ سات سے نچلے ملازمین کو ساری ساری عمر ملازمت کرنے کے باوجود کبھی ترقی نہیں دی جاتی ہے۔ کسی ایک آدھ کو افسروں کا منظور نظر ہونے پر کبھی کبھار اگلے گریڈ میں جانے کا موقع ملتا ہے۔ گریڈ ایک سے گریڈ سات کے ملازمین ہر وقت اپنے افسران بالا کی پسند اور ناپسند کی بھینٹ چڑھے رہتے ہیں۔ اگر وہ صاحب کے ذاتی خدمت گزار نہ بنیں، انکی بیگمات اور بچوں کو خوش نہ رکھیں تو پھر یہ چپراسی، مالی، سپروائزر، ڈرائیور، بلڈنگ چیکرز، سینٹری ورکرز کہیں کے نہیں رہتے۔ ان چھوٹے ملازمین کو پرائیویٹ نوکری کرنے کا بھی حق حاصل نہیں۔ یہ آٹھ گھنٹوں کی بجائے صاحب اور اہل خانہ کے 24 گھنٹے کے ملازم ہوتے ہیں۔ یہ کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں اور بمشکل زندگی گزار رہے ہیں۔ ان ملازمین کے کبھی بھی محکمانہ امتحانات نہیں ہوتے ہیں۔ ہونا تو چاہئے کہ چھوٹے ملازمین اگر پرائیویٹ طور پر امتحانات دے کر اپنی تعلیمی قابلیت میں اضافہ کریں تو ان کو اپنے محکموں میں جونیئر کلرک یا سپروائزر کے طور پر پروموٹ کیا جائے۔ انہیں بھی ہائوسنگ، تعلیم اور میڈیکل کی سہولتیں ملنی چاہئیں۔ ان کے معاشی حالات بہتر بنانے کے لئے انکی ملازمتوں کا بھی کوئی سٹرکچر ہونا چاہئے اور ایسے سروس رولز ہوں جو انہیں ملازمت کا تحفظ فراہم کریں۔ صدیق صاحب نے کنٹونمنٹ بورڈ کے چھوٹے ملازمین کا کیس پیش کیا ہے مگر انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ان کی اکثریت افسران کے گھروں میں کام کرتی ہے۔ ملک کے تمام کینٹ بورڈ میں یہ ملازمین اپنی تنخواہوں کا 40 فیصد اپنے افسران کو رشوت کے طور پر پیش کر دیتے ہیں اور اپنی ملازمتوں سے غیرحاضر رہ کر پرائیویٹ کام کرتے ہیں لہٰذا جہاں ان ملازمین کو بہتر سرکاری سہولتیں اور ملازمتوں کو تحفظ ملنا چاہئے وہیں ان اداروں کے ہیڈکلرک جو صاحب اور ان کے مابین ناجائز کاموں اور رشوت لینے دینے کے لئے مڈل مین کا کردار ادا کرتے ہیں ان کو بھی رزق حلال کمانا چاہئے۔ پاکستان بھی عجیب ملک ہے، یہاں بڑے بڑے سرکاری افسران کو لاکھوں روپے تنخواہیں ملتی ہیں مگر پھر بھی انہیں موقع ملے تو وہ کرپشن سے باز نہیں آتے۔ آج پاکستان میں وہی سرکاری ملازم ایماندار ہے جسے کوئی ایسی پوسٹ نہیں ملی جہاں سے اسے بالائی آمدنی حاصل ہو تاہم معمولی استثنیٰ ہو سکتا ہے مگر نچلے طبقے کے ملازمین جو سرکاری اداروں میں ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ تنخواہ لینا انکا حق ہے مگر انہیں اپنے فرائض منصبی انجام نہیں دینا ہیں تاہم اگر وہ پٹواری ہے یا پولیس، کنٹونمنٹ، واپڈا بورڈ، ڈسٹرکٹ گورنمنٹ، کسٹم یا انکم ٹیکس جیسے محکموں کا بااختیار ادنیٰ ملازم ہے تو پھر بڑے اور چھوٹے گریڈ کی بجائے لاکھوں روپے کی دیہاڑی لگانے والا بابو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں ریلوے، پی آئی اے، سٹیل مل، واپڈا جیسے ادارے سفید ہاتھی بن چکے ہیں، سی ڈی اے ہو یا تحصیل میونسپل ادارے ہوں ہر طرف کا باوا آدم ہی نرالا ہے لہٰذا جہاں بڑے اور چھوٹے سرکاری ملازمین اپنے حقوق کی باتیں کرتے ہیں وہیں انہیں چاہئے کہ وہ اپنے فرائض بھی ایمانداری سے انجام دیں اور رزق حلال کی برکت سے مستفید ہو کر اس ملک کے ریاستی اداروں کو ترقی دیں نہ کہ ان اداروں کو تباہی و بربادی کا شکار کر کے اس ملک کو نقصان پہنچائیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024